"SUC" (space) message & send to 7575

ہم ساکنانِ قریۂ آفت رسیدہ ہیں

فراز کا مصرعہ ہے:
حیرت ہے اب بھی لوگ اگر خوش عقیدہ ہیں
عجیب اقتصادی ترقی ہے۔ عجیب زر مبادلہ کے ریکارڈ انبار ہیں، عجیب طرح باہر سے پیسے کی بہتات ہے کہ ہر روز روپیہ اپنی پستی کی ایک نئی سطح عبور کرلیتا ہے۔ ڈالر اپنی بلندی کی اور روپیہ پاتال کے سفر کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ زوال کا یہ سفر مسلسل کئی ہفتوں سے جاری ہے اور کسی طرف سے یہ خبر نہیں مل رہی کہ حکومت نے اسے روکنے کا کوئی قدم اٹھایا ہے۔ ایسے معاملات میں سٹیٹ بینک کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کرکے روپے کی قدر کسی قدر بحال کردیتا تھا‘ لیکن اب وہ بھی شاید فارغ اور مایوس ہوچکا ہے۔ کوئی دو دن ایسا نہیں گزرتا جب روپیہ ایک ہی سطح پر برقرار ہو‘ اور مزید حیرت یہ کہ کسی ذمے دار کی طرف سے مثلاً سٹیٹ بینک کے گورنر یا وزیر خزانہ کی طرف سے اس بارے میں کوئی بات بھی نہیں کی جارہی۔ بس یہ کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں کہ نئے نظام میں روپیہ آزاد مارکیٹ میں اپنی قدر خود طے کرے گا‘ اور یہ بیان اس اعتماد کے ساتھ دیا جاتا ہے جیسے یہ ایک ٹانک ہے جسے استعمال کرکے قوم کی توانائی بحال ہو جائے گی‘ لیکن یہ سننے سے کیا کسی دل کو اطمینان مل جائے گا؟
سوال یہی تو ہے کہ اگر زر مبادلہ کے ذخائر ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئے ہیں تو روپیہ آزاد مارکیٹ میں ریکارڈ پستی پر کیوں ہے؟ اگر درآمدات کم ہو رہی اور برآمدات بڑھ رہی ہیں تو اس کا الٹا اثر کیوں نظر آرہا ہے؟ اگر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں اربوں ڈالرز آرہے ہیں تو پھر یہ جا کہاں رہے ہیں؟ اگر ملک میں بقول آپ کے کرپشن رک گئی ہے اور روپیہ باہر جانا بھی بند ہو گیا ہے تو ان کا فائدہ روپے کو کیوں نہیں ہورہا؟ ایسے میں ان اعداد و شمار پر یقین کون کرے اور کیوں کرے جو وزیر اعظم سے لے کر صوبائی وزیر تک سب روپوں کی طرح قوم کے سر پر نچھاور کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کس قسم کی ترقی ہے جو ڈھلان پر لڑھکتی ہی جا رہی ہے؟
ڈھلان پر سنبھلنے کی اس کوشش میں اس وقت بہت اعتماد پیدا ہوگیا تھا جب روپے کا سفر اوپر کی طرف ہوا تھا۔ شاید اسی سال مئی میں ڈالر 152 کی سطح پر تھا اور امید پیدا ہو چلی تھی کہ اب زوال کا یہ سفر رک گیا ہے۔ تب ماہرین کے تجزیے بتاتے تھے کہ اب پورا سال روپیہ 150 کی سطح کے قریب قریب منڈلاتا رہے گا۔ دیکھا جائے تو 150 روپے بھی بہت زیادہ ہیں لیکن لوگ اپنی خوش عقیدگی میں اسی پر خوش ہونے لگے تھے کہ کچھ بہتری تو آئی‘ ممکن ہے مزید بھی آجائے لیکن کچھ مدت بعد جب خبریں آنا شروع ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ پتہ نہیں کس دعا کے طفیل ڈالر وہاں رکا ہوا تھا‘ ورنہ روپے کی اصل قدر تو نیچے کہیں تہ میں ہے۔
نتیجہ؟ نتیجہ نہیں نتائج‘ اور نتائج ہم سب روز بھگت رہے ہیں۔ درآمدی چیزوں کا تو چھوڑئیے کہ ان کے دکان دار ہر گرانی کے جواز میں ڈالر کی پناہ لیتے ہیں، جن اشیاء کا تعلق درآمد سے دور دور تک نہیں وہ بھی ہرروز اپنے دامن تک نارسائی کے نئے اعلان کرتی ہیں۔ ہر روز مہنگائی کی ایک نئی 'خوش خبری‘ ملتی ہے۔ روز پتہ چلتا ہے کہ آٹا اب مزید اتنا مہنگا ہو گیا۔ انڈوں، سبزیوں اور چکن کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہوگیا اور کوکنگ آئل کی قیمت اب یہاں پہنچ گئی ہے۔
گرمیاں روتے دھوتے کسی طرح گزر ہی گئیں۔ ہمارے ہاں موسم گرما‘ گرمی کی شدتوں کے ساتھ دوسری شدتیں بھی لایا کرتا ہے‘ جن میں سے ایک بجلی کے بل ہیں۔ شاعری کی روایتی برق بھی ایسے آشیانوں پر نہیں گرتی ہوگی جس طرح یہ بجلی لوگوں پر گرتی ہے۔ گرمی سے تباہ حال مخلوق اگر اے سی، پنکھے نہ چلائے تو کہاں جائے‘ اور اگر چلائے تو وہ بل کہاں سے ادا کرے جو کئی کئی تنخواہوں کے برابر ہیں۔ اس عذاب میں اگرچہ ہر طبقے کا آدمی ہے لیکن نچلے اور متوسط طبقات تو پس کر رہ گئے ہیں۔
اس صورت حال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں اور یہ جہالت کی بات ہو گی اگر نہ مانی جائے کہ یہ مہنگائی عالمی بحران کی صورت ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں مہنگائی بھی بہت بڑھی ہے اور اشیائے ضرورت کا قحط بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کا۔ جو لوگ عمران خان اور حکومت وقت سے خار کا رشتہ رکھتے ہیں ان کی تو بات الگ، لیکن جو عالمی اخبارات پڑھتے ہیں اور بیرون ملکوں میں ان کے رابطے بھی ہیں وہ اچھی طرح واقف ہیں کہ وہاں کیا صورت حال ہے۔ بھارت میں پٹرول کی قیمتوں پر ایک ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ دہلی یعنی دارالحکومت میں پٹرول فی لٹر پاکستانی حساب سے 245 روپے ہے۔ اسی طرح غذائی اشیاء کی قیمتیں بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ بھارت کی بات میں اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں لوگوں کی قوتِ خرید اور آمدنی زیادہ ہے۔ میں چند ماہ پہلے ترکی گیا جہاں پہلے بھی مختلف برسوں میں جانا ہوتا رہا ہے، تو اندازہ ہوا کہ یہاں بھی مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے۔ لیرا مسلسل لڑکھڑا رہا ہے۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ ستمبر میں فی لیرا نرخ کم و بیش 21 پاکستانی روپے تھا، جو اب نومبر میں 17 روپے تک گر چکا ہے۔
کچھ ہی دن پہلے میں نے لبنان کی ہولناک صورتحال کا ذکر کیا تھا۔ لبنان گزشتہ دو سال سے ایک ایسے بھیانک بحران سے گزر رہا ہے جو مالی ہی نہیں‘ ضروری اشیاء کے قحط کا بھی ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ عالمی بینک نے اس قحط کو 1850 کے بعد بدترین قرار دیا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ لوگ صبح 4 بجے سے دو، تین کلومیٹر لمبی پٹرول کی قطار میں لگ جاتے ہیں اور اگر خوش قسمت ہوں تو آٹھ، نو گھنٹے انتظار کے بعد انہیں گزارے کے لیے پٹرول مل جانے کا امکان ہوتا ہے۔ بجلی نہ ہونے کے برابر ہے اور لبنان کے ہسپتالوں کے ڈاکٹرز نے ہسپتالوں کے کوریڈورز اور انتظامی دفتروں میں اے سی اور لائٹس بند کردی ہیں تاکہ ڈیزل بچ سکے اور مریضوں کے کام آئے۔ ضروری اور لازمی ادویہ نایاب ہیں۔ عام لوگوں کا حال یہ ہے کہ لبنان کی آبادی کے تین چوتھائی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ہر کاروباربند ہورہا ہے۔ ضروری خوراک انتہائی مہنگی اور نایاب ہوچکی ہے‘ اور بہت سے لوگوں نے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہے۔ دفتروں میں کاغذکی کمیابی ہے۔ 2019 سے لبنانی پاؤنڈ جسے لیرا بھی کہا جاتا ہے اپنی90 فیصد قدر کھوچکا ہے۔ 2019 میں فی ڈالر 1500 نرخ والا پاؤنڈ اب 20 ہزار فی ڈالر پر ہے۔ خوراک کی قیمتیں 400 بڑھ چکی ہیں۔ لمبی قطاروں میں لگ کر بھی ضروری اشیاء مثلاً ڈبل روٹی راشن پر ملتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک درمیانے درجے کے گھرانے کا فی ماہ 675000 لبنانی پاؤنڈز میں گزارہ ہوسکتا ہے جبکہ اس کی آمدنی اس سے 5 گنا کم ہوتی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ لوگوں پر کیا گزر رہی ہے۔
پاکستان ان دنوں معاشی لحاظ سے کئی قدرتی اور مصنوعی شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ سب سے پہلی دعا تو یہ کہ کسی طرح ان سے نجات نصیب ہو۔ کووڈ کے باعث غذائی اشیاء کا قحط، اور عالمگیر مہنگائی تو قدرتی شکنجے ہیں لیکن آئی ایم ایف اور فیٹف ہم جیسے سرکشوں کو قابو کرنے کے مصنوعی آکٹوپس۔ اور ہم وہ بدنصیب جو ان سے نکلنے کیلئے عشروں سے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں