رات گیارہ بجے کے قریب میں اسی تاثر میں ہسپتال پہنچا کہ اب بھائی جان محمود اشرف عثمانی صاحب کی حالت میں بہتری شروع ہوگئی ہے لیکن مجھے یاد نہیں تھا کہ چراغ کی لو تیز ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اب وہ بجھنے والا ہے۔مجھے یہ بھی یاد نہیں تھا کہ میں نے خود کہا تھا کہ
ستارہ بجھتے ہوئے روشنی بکھیرتا ہے
حالات بگڑنے شروع ہوچکے تھے۔ ایمرجنسی میں موجود سینئر ڈاکٹر فکر مند تھا۔اشاریے اچھے نہیں تھے اور بلڈ پریشر مسلسل گر رہا تھا۔ڈاکٹر نے ہم سے کچھ سوال پوچھے اور اجازتیں مانگیں۔ دن میں بھائی جان کے معالجوں کے مشوروں سے جو طے ہوا تھا ہم نے اسی کے مطابق عمل کرنے کی تجویز دی۔ اس کٹھن رات میں جن لوگوں کی ہسپتال رہنے کی ذمے داری تھی‘ان میں میرے ساتھ بھائی جان کا چھوٹا جانثاربیٹا وراد اشرف عثمانی‘بھائی جان کے ایک عزیز شاگرد محمد ادریس‘اور ایک میڈیکل اٹنڈنٹ اسد بھی تھے‘محمد ادریس کا تعلق برما سے ہے‘اور انہوں نے خود کو بھائی جان کی ہر قسم کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا‘سچ یہ ہے کہ انہوں نے جس جانفشانی اور محبت سے بیماری میں خدمت کی وہ بھی بے مثال ہے۔اسی طرح اسد جو آئی سی یو اور ایمر جنسی میں مریضوں کی دیکھ بھال کے ماہر ہیں‘انہوں نے بھی اس طرح یہ کام انجام دیے کہ اس خدمت پر رشک آتا تھا۔ایک قابل ذکر بات میں یہاں خاص طور پر کہنا چاہتا ہوںکہ بھائی جان اپنے سگے بھائیوں اور بیٹوں سے بھی کوئی خدمت نہیں لیتے تھے۔یہ ان کا مزاج تھا کہ انہیں اس سے تکلیف ہوتی تھی۔آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب قریبی عزیزوں کا یہ حال ہے تو کسی غیر کا تو سوال ہی نہیں۔ کوئی شاگرد یا محبت کرنے والا بہت اصرار کرتا تب بھی بھائی جان ننانوے فیصد صورتوں میں اسے منع کردیتے تھے۔ایک فیصد صورت بس یہی تھی کہ خدمت گار کا خلوص اور بے مفاد محبت شک و شبہے سے بالاہوں۔ اس کے لیے بھائی جان کڑی شرائط رکھ دیتے تھے۔ صرف نہایت محبت والا ہی ان پر پورا اترسکتا تھا۔ محمد ادریس اور اسد انہی شرائط پر پورے اترے ہوئے لوگ تھے۔ ان کی کوئی رشتے داری نہیں تھی لیکن بھائی جان کی مسلسل گرتی ہوئی صحت دیکھ کر بات بات پر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔حالت ہم سب کی یہی تھی لیکن ہم سب ایک دوسرے کو دلاسے دے رہے تھے‘حالانکہ جانتے بھی تھے کہ یہ موہوم دلاسے ہیں۔
اس رات کسی کو نیند آنے کا سوال نہیں تھا۔ چار لوگ ہسپتال میں اور باقی گھروں میں جاگ رہے تھے۔قریب قریب رات ایک بجے ڈاکٹر نے مجھے بلایا اور بتایا کہ بلڈ پریشر کے لیے ہر کوشش کی جارہی ہے لیکن بلڈ پریشر بہتر نہیں ہورہا۔میں بھائی جان کے بستر کے پاس چلا گیا۔ایک دو بار انہیں پکارا تو انہوں نے آنکھیں کھولیں لیکن ان میں شناسائی نہیں تھی۔میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔سورتیں اور دعائیں پڑھتا اور بھائی جان کو تکتا رہا۔زیادہ دیر کمرے میں رکنے کی اجازت نہ تھی اس لیے کچھ دیر کے بعد باہر جانا پڑا۔لیکن میں دروازے کے باہر کھڑا رہا۔ایک بج کر بیس منٹ پر ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ دل کی دھڑکن رک گئی ہے لیکن ہم اسے بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پانچ منٹ بعد اس نے پھر بتایا کہ دھڑکن الحمد للہ بحال ہو گئی ہے لیکن ایسی صورت میں دوبارہ یہ رک سکتی ہے۔ ایک بج کر ستائیس منٹ پر دھڑکن پھر رکی لیکن کوششوں سے پھر بحال ہو گئی۔ میں اور وراد عثمانی جس کیفیت میں تھے‘اس کا اندازہ کوئی کر سکتا ہے؟ ہم بند دروازے کے باہر کھڑے تھے جس کے اس پارچند فٹ کے فاصلے پر چراغ کی لو کبھی تیز اور کبھی مدھم ہورہی تھی۔ تادیر ہم وہیں کھڑے رہے حتیٰ کہ کسی ڈاکٹر نے ہمیں باہر جانے کو کہا۔ باہر رات کی تاریکی اور سناٹا کٹتا نہیں تھا‘ کاٹنے کو آتا تھا۔ایسی طویل رات مجھے کم ہی یاد ہے۔مجھے امراؤ القیس کا شعر یاد آنے لگا
الا ایھا اللیل الطویل الاانجلی
بصبح و ماالاصباح منک بامثل
(میں نے اس شب سے کہا)اے طویل رات صبح بن کر روشن ہوجا۔(پھر ہوش میں آکر کہتا ہے )اور (سچ یہ ہے کہ )صبح بھی تجھ جیسی ہی ہوگی۔
اور یہ صبح توواقعی رات جیسی ہی تھی۔ فجر کا اجالا پھیل چکا تھاجب ڈاکٹر نے ہمیں بلا کر کہا کہ ہم اپنی سی تمام کوششیں کرچکے ہیں۔ ہمار ے پاس اب کوئی طریقہ یا دوا ایسی نہیں ہے جو ہم آزما سکیں۔اب تک ایمرجنسی کے ڈاکٹرز نے اس طرح کی مایوسی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ہم ایک امید پر یہاں آئے تھے اور وہ وقتی طور پر کارگر بھی ہوئی تھی لیکن اب وہ بھی معدوم تھی۔ اب سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ اب ایسی صورت میں ہسپتال میں رکھنے کا کیا فائدہ ہوگا؟ عم مکرم چچا تقی سے ساری صورت حال عرض کردی اور فیصلہ بھی ان پر اور بھائی جان کے بیٹوں پر چھوڑ دیا گیا۔سب کی ایک ہی رائے تھی‘اور وہی رائے میری بھی تھی۔ ایمبولینس منگوائی گئی اور 27 فروری کی دوپہر بارہ بجے کے بعد انہیں ایک بار پھر ان کے گھر میں اسی کتابوں سے بھرے کمرے میں منتقل کردیا گیا۔
لکھنے میں تو یہ سب ساعتیں اور گھنٹے چند سطروں میں بیان کردیے گئے لیکن یہ جس طرح ہم سب کے دلوں پر پاؤں دھرتے گزرے‘اس کی دھمک ہمیشہ یاد رہے گی۔ڈاکٹرز مسلسل معائنہ بھی کر رہے تھے‘مشورے بھی اور اپنی سی کوششیں بھی۔اس سے زیادہ کسی انسانی بساط میںاور ہوتا بھی کیا ہے۔اس شام لگ بھگ چھ بج کر تیرہ منٹ پر ایک پرسکون چہرے کے ساتھ ہم سب کے سامنے بھائی جان نے اس دارِ فانی میں آخری سانسیں لیں۔اس طرح کہ سانس لینے اور خالق حقیقی سے جاملنے کے بعد کی کیفیات میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں تھا۔ ایک مسکراہٹ ہونٹوں پر تھی۔ ایک باکمال کی زندگی ختم ہوئی۔ ایسی زندگی تو کوئی باکمال ہی گزار سکتا ہے۔ زندگی سب ہی گزارتے ہیں‘ لیکن سچ یہ ہے کہ گزارتا کوئی کوئی ہے۔ ایسی زندگی جس کے دوسرے سرے پر اس سے برتر‘ اس سے بہتر زندگی انتظار کر رہی تھی۔ ایک بے قراری ختم ہوئی۔ایسی بے قراری جس کے آخر میں سکون‘طمانیت اور قرار منتظر کھڑے ہوتے ہیں۔جگر صاحب نے کہا تھا نا !
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
فیصلے کرنے ہی تھے جو جلد کرلیے گئے۔ انتقال سے نماز جنازہ تک کے درمیان صر ف پانچ گھنٹے تھے۔اور وہ بھی رات کے۔ لیکن ہزاروں لوگ اتنی دور دور سے آئے کہ کورنگی روڈ بلاک ہوگئی۔ڈیڑھ دو گھنٹے تک وہ قطار مسلسل چلتی رہی جو دیدار کے لیے گھر میں ایک طرف سے داخل ہوکر دوسری طرف سے نکل رہی تھی۔خیال تھا کہ میں بھائی جان کے گہوارے کو اچھی طرح کندھا دے کردار العلوم کے قبرستان نامی اس زندہ اور آباد محلے تک لے جاؤں گاجہاں میرے دادا‘ دادی‘ نانا‘ماموں اور بے شمار بزرگ‘رشتے دار اپنے چہیتے کا انتظار کر رہے تھے۔لیکن میں صرف گھر کے پورچ میںہی ایک بار کندھادے سکا۔اس کے بعد ہزاروں لوگوں کے سیلاب میں کندھا دینااور چھونا تو کیا‘ساتھ چلنا بھی ممکن نہیں تھا۔
یہ بہت بڑا جنازہ تھا لیکن اس میں حیرانی کیا ہے۔ محمودوں اور محبوبوں کے جنازے ایسے ہی تو ہوتے ہیں۔ (ختم)