ہمیشہ سے یہ مسئلہ ہے کہ ذرا ملک سے باہر نکلوں تو لڑکے بالے اودھم مچانے لگتے ہیں جیسے گھر کے بڑے ذرا کہیں جائیں تو بچے لڑنے لگتے ہیں۔ تکیے اٹھا کر ایک دوسرے پر مارے، چیزیں پھینکیں، بلب توڑے اور ایک دوسرے کو نوچا کھسوٹا۔ انہیں پتہ ہے کہ اب انہیں کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے اس لیے پرانے جھگڑے چکانے ہیں۔ سو محلے بھر میں آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔
اس بار بھی یہی ہوا۔ سفر پر نکلا اور ہنگاموں کی آوازیں آنے لگیں۔ اپوزیشن کی باہمی ملاقاتیں، اتحادیوں سے ربط ضبط اور تحریک انصاف کے اندر ترین گروپ اور علیم خان کی خبریں تو پہلے سے آرہی تھیں‘ اب اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد بھی پیش کر ہی دی۔ ضابطے کی رو سے 14 دن کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلانا اب ضروری ہے اور اس کے بعد حتمی معرکے کا دن ہوگا۔ یقینا اپوزیشن اس معاملے کو رمضان اور عید سے پہلے نمٹانا چاہتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں مطلوبہ اکثریت حاصل ہے۔ ظاہر ہے حکومت اپنے دعوے کر رہی ہے، حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ پلڑا کسی طرف بھی جھک سکتا ہے کیونکہ معاملہ چند ووٹوں ہی کا ہے‘ لیکن اس سارے پس منظر میں خان صاحب کے بیانات اور انداز میں شدید جارحانہ پن شامل ہوگیا ہے۔ شدید بھی ہوتا تو خیر تھی، لیکن وہ لب و لہجہ اور انداز جو وزیر اعظم کے عہدے کے شایان شان نہیں، وہ بھی ان سب میں گھل مل گیا ہے۔ یہ وہ انداز ہے جس کی وجہ سے سنجیدہ مزاج حلقہ اور وہ لوگ جو سیاست کو الزامات، گھٹیا القابات اور خطابات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں، شدید مایوس ہوتے ہیں۔ پہلے بھی یہ حلقہ اسی سبب سے خان صاحب سے دور ہوا تھا‘ اور اب اس معاملے میں بھی اس نے اسے مایوس کن ہی سمجھا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی نکالا جارہا ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ زیادہ نہیں اور اب وہ طعن و تشنیع ہی کو اپنا ہتھیار سمجھ رہے ہیں۔ یہ اچھا تاثر نہیں کہ ہارنے سے پہلے ہارنے کے آثار نمایاں ہونے لگیں۔ دوسری طرف تحریک عدم اعتماد کے بارے میں بھی کئی سوال ہیں۔ فرض کر لیجیے کہ یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے‘ تو پھر؟ ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے کس کا نام ہوگا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ طے ہوگیا ہے کہ شہباز شریف وزیر اعظم ہوں گے، اور باقی جماعتوں کو اقتدار میں ان کا حصہ مل جائے گا‘ لیکن جو بھی نیا وزیر اعظم ہوگا، اور جو بھی نئی حکومت ہوگی کیا وہ اس ڈیڑھ سالہ اقتدار میں عوام کو کچھ ریلیف دے پائے گی؟ یا وہ بھی بین الاقوامی گرانی کی اسی لہر میں بے دست و پا ہوگی جس میں اس وقت موجودہ حکومت ہے۔ خان صاحب کو الگ کرنے کی کامیابی کے سوا اس کے حصے میں کیا کامیابی آئے گی؟ کیا یہ اپوزیشن کی وقتی کامیابی، انتخابات میں اس کی ناکامی کا پیش خیمہ تو نہیں ہوگی؟ اس مفروضے کو سوچتے ہوئے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اپوزیشن کے حصے میں کیا آئے گا، مجھے آئندہ کوئی زیادہ بہتر صورتحال نظر نہیں آتی۔
لیکن اب اس طرف آ جائیں کہ یہ تحریک عدم اعتماد اپنے مقصد میں ناکام ہوجاتی ہے۔ عمران خان بدستور موجود رہتے ہیں تو اس صورت میں اگلے کم از کم ڈیڑھ سال تک کسی دھرنے، لانگ مارچ، احتجاجی تحریک وغیرہ کے امکانات قریب قریب ختم ہوجائیں گے۔ متحدہ اپوزیشن بڑی سبکی سے دوچار ہوگی اور سانجھے کی ہنڈیا پیچ چوراہے پر پھوٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس اتحاد میں مختلف الخیال، مختلف المزاج جماعتیں شریک ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کو گہرے زخم بھی لگا چکی ہیں۔ کامیابی یا ناکامی‘ دونوں صورتوں میں ان کے متحد رہنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ واحد نقطۂ اتفاق عمران خان کی رخصتی ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تب بھی، اور اگر ممکن ہوگیا تب بھی، یہ اتفاق کتنی دیر رہ سکتا ہے۔ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح عمران خان کو نکالا گیا، جن کی مقبولیت اس وقت بہت کم ہوچکی ہے، تو کیا وہ انہیں سیاسی شہید بنا دے گی اور کیا اس طرح اپوزیشن اپنا نقصان تو نہیں کر بیٹھے گی؟
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو عمران خان صاحب کی حمایت کرتے رہے ہیں اور یہ سمجھتے رہے ہیں کہ موجودہ صف اول کے مقبول رہنماؤں میں وہ بہت لحاظ سے سب سے بہتر ہیں، لیکن ساڑھے تین سال کے عرصے میں کئی کامیابیوں اور اچھے اقدامات کے باوجود انہوں نے مجھ جیسے بہت لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ ان کی انا اور خود پسندی کے ساتھ ساتھ بے لچک اور غیر مفاہمانہ رویے نے انہیں سخت نقصان پہنچایا ہے۔ میرے خیال میں الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملانے کی پالیسی کا آغاز وہ موڑ تھا جس نے ان کے سارے سابقہ سفر، بیانات اور عزائم پر پانی پھیر دیا اور وہ ان لوگوں کے اسیر ہوکر رہ گئے جنہیں لوگ ایک زمانے سے جانتے تھے اور ناپسند کرتے آئے تھے‘ اور خان صاحب کو جلد ہی نظرآ جائے گا، اور نظر آنے لگا ہے کہ فصلی بٹیرے اڑنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ بہرحال اس وقت جو ایک امتحان عمران خان کے سامنے ہے، اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو اصل زک انہیں ہی پہنچے گی، ان کے اکثر ساتھیوں کو نہیں، کیونکہ جماعتیں اور رخ بدلنے والے ان لوگوں کے پاس آئندہ بھی راستے کھلے ہوں گے، لیکن عمران خان کے پاس ایک بار پھر اپوزیشن میں رہ کر جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
میرا خیال ہے کہ مقتدر حلقے بھی پی ٹی آئی حکومت سے مایوس ہوئے ہیں، لیکن شاید ان کے پاس بھی زیادہ آپشنز موجود نہیں، اس لیے خان صاحب کو لڑائی اگر اپنے بل بوتے پر ہی لڑنی پڑی تو ان کیلئے مسائل ایک طرح کے نہیں، چو رُخے ہیں۔ ترین خان، علیم خان گروپ، ایم کیو ایم، قاف لیگ اور متحدہ اپوزیشن اس چوکور کے چار کونے ہیں۔ جب معاملہ گنتی کی چند سیٹوں کا ہو تو پانسہ پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ جماعت اسلامی اس وقت کیا کردار ادا کرے گی اور اتحادی وقت پر کیا رنگ بدلیں گے، یہ بھی ابھی واضح نہیں ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا معاملہ سنگین تر ہوگیا ہے کہ صرف باغی گروپ ہی نہیں، تحریک انصاف کے اپنے ارکان اسمبلی بھی ان سے خوش نہیں۔ ایسے میں جب ساڑھے تین سال عمران خان نے دباؤ کے باوجود عثمان بزدار کی مسلسل پشت پناہی جاری رکھی ہے تو اب اس سے دستبردار ہو جانا شاید ان کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ کبھی چوہدری پرویز الٰہی اور کبھی ملک اسلم کا نام متبادل وزیر اعلیٰ کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ اس وقت قاف لیگ اپنے پتے کھیل رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ بہتر حصہ سنبھالنے کی کوشش کرے گی۔ شہباز شریف اور پرویز الٰہی کی ایک دوسرے کے لیے سرد مہری بھی سب پر واضح ہے اور نئے بندوبست میں چوہدریوں کا ممکنہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ چلنا آسان نہیں ہو گا۔ اس پس منظر میں مونس الٰہی اور شیخ رشید کی باہم تکرار اور نوک جھونک اتحادیوں کے ایک پیج پر ہونے کا انکار کرتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن‘ جو اس ساری متحدہ اپوزیشن کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اس تحریک میں سراسر فائدے میں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اس نے انہیں اعتماد بخشا ہے کہ وہ کھویا ہوا علاقہ واپس لے سکتے ہیں لیکن کیا انہیں یہ سیاسی مقبوضہ علاقہ مل جائے گا‘ اور کیا واقعی جی کا جانا ٹھہر گیا ہے؟