بری اور پریشان کن خبروں کے بیچ ایک اچھی خبر مل جائے تو وہ ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کالی بھیڑوں کے ریوڑ میں ایک سفید بھیڑ‘ جو اتنی سیاہی میں زیادہ براق، زیادہ چمک دار اور زیادہ سفید نظر آنے لگتی ہے۔ آدمی ملک سے باہر نکلا ہوا ہو تو خلفشار کی خبروں سے اس کا فشار خون ویسے ہی زیادہ ہو جاتا ہے‘ اور جو موجودہ سیاسی صورت حال ہے اس کے لیے خلفشار کا لفظ کم ہے۔ حکمرانوں کے خلاف بغاوتیں کون سی نئی بات ہے۔ بادشاہوں کی تاریخ میں ہر ہر صفحے پر خون سے لکھی ہوئی سطریں ہیں۔ بغاوت کامیاب ہوئی تو بادشاہ، اس کے امراء اور اس کے گھر والوں کی جان گئی‘ ناکام ہوئی تو باغیوں کی زندہ کھالیں اتروا دی گئیں، اور شہر کے مرکزی داخلی دروازے کے دونوں طرف سولیاں پیڑوں کی طرح نصب کر دی گئیں جن پر سروں کے پھل لگے ہوتے تھے۔ اقتدار ہے ہی ایسی خون آشام بلا، جو حکمران کے سر چڑھتی ہے تو وہ سگے بیٹے اور سگے بھائی کی آنکھوں میں گرم سلائی پھروا دیتا ہے، زبان کٹوا دیتا ہے، کھال میں لپیٹ کر ہاتھی کے سامنے ڈال دیتا ہے، گھوڑوں کے سموں تلے روندوا دیتا ہے یا سسک سسک کر مرنے کے لیے تاریک قید خانوں میں پھینکوا دیتا ہے۔ بہت رحم کیا تو سر قلم کروا دیا اور یہ آسان ترین موت ہوتی تھی۔ یہ بد ترین زندگی اور یہ بد ترین موت بھی بہت سے بادشاہوں، شہزادوں کے حصے میں آئی اور آسان موت بھی۔ یاد آیا کہ دارا شکوہ کے بڑے بیٹے سلیمان شکوہ نے، جو لمبے گیسوؤں والا ایک خوبصورت نوجوان تھا، شکست کھا جانے پر اورنگزیب سے یہ التجا کی تھی کہ اسے پوست کا پیالہ نہ پلایا جائے بلکہ سیدھا موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ اس زمانے میں پوست کا پیالہ بھی سسک سسک کر بے ہوش و حواس جینے اور مرنے کی ایک مسلسل سزا تھی۔ اور خود اورنگزیب کے ساتھ جو سلوک باپ اور بڑے بھائی کی طرف سے روا رکھا گیا، اس میں کیا کسر چھوڑی گئی تھی؟ اقتدار کی دنیا کا واحد فیصلہ یہی تھا کہ یا مار دو، ورنہ مر جاؤ۔ شاید آج بھی ۔
حکومت کا دھڑن تختہ ہو گا یا باغیوں کو عبرتناک سزا کے بعد زندہ چھوڑ دیا جائے گا، ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اسی دوران او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس بھی اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ عدم اعتماد کا معاملہ اور آئین کی تشریح کا قضیہ عدالت عظمیٰ میں پہنچ گیا ہے۔ لارجر بینچ بنا دیا گیا ہے اور سماعت کے لیے 24 مارچ کی تاریخ متعین ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں لے جانے کا معاملہ حکومت کا وہ قدم ہے جو بظاہر اپوزیشن، اتحادی جماعتوں اور باغی ارکان کے لیے غیر متوقع تھا۔ وہ عدم اعتماد رمضان سے پہلے نمٹانا چاہتے تھے، لیکن اب لگتا ہے‘ معاملہ آگے کھسک گیا ہے۔ رمضان میں کسی بڑی تحریک کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور اگر عدالت نے کوئی ایسی تشریح کر دی جس سے باغی تاحیات نااہل بھی ہوتے ہوں، اور انہیں ووٹ کا حق بھی نہ مل سکے تو یہ ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ بالفرض ووٹ ڈالنے کا حق مل بھی جائے، لیکن اس کے بعد تاحیات نااہلی مقدر بنے تو پھر باغیوں کے ہاتھ کیا آئے گا سوائے زخم چاٹنے اور رسوائی کے۔
اس صورت میں تو سراسر فائدہ ان کا ہو گا جنہوں نے پی ٹی آئی کے باغیوں کو استعمال کیا۔ میں یہاں مالی فائدے کی بات جان بوجھ کر نہیں کر رہا‘ جس کی گونج مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ اصول کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر باغی ارکان اپنے جماعت سے خوش نہیں تو وہ اپنی نشست سے استعفیٰ دیں، دوبارہ انتخاب لڑیں اور جیت کر اسمبلی میں آئیں تو جس کا چاہیں ساتھ دیں‘ لیکن اگر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب جیت کر اسی کے خلاف استعمال ہونا ہے تو اس کی کوئی اخلاقی بنیاد سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ تو محض انا، خود پسندی، مالی اور سیاسی مفاد کا معاملہ ہے۔
بادشاہوں کے معرکوں میں بھی نظریات کی بنیاد پر جنگ بہت کم کم اور انا، خود پسندی اور ذاتی پسند، ناپسند کی بنیاد پر بہت زیادہ ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح حکمران کی طبیعت میں سب سے بڑا بادشاہ کہلانے کی خواہش کوٹ کوٹ کر اسی دن بھر جاتی ہے جس دن وہ راج سنگھاسن پر بیٹھتا ہے۔ آپ تاریخ میں بایزید یلدرم اور تیمور لنگ کی بادشاہتوں اور ان کے معرکے کا احوال پڑھ لیں۔ دونوں اپنے زمانے کے بڑے بادشاہ تھے اور وسیع سلطنتوں کے مالک بھی۔ فیصلہ کن لڑائی میں فتح تیمور لنگ کے حصے میں آئی تھی اور اس نے مخالف بادشاہ کو ایک پنجرے میں قید کر دیا تھا۔ جہاں وہ جاتا، یہ آہنی پنجرہ ساتھ ساتھ جاتا۔ یہ مخالف کی تذلیل اور اپنی تسکیں کا سامان تھا۔ لگتا ہے‘ یہی معاملہ آج کی سیاسی لڑائی کا ہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں اور ذرا سا کھرچیں تو چاہے لیبل کوئی بھی لگا ہو، اندر سے یہی انا، خود پسندی، اور ناپسندیدگی برآمد ہو گی اور اسی ذاتی تسکین کے لیے ملک و قوم کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔ ہم نے یہ تماشا کتنی بار دیکھا ہے۔ بکنے اور خریدنے والے‘ دونوں ہی وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو اب اپنے معنی بھی کھو چکے ہیں۔ ہم نے وہ بظاہر خوش نما جملے کتنی بار سنے ہیں، جو بولے جاتے ہیں تو لگتا ہے کہ ان سے بڑا اصول پسند اور کوئی نہیں حالانکہ دنیا بھی جانتی ہے اور وہ خود بھی کہ یہ بد ترین بازار کی جنس ہیں۔ وہ جنس جس کے لیے اقبال کے مصرعے پر گرہ انور مسعود صاحب نے لگائی ہے:
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
ایک لہر یہ بھی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ عمران خان کو پسند کرنے والے نئے سرے سے متحرک ہو گئے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا گراف گرتے گرتے ٹھہر گیا ہے۔ یہ تاثر کہ تمام کرپٹ لوگ ان کے خلاف ہیں، ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ اس لیے اب ایک بار پھر ہوا کا رخ دیکھنے والے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ گھوڑے بیچنے اور خریدنے والے کچھ دیر کے لیے ٹھٹک کر رک گئے ہیں۔ اب عدالت کے رخ اور اس کے فیصلوں پر سبھی کے فیصلے کا مدار ہے۔ میری خواہش تو ویسے یہ ہے کہ خواہ فیصلہ کسی بھی فریق کے حق میں ہو، ان گھوڑوں اور لوٹوں کو ایک بار عبرتناک سزا سے دوچار ہونا چاہیے۔ تخت و تاج کسی کا بھی ہو، لیکن اگر اس شر میں سے یہ خیر برآمد ہو جائے تب بھی غنیمت ہے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں نے تو کالی بھیڑوں کے ایک بڑے ریوڑ میں ایک دو سفید بھیڑوں کی بات کے لیے قلم اٹھایا تھا۔ ہر سو پھیلتی اور گونجتی بری خبروں کے بیچ ایک دو اچھی خبروں کی بات کرنی تھی‘ لیکن کیا کیجیے کہ ذہن اس منڈی میں جا اٹکتا ہے جو اس وقت لگی ہوئی ہے۔ اس لیے فی الوقت بس یہی۔ آئندہ کسی نشست میں ان اچھی خبروں کی بات کر لیں گے۔اس وقت حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف‘ اتحادی جماعتیں ہوں یا باغی ارکان‘ ہر ایک کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ عرفان صدیقی کا شعر یاد آتا ہے:
عجب حریف تھا، میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے