"SUC" (space) message & send to 7575

اچمی لیر: ساحل،سمندر،پہاڑ

کبھی آپ نے سوچا کہ زندگی میں کبھی بے مقصد، بے سمت، وقت کی تقسیم کے بغیر نکل پڑنا کتنا کم میسر آتا ہے؟ اس دن میں اچمی لیر، مرمریس کی ساحلی سڑک پر اسی بے سمت سفر کا لطف لیتا ہوا تادیر چلتا رہا۔ اس سفر کا عجیب لطف ہوتا ہے۔ جہاں دل چاہا بیٹھ گئے، جب بھوک لگی کچھ کھا پی لیا اور جب دل چاہا، کسی اور سمت مڑ گئے۔ دھوپ چمکیلی تھی اور سمندر گہرا نیلا اور فیروزی۔ میں اس وقت تک ہلالی ساحل کے ساتھ ساتھ خنک تیز ہوا میں چلتا رہا جب تک تھکن اور بھوک غالب نہیں آ گئیں۔ میں ناریل کے درختوں کی چھاؤں میں بچھے ایک ریسٹورنٹ میں داخل ہوگیا۔ ترکی کھانے، ترکی لسی کے بعد ترکی چائے نے کچھ ہی دیر میں مجھے تازہ دم کردیا۔ منظر کے ایک گوشے میں ٹک کر دنیا کو دیکھنا بھی ایک بافراغت پُرلطف عمل ہے۔ ایک گورا، میرے قریب ہی کھانا کھا رہا تھا جس کا اوپری دھڑ برہنہ تھا، بلکہ اسے برہنہ کہنا بھی غلط ہوگا اس لیے کہ بازوؤں سے لے کر پیٹ تک جسم کے ہر حصے پر نقش و نگار Tatooos)) گودے ہوئے تھے۔ وہ مستی میں تھا جس میں فراغت، چھٹی، تیراکی، نیم برہنگی اور شراب چاروں کا نشہ شامل تھا۔ پتہ نہیں اس کے ساتھ کوئی تھا یا وہ اختیاری طورپر تنہا تھا، لیکن بہرحال سرمستی اس کی ہم سفر تھی۔ ایک جوڑا، غالباً ترک، ایک دوسرے سے شاید بیزار بیٹھا تھا۔ حرام ہے کہ اس دوران کبھی کبھی تیز آواز میں جملوں کے سوا ان میں نرمی سے کوئی گفتگو ہوئی ہو۔ پھولوں بھری ایک جھاڑی کے ساتھ بچھی میز پر ایک بظاہر یورپی مرد اور عورت کھانا کھا رہے تھے۔ دونوں بڑھاپے کی حدود میں داخل ہو چکے تھے اور جھریوں، شکنوں اور جھائیوں نے ان کے چہروں اور جسموں پر اپنی چادر پہنا دی تھی۔ میں نے ہمیشہ یہی دیکھاکہ گوری اقوام میں، چاہے مرد ہو یا عورت، اور خواہ کتنے ہی خوبصورت رہے ہوں، جوانی ڈھلنے کے بعد، استثنائی مثالیں الگ رکھ کر، ان کے بڑھاپے کی شکل عام طور پر بالکل بدل جاتی ہے۔ میں جان بوجھ کر اس کے لیے نرم الفاظ استعمال کر رہا ہوں اس لیے کہ خدا معلوم کس کا بڑھاپا کیسا ہو، کس کے ساتھ کیا گزرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں‘ لیکن میرا مطلب آپ سمجھ رہے ہوں گے۔ میں غیر شعوری طور پر ان کا موازنہ اپنے بوڑھوں، اپنے بزرگوں سے کرتا ہوں جن کی عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے چہروں پر شانتی، اطمینان، نرمی جگہ بناتی جاتی ہے۔ جھریوں، اور شکنوں کی شال کے باوجود ان کے چہروں پر آسودگی کی جھیل لہریں مارتی ہے۔ وہ آسودگی جو اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے بیچ رہ کر انسان کو اندر سے سکھی کرتی ہے۔ اس کا مادی آسائشوں سے اتنا تعلق نہیں۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو گوری اقوام کے بوڑھوں کا اکیلا پن ہی ان کو ساری مال دولت کے باوجود غریب بنائے رکھتا ہے۔ یہ بوڑھا جوڑا جو خوشی کی تلاش میں نکلا ہے، معلوم نہیں کس اکیلے پن کا شکار ہوگا۔ یہ محض مفروضہ نہیں، بہت سے چشم دید واقعات کے بعد اس کی حیثیت مفروضے کی نہیں رہتی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ میرے عظیم دادا، مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں ایک جگہ ایک عجیب نکتہ لکھا ہے۔ قرآن کریم کی آیت وبنین شہودا (المدثر،12) کی تفسیر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ یہاں اللہ نے ایک شخص کے لیے دو نعمتیں الگ الگ بیان کی ہیں۔ بیٹے، اور آنکھوں کے سامنے۔ یعنی اولاد کا حاضر ہونا بھی بذات خود نعمت ہے۔ کیسا کمال اور عجیب نکتہ ہے‘ اور یہ تفسیر ایسے نکات سے مالامال ہے۔
مجھے اپنے گھر والے یاد آنے لگے تھے۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنا گھر اور گھرانہ یاد آنے لگے تو تنہائی سوا ہونے لگتی ہے۔ میں نے یہ خیال جھٹکنے کی کوشش کی لیکن یہ پیر تسمہ پا آسانی سے جان کہاں چھوڑتا ہے۔ اس بار میں سمندر کی طرف گیا اور ایک آرام کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔ سامنے ہرے جزیرے تھے، اور دائیں بائیں جھلسے سبز پہاڑ۔ میں تا دیر اسی منظر کے ایک کونے میں رہا۔ تھکن، شکم سیری، نیم غنودگی اس نیم درازی میں شامل ہوئیں تو اب آنکھیں کھولنا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ اچمی لیر نے ایسا اسیر کیا تھا کہ اب یہاں سے جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ سلیمیٰ بیچ جانے کا ارادہ تو تھا لیکن اب عصر کا وقت ہو چلا تھا اور اگر میں مرمریس سے داتچا کی آخری بس نہ پکڑ پاتا تو یقینا خسارے والوں میں ہوتا۔ اس لیے واپس ہونا ضروری تھا۔ سامان کچھ ساتھ تو تھا نہیں اس لیے عرفان صدیقی کا یہ شعر حسب حال تھا:
اے مرے ہم سفرو! رنج گرانباری کیا
اٹھ کے چلنا ہی تو ہے، کوچ کی تیاری کیا
میں نے ساحل کو خدا حافظ کہا اور ڈولمش بس کی تلاش میں ڈولتا ہوا سڑک پر آیا۔ ڈولمش میں بیٹھا تو اس بار مرمریس شہر جانے کا ارادہ تھا کیونکہ آتے ہوئے شہر میں رکنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ مرمریس ایک خوبصورت، جدید اور متمدن شہر ہے۔ ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اور فرنشڈ اپارٹمنٹس کی کثیر تعداد اس کے سیاحتی مرکز ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ میں بلیو پورٹ نامی شاپنگ مال کے سگنل پر ڈولمش سے اترا۔ کچھ دیر شاپنگ مال اور پگر شہر میں مٹر گشت کی۔ اندازہ ہوا کہ سیاحتی مرکز ہونے کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت زیادہ ہے اور ونڈو شاپنگ ہی کی جا سکتی ہے۔ میں نے یہاں قریبی ساحل کا رخ کیا جسے شاید ازنیالی(Uzunyali) بیچ کہتے ہیں۔ یہ ایک لمبا ساحل ہے لیکن اسے مشکل سے ہی بیچ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ساحل اور سمندر کے بیچ ریتیلا ساحل محض دس پندرہ فٹ کا ہو گا جس پر رنگ برنگی چھتریاں تنی ہوئی تھیں۔ ساحل پر ہر قسم کی طعام گاہیں اپنے جال پھیلائے ہوئے تھیں۔ سمندر کے منظر کے سوا کچھ نیا نہیں تھا۔ میں کچھ دیر اس ساحل پر رہا اور پھر ''آتو بس دراکلاری‘‘ یعنی بس سٹینڈ کی طرف روانہ ہوا۔ داتچا جانے والی بس تیار ہی تھی اور دس پندرہ منٹ کے اندر روانہ ہوگئی۔ تھکن ایسی تھی کہ بیٹھتے ہی نیند آنے لگی۔ ویسے بھی تاریکی نے ہر طرف اپنے پردے پھیلانے شروع کردئیے تھے اور باہر ایک نیم روشن اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد میری آنکھ اس وقت کھلی جب بس داتچا کے مضافات میں داخل ہورہی تھی۔ بس سٹینڈ پر بس سے نکلتے ہی احساس ہوا کہ سردی بڑھ گئی ہے۔ اس وقت کہیں رات کے کھانے کے لیے بیٹھنے کی ہمت بھی نہیں تھی، اس لیے پیدل ہوٹل کے راستے میں ایک جگہ سے انجیر، اور سرخ انگور خریدے۔ ترکی میں ان پھلوں کی شیرینی اور ذائقہ بے مثال ہے۔ اورجائے ہوٹل داتچا واپس پہنچتے پہنچتے اونچے نیچے پہاڑی راستوں پر تھکن جسم میں ہر جگہ ڈیرے ڈال چکی تھی۔ ہوٹل کمرے میں پہنچ کر دن بھر کے منظر آنکھوں میں بسے ہوئے تھے لیکن اب گزارا ہوا دن خواب جیسا لگ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ سفر بس خیالوں میں کیا تھا۔ سعود عثمانی! یگانہ چنگیزی نے کہا نہیں تھا :
ہر شام ہوئی صبح کو اک خواب فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
اور اسی بات کو فانی بدایونی نے کیسے دو آتشہ بنا دیا ہے
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے، خواب ہے دیوانے کا
اس دن جب نیند کی ملکہ نے ٹوٹتے بدن کواپنی آغوش میں لیا توغروب ہوتے ذہن کویہی یاد تھا کہ ایک اور خوب صورت دن دل کے افق پر غروب ہوگیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں