آئی یو آئی پی کے تقریباً تین سو نمائندوں میں سے 9 کا انتخاب‘ جو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں فیصلہ سازی کریں گے، بیک وقت بڑا اعزاز بھی تھا اور بہت مشکل بھی‘ اور عرب و ترک نمائندوں کی غالب اکثریت کے باعث انہی کا انتخاب تقریباً یقینی تھا۔ سب سے پہلے کسی عرب نمائندے نے ڈاکٹر بولوت کا نام پیش کیا۔ ڈاکٹر بولوت ابتدا سے اس تنظیم کے خیال اور اس پر عملدرآمد میں پیش پیش تھے‘ اس لیے یہ بہت اچھی تجویز تھی۔ میرا خیال تھا‘ ان کے بعد اردن کے ڈاکٹر بیلبسی کا نام پیش کیا جائے گا‘ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ڈاکٹر بولوت کے فوراً بعد بلغاریہ کے نمائندے حسن جمیل الخطیب نے پاکستان کا نام لیا‘ اور کہاکہ میں اپنے پاکستانی بھائی سعود عثمانی کا نام تجویز کرتا ہوں۔ یہ میرے لیے حیرت کی بات اس لیے تھی کہ حسن صاحب سے میری سرسری سی ایک ملاقات ہوئی تھی۔ میرا نام پکارا گیا اور حاضرین سے ہاتھ اٹھا کر رائے دینے کو کہا گیا۔ مزید خوشی کی بات تھی کہ سب نے ہاتھ اٹھاکر اس تجویز کی تائید کی۔ کسی اعتراض کا انتظار کیا گیا لیکن کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔ میرے بعد اردن کے ڈاکٹر بیلبسی، ترکی کے محمد اگی راکا، ملائیشیا کے ڈاکٹر ہاشم، کویت کے ڈاکٹر ناصر، امریکہ کے ڈاکٹر کلیم، مقدونیہ کے جناب اسماعیل، نائیجیریا کے عبدالرزاق کے نام تجویز کیے گئے۔ اسی دوران سعودی عرب، لبنان، مصر کے نمائندوں کے نام بھی تجویز ہوئے۔ اب کل نام 12 تھے جن میں سے 9 کا چناؤ ہونا تھا۔ مائیک سے اعلان کیا گیاکہ کل بارہ نام تجویز ہوئے ہیں تو یہ طے کریں کہ کیا ان کے درمیان ووٹنگ کروالی جائے یا کوئی تین افراد دستبردار ہونے کیلئے تیار ہیں؟ قدرے تذبذب کے بعد سعودی عرب کے مندوب نے دستبرداری کا اعلان کیا۔ ان کے بعد لبنان اور مصر نے بھی دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ گویا اب ووٹنگ کی ضرورت نہیں تھی۔
9 ناموں کا اعلان کرکے یہ آخری نشست ختم ہوئی۔ سب مندوبین نے بورڈ کے ارکان منتخب ہونے والوں کو مبارک دی۔ میں بلغاریہ کے نمائندے کے پاس گیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے میرا استقبال کیا اور مجھے مبارک دی۔ اس کے بعد گروپ فوٹو شوٹ ہوا۔ کھانے کیلئے بورڈ کے ارکان کو باقی مندوبین سے الگ کمرے میں لے جایا گیا۔ یہاں کھانے کے ساتھ ساتھ اور اسی دوران بورڈ ارکان کی پہلی میٹنگ تھی۔ مجھے احساس تھاکہ یہ نشست صرف اعزاز نہیں بلکہ کام کا بھی تقاضا کرتی ہے اس لیے اس کا بوجھ بھی محسوس کررہا تھا۔ سب سے پہلا مرحلہ بورڈ کے اندر عہدیداران کے تقرر کا تھا۔ صدر، نائب صدر، جنرل سیکرٹری اور معتمد خزانہ کے چار عہدوں پر تقرر پہلے قدم کے طور پر ضروری تھا۔ میری اور ڈاکٹر محمد اگی راکا کی تجویز پر صدر کیلئے ڈاکٹر بولوت، نائب صدر کیلئے ڈاکٹر بیلبسی، جنرل سیکرٹری کیلئے ڈاکٹر ناصر کے نام منظور ہوئے۔ معتمد خزانہ کے لیے محمد اگی راکا سے بہتر کوئی اور نہیں تھا کیونکہ تنظیم کا مرکز ترکی میں بننا تھا اور فنڈز بھی یہیں جمع ہونے تھے‘ سو محمد اگی راکا کو خزانچی کا عہدہ سونپ دیا گیا۔
اگلا فیصلہ یہ کرنا تھا کہ جنرل اسمبلی کے ارکان کیلئے ایک بار کی رجسٹریشن فیس اور سالانہ فیس کیا ہونی چاہیے۔ سب متفق تھے کہ یہ فیس نہ اتنی کم ہوکہ تنظیمی اخراجات پورے نہ ہو سکیں‘ نہ اتنی زیادہ کہ رکن بننا مشکل ہوجائے۔ ظاہر ہے ارکان میں کم اور زیادہ وسائل والے ہر طرح کے لوگ شامل ہوا کریں گے۔ کچھ دیر تبادلۂ خیال کے بعد 150$ رجسٹریشن فیس اور اتنی ہی سالانہ فیس طے کرلی گئی۔ طے ہوا کہ بورڈ کے ارکان وقتاً فوقتاً آن لائن میٹنگز کرتے رہیں گے اور اپنے اپنے ملک میں تنظیم کے فروغ کی کوششوں سے آگاہ کرتے رہیں گے۔
بورڈ کی میٹنگ ختم ہوئی تو ارکان بورڈ کا فوٹو شوٹ ہوا۔ اب کوئی اور اجلاس یا میٹنگ نہیں تھی لیکن تمام مہمانوں کو آیا صوفیہ مسجد لے جایا جانا تھا اور اس کے بعد باسفورس میں کروز ڈنر‘ گویا شاہی بجرے پر شاہی خاصہ تناول کرنا تھا۔ دو تین بسیں آیا صوفیہ لے جانے کیلئے تیار تھیں۔ میں اس سے پہلے دو تین بار آیا صوفیہ نہ صرف آیا تھا بلکہ اس کے بارے میں دو تین تفصیلی کالم بھی لکھ چکا ہوں‘ لیکن آیا صوفیہ میوزیم کی مسجد میں ایک بار پھر تبدیلی کے بعد یہاں آنے کا پہلا موقع تھا۔ اس کے میناروں سے اذان کی صدا سننے کو کبھی نہیں ملی تھی۔ یہ کیا قیمتی لمحہ تھا جس نے ہمیں اپنے پاس بلا بھیجا تھا۔
عظمت، ہیبت، سطوت، شکوہ‘ کون سا لفظ یا کون سے الفاظ ہونے چاہئیں جو آیا صوفیہ کے حسب حال ہوں یا جو اسے بیان کر سکیں۔ کیا کہیں گے ایک ایسی شاندار عمارت کو جس نے تاریخ دیکھی بھی ہو اور تاریخ بنائی بھی ہو۔ تاریخ بھی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال کی۔ ہم مغل بادشاہوں یا سلاطین دہلی کی تاریخی عمارات کے جاہ و جلال کی بات کرتے ہیں لیکن عمر کے اعتبار سے تو یہ آیا صوفیہ کے سامنے کے بچے ہیں۔
لکھنے میں ''ہیگیا صوفیہ‘‘ پڑھنے میں آیا صوفیہ۔ یونانی زبان میں مطلب ہے مقدس دانش۔ یہ ''یونانی آرتھوڈاکس کرسچین پیٹری آرکل کیتھیڈرل‘‘ عیسائیوں کا وہ فرقہ جو بعد میں قریب قریب نابود ہوگیا۔ کچھ عرصے رومن کیتھولک کلیسا بھی رہا اور اس کے قبضے پر جو خون بہایا گیا وہ بھی تاریخ میں درج ہے لیکن یونانی کلیسا کی شناخت جلد لوٹ آئی۔ وہ کلیسا جو ایک زمانے تک بازنطینی سلطنت کا مرکز و محور رہا اور بے شمار تاریخی واقعات کا شاہد۔
تصور کیجیے کہ537 عیسوی میں یہ عمارت بنائی گئی یعنی طلوع اسلام سے بھی ربع صدی پہلے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے 34 سال پہلے یہ عمارت تیار ہوچکی تھی۔ اس زمانے میں کسریٰ اور قیصر کے محلات اپنی جگہ پرشکوہ رہے ہوں گے لیکن آج بس ان کے کچھ ستون، کچھ چوبارے اور کچھ فصیلیں ان کا پتہ دیتی ہیں لیکن آیا صوفیہ اسی طرح موجود ہے۔ اپنے غیرمعمولی بڑے گنبد اور بڑے ہال کے ساتھ۔ ان ڈیڑھ ہزار سالوں میں کئی بار مرمت، تعمیر سے گزرنے کے باوجود بنیادی ڈھانچہ وہی ہے۔ وہی ہیبت، وہی عظمت، وہی شان دل آرائی۔
ہم عصر کی نماز سے کچھ پہلے یہاں پہنچے۔ اتوار کا دن تھا یعنی ترکی میں چھٹی کا دن۔ اندازہ تھاکہ یہاں کافی ہجوم ہوگا‘ لیکن میں ایسا بے پناہ ہجوم دیکھ کر حیران رہ گیا۔ آیا صوفیہ کے باہر ترکوں کا روایتی وضوخانہ بنا دیا گیا ہے۔ یہاں وضو کیلئے قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مشکل سے وضو کی جگہ ملی۔ میں نے دیکھاکہ آیا صوفیہ سے ٹکٹ ختم کردیا گیا ہے اور یہ بہتر فیصلہ تھا۔ اندر بڑے کشادہ اور عظیم ہال میں بھی قدرے تبدیلی نظر آئی۔ شروع کا حصہ سیاحوں کیلئے رکھا گیا ہے اور محراب کی طرف نصف سے زائد مسجد سیاحوں کیلئے نہیں بلکہ نمازیوں کیلئے رکھی گئی ہے۔ یہی انتظام پہلے نیلی مسجد یعنی مسجد سلطان احمت میں دیکھ چکا تھا۔ خواتین کیلئے بھی ایک الگ حصہ مخصوص کردیا گیا ہے‘ جہاں بے شمار خواتین نماز ادا کررہی تھیں۔ میوزیم کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنا طیب اردوان حکومت کا مشکل لیکن بہت جرات مندانہ فیصلہ تھا۔ میں نے آیا صوفیہ میں پہلی نماز عصر اس طرح باجماعت ادا کی کہ ایک سکون اور طمانیت اور خوشی نے مجھے غلاف کی طرح لپیٹ میں لے رکھا تھا۔