خالد دفتر جانے کے لیے صبح صبح گھر سے نکلا تو دیکھا کہ بالکل سامنے والے پڑوسی کے گھر میں کیٹرنگ کا سامان اتر رہا ہے۔ تنبو، قناتیں، برتن اور میزیں کرسیاں۔ خالد کا دل بیٹھ گیا۔ لیجیے! آج پھر ان کے گھر میں کوئی تقریب ہے ۔ اب یہ سارا راستہ، گلی اور سب کے گیٹ بند کروا کے شامیانے لگا دیں گے۔ لوگ اپنے گھر میں آسانی سے نہ داخل ہوسکیں گے نہ نکل سکیں گے۔ گاڑیاں بھی قناتوں سے باہر کھڑی کرنی پڑیں گی ۔یہ پڑوسی ویسے بھی قانون شکنی کے لیے بدنام تھے۔ صرف قانون شکنی ہی نہیں ناجائز دولت بھی اور رشوت خوری بھی۔ ان کے خلاف محکمانہ کارروائیاں، پولیس کارروائی وغیرہ بھی سب کو معلوم تھی اور ان سب کے باوجود وہ محلے میں اپنا رعب جمانے کا بھی کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے۔ ہر گھر کے سامنے اپنی گاڑیاں بلا اجازت کھڑی کردینا بھی ان کا معمول تھا۔ پتا چلا کہ آج ان پڑوسی کے گھر کسی بچے کی سال گرہ ہے۔ خالد پریشان ہوگیا ۔ آج رات کھانے پر اس کے گھر مہمان جو آنے والے تھے۔ وہ اس پڑوسی سے جھگڑا مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ کوشش کرتا تھا کہ تعلقات بہتر ہی رہیں اور زیادہ واسطہ مطلب نہ رکھا جائے لیکن مہمانوں کو اب گھر چور دروازے سے کیسے بلایا جائے اور ان کی گاڑی کہاں کھڑی کروائی جائے، یہ الگ مسئلے تھے۔ خالد کو بہرحال یہ بھگتنا ہی تھا کہ وہ شریف آدمی تھا اور شریف آدمی کسی اور سے نہیں، خود سے ہی لڑ سکتا ہے۔ بزرگ کہہ چکے ہیں کہ قہر درویش بر جان درویش۔ اس دن دفتر میں کام بھی زیادہ تھا اور پوری کوشش کے باوجود خالد جلد واپس نہیں آسکا۔ سارا دن دفتری مسائل میں گزار کر خالد گھر پہنچا تو حسب توقع اس کے گیٹ کے سامنے تنبو اور قناتیں لگی ہوئی تھیں اور مہمان آنے ہی والے تھے۔ اس نے کسی طرح مہمانوں کی گاڑی ادھر ادھر لگوائی اور ان سے معذرت کرتے ہوئے انہیں لے کر گھر میں داخل ہوا۔ گھر کے اندر سکون تھا جو جلد ہی غارت ہونے والا تھا۔ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تھے کہ باہر شامیانوں میں بہ آواز بلند محفلِ شروع ہو گئی۔ تقریب والوں نے پوری رات کا انتظام کیا تھا اور نامور لوگ بلوائے ہوئے تھے۔ مسئلہ محفل سے زیادہ آواز کا تھا۔ ایمپلی فائر کی اتنی بلند آواز کہ گھر کے اندر بھی بات نہ ہوسکے۔ مہمان اور میزبان ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے کہ بات کرنا نہایت ہی مشکل ہو چکا تھا۔ مہمانوں نے جلد ہی اجازت لی تو خالد نے بھی سکون کا سانس لیا کہ وہ مزید اس شرمندگی میں وقت گزارنے سے بچ گیا۔ اب نیا مسئلہ یہ تھا کہ اس شور میں سویا کیسے جائے جو گھر کے کونے کونے میں پہنچا ہوا تھا۔ رات بھر سماعت خراش آوازیں محلے بھر میں گونجتی رہیں۔ گھر کا کوئی فرد سو نہیں سکا۔ رات اس تکلیف سے گزری کہ صبح کوئی فرد دفتر، سکول یا کالج نہیں جا سکا۔ یہ پڑوسی کا دیا ہوا عذاب تھا لیکن بھگتنا محلے والوں کو پڑتا تھا۔
سامعہ کالج میں لیکچرار تھی۔ اس دن اسے جلدی کالج پہنچنا تھا لیکن کچھ دوائیاں لینی بھی لازمی تھیں۔ ایک مارکیٹ سے دوائیاں خرید کر وہ نکلی تو ہکا بکا رہ گئی۔ پارکنگ میں اس کی گاڑی کے آگے ایک گاڑی اس طرح لگی ہوئی تھی کہ اب وہ کسی بھی طرح گاڑی نہیں نکال سکتی تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ وہ جلدی میں تھی اور ٹریفک کا عذاب بھی اسے بھگتنا تھا۔ غصے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ وہ ادھر ادھر دکانوں میں گئی اور گاڑی کے بارے میں پوچھا، کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ مجبوری میں وہ گاڑی کے ساتھ کھڑی ہوکر انتظار کرنے لگی۔ آدھے گھنٹے بعد ایک بینک سے دو نوجوان اونچی آواز میں باتیں کرتے نکلے اور گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ یہ کس طرح گاڑی لگائی ہے آپ نے؟ میری گاڑی ہی بلاک کر دی؟ سامعہ نے غصے سے کہا۔ کیا ہو گیا جی؟ پانچ منٹ لگے ہیں ہمیں اب کیا ہم اپنے کام بھی نہ کریں؟ سامعہ ڈر گئی۔ نوجوان شکل ہی سے لفنگے لگتے تھے۔ وہ امنڈتے آنسوؤں کو روک کر خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئی۔ گھورتی نظروں اور ٹریفک کے عذاب سے گزر کر جب وہ کالج پہنچی تو آدھ گھنٹہ لیٹ ہوچکی تھی۔ اس نے سٹیئرنگ پر سر رکھا او رپھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس بے بسی میں یہی اس کے بس میں تھا۔
ساجد بڑی مشکل سے تنگ اور گنجان بازار میں سڑک پر چل رہا تھا۔ گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے اسے اس بازار میں اکثر آنا پڑتا تھا اور ہمیشہ اسے غصہ آتا تھا کہ بازار اتنا تنگ تھا نہیں جتنا کردیا گیا تھا۔ دونوں طرف فٹ پاتھ موجود تھے لیکن ان پر دکانداروں نے قبضہ جما کر سامان رکھ دیا تھا یا خوانچے والے بٹھا دئیے تھے۔ رہی سہی کسر ریڑھی والوں نے پوری کردی تھی جو سڑک پر جابجا موجود تھے۔ پیدل چلنے والے کے لیے یہی ممکن تھا کہ وہ ان سے ٹکراتا اور بچتا ہوا سڑک پر چلتا رہے اور اس دن بھی ساجد یہی کر رہا تھا۔ کچھ سامان خرید کر وہ ابھی گھر پلٹنے کا ارادہ کر رہی رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل والے نے اسے پیچھے سے ٹکر ماری۔ سامان کے شاپر دور جا گر ے اور چیزیں بکھر گئیں۔ ساجد منہ کے بل سڑک پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ ہوش اسے ہسپتال میں آیا جہاں اس کی ایک ٹانگ اور ایک بازو پر پلاسٹر چڑھا دیا گیا۔ کئی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ اب وہ کم از کم تین مہینوں کے لیے دفتر اور گھر کے معاملات چلانے کے قابل نہیں تھا۔ اس کی پریشان بیوی اس موٹر سائیکل والے کو بد دعائیں دے رہی تھی جسے نہ کسی نے پکڑا تھا نہ کوئی اسے جانتا تھا۔
یہ واقعات آپ کی میری سب کی کہانیاں ہیں۔ یہ واقعات ہمارے گردوپیش میں روز رونما ہو رہے ہیں۔ جو فرض بحیثیت شہری، بطور پڑوسی، بطور مسلمان ہمارا بنتا ہے، ایسا لگتا ہے ہم وہ جانتے ہی نہیں۔ جو ذمے داریاں حاکموں اور اہل کاروں کی ہیں‘ ایسا لگتا ہے ان کی ہے ہی نہیں۔ اور یہ سب اس معاشرے میں ہو رہا ہے جس میں لائوڈ سپیکر کے غلط استعمال پر قانون موجود ہے۔ جس میں ہمارے دین کی واضح ہدایات موجود ہیں اور ہم روز اخبارات، کتابوں اور خطبوں میں پڑھتے اور سنتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔ ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ہوائق کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا، اس کا غضب اور اس کا ظلم۔ (مسند امام احمد بن حنبل)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی تو اس نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اس پر اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (بخاری و مسلم)
جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی ظلم اور زیادتی سے لے گا، (قیامت کے دن) سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری)
سوچنے بیٹھیں کہ ہم لوگ کیا ہیں تو جواب سمجھ نہیں آتا۔ ہم لوگ کیا ہیں؟ نہ انسان، نہ مسلمان، نہ اچھے پڑوسی، نہ اچھے شہری، نہ اچھے ہم وطن‘ نہ اچھے پاکستانی۔ ہم کیا ہیں؟ کس زمرے میں ہیں؟ ہم کسی خانے میں ہیں بھی یا نہیں؟ مجھے تو معلوم نہیں ہم کس قسم میں پورے اترتے ہیں؟ کسی کو کچھ معلوم ہے؟ آپ کو معلوم ہو تو بتائیے۔