دنیا کے سب بڑے شہروں کا حال یہ ہے کہ ایک شہر کے اندر دراصل کئی کئی شہر بسے ہوتے ہیں۔ مرکزِ شہر نہایت مصروف، نہایت گنجان اور نہایت مہنگا۔ مرکز کے چاروں طرف مضافاتِ شہر یعنی suburbs پھیلے ہوئے‘ اور ان میں سے ہر ایک مکمل شہر ہوتا ہے۔ فاصلے بھی بہت۔ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک سفر کے لیے بسا اوقات دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
امریکہ کی ریاست الی نوائے کا بھی یہی حال ہے۔ شکاگو کے چاروں سمت جو مضافاتی شہر آباد ہیں، انہیں بساتے وقت جنگلوں کی اہمیت کا احساس رکھا گیا ہے؛ چنانچہ آبادیوں کے بیچ بڑے بڑے جنگل چھوڑ دئیے گئے۔ ان کی خوبصورتی بھی اپنی جگہ، ان میں جنگلی حیات کا تحفظ بھی کیا گیا اور یہ سانس لیتے ذخیرے جس طرح ہوا میں زہر کم کرتے رہتے ہیں، وہ سہولت بھی اپنی جگہ۔ ان دنوں یعنی مارچ کی سرد رتوں میں یہ درخت برہنہ تھے۔ ابھی تو یہ سب پیڑ سوکھی ٹہنیاں، زرد تنے اور بے برگ بازو لیے کھڑے تھے لیکن ذرا سی رت بدلتے ہی یہ پیڑ سبز لباس اوڑھتے ہیں اور جنگل کا جنگل کھلکھلا اٹھتا ہے۔
مارچ کی ایک چمکیلی صبح میں اپنے میزبان محبوب علی خان کے ساتھ ایسے ہی جنگل سے گزر کر ڈاؤن ٹاؤن شکاگو یعنی مرکز شہر کی طرف جارہا تھا۔ ڈاؤن ٹاؤن شکاگو نہایت خوبصورت ہے۔ پہلے بھی کئی بار یہاں آنا ہوا تھا اور اس سیاہ عمارت کے سامنے سے بھی کئی بار گزرنا ہوا تھا جو اپنی سربلندی کے باعث 25 سال تک طویل قامت عمارتوں کی سردار رہی تھی‘ جسے ایک زمانے تک سیئرز ٹاور کے نام سے جانا جاتا تھا اور اب ویلیس ٹاور (Willis tower) کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ خواہش کے باوجود ایسا موقع نہیں ملا تھا کہ اس عمارت کے کندھوں پر چڑھ کر وہاں سے شہر کو دیکھا جائے؛ چنانچہ اس دن محبوب علی خان نے ویلیس ٹاورز جانے کی تجویز دی تو گویا یہ میرے دل کی آواز تھی۔
ڈاؤن ٹاؤن شکاگو میں گاڑی کی پارکنگ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میزبان نے یہ مسئلہ اپنے بھانجے کی مدد سے حل کیا‘ جو مرکز شہر میں جاب کرتا ہے اور اس کی رہائش بھی وہیں کی ایک جدید ترین اور خوبصورت اپارٹمنٹ بلڈنگ میں ہے۔ پارکنگ کے بعد ہمیں بیس منٹ پیدل چل کر ویلیس ٹاور پہنچنا تھا۔ یہ دائیں بائیں سربفلک عمارتوں کے بیچ کا سفر تھا۔ ان میں سے ہر عمارت کو سر اٹھا کر چوٹی تک دیکھنا گردن کی رگیں دکھا دینے والا کام تھا۔ یہ عمارتوں کا جنگل تھا اور اس جنگل کے دیوقامت درختوں کے بیچ ہم جیسے کیڑے مکوڑے چلتے تھے۔ بالآخر ہم اس عمارت کے سامنے جا کھڑے ہوئے جو سفید، مٹیالی، رنگ برنگی عمارتوں کے بیچ سیاہ رنگ کی ایک منفرد عمارت تھی۔ اس کے عین نیچے کھڑے ہوکر اس کی چوٹی کو دیکھنا ناممکن تھا۔ چونکہ یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے‘ اس لیے گراؤنڈ فلور پر ہی ٹکٹ آفس کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی توجہ اور ان کے وقت کو یادگار بنانے کیلئے بہت دل چسپیاں موجود ہیں۔
1450 فٹ بلند اور 110 منزلوں والی یہ عمارت جب 1974 میں تکمیل کو پہنچی تو دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ ایک بنگالی انجینئر، فضل الرحمن خان نے یہ ڈیزائن کی تھی۔ فضل الرحمن 1971 تک پاکستانی شناخت رکھتے تھے، اور بلند عمارتیں ڈیزائن کرنے کیلئے معروف تھے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر اس عمارت کی تعمیر رکوانے کے لیے بھی کئی مقدمے دائر کیے گئے‘ لیکن بہرحال یہ تکمیل کو پہنچی اور اب شکاگو میں سیاحوں کی سب سے بڑی دلچسپی کی جگہ ہے۔ لگ بھگ دس لاکھ سیاح سالانہ یہاں آتے ہیں۔ یونائیٹڈ ایئرلائنز کے دفاتر اس عمارت کے 20 فلورز پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس عمارت کی ملکیتوں کے ساتھ نام بھی بدلتے رہے ہیں۔2009 میں ویلیس گروپ کی لیز پر ملکیت ہونے کے بعد اسے ویلیس ٹاور کے نام سے پکارا جانے لگا۔
مختلف دلچسپ راہداریوں سے ہوتے ہوئے ہم اس لفٹ تک پہنچے جو 103ویں منزل پر اس جگہ پہنچاتی ہے جو سکائی ڈیک کے نام سے معروف ہے۔ یہ لفٹ بذات خود حیرت کی چیز ہے کہ صرف 60 سیکنڈز میں 103منزلیں طے کر جاتی ہے۔ لفٹ کا دروازہ ایک کھلے اور روشن منظر والے ہال پر کھلا جہاں چار سو شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔ یہ کم و بیش ایسا ہی منظر ہے جیسا برج خلیفہ دبئی کی اوپری، شیشوں کے دیواروں والی منزل کا ہے۔ برج خلیفہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ وہ اب دنیا کی بلند ترین عمارت ہے اور اس کے عین نیچے فواروں اور تالابوں کے منظر نے اس کی کشش بڑھا دی ہے۔ پھر کچھ فاصلے پر سمندر بھی اس کے حسن میں اضافہ کرتا ہے؛ تاہم ویلیس ٹاور کی اپنی خوبصورتی ہے۔ کھلی دھوپ میں شہر کا منظر نظریں جما دینے والا ہے۔ جب غالب نے کہا تھا کہ منظر اک بلندی پر کاش ہم بنا سکتے تو اس وقت تک یہ صرف تخیل کی بلندی تھی۔ اس کی جسمانی شکل انسان کو صدیوں بعد نصیب ہوئی اور آج ہم انہیں میں سے ایک تجسیم پر قدم دھر کر چلتے تھے۔ ویسے تو اس بلندی پر چار طرف شیشوں کی دیواریں ہی بہت کشادہ منظر پیش کرتی ہیں۔ آپ اس دائرے میں گھومتے جائیے اور چار سو کا مشاہدہ کرتے جائیے۔ منظر ایک ہونے کے باوجود ہر طرف سے مختلف ہے‘ اور دھوپ چھاؤں اسے نئے لباس پہناتے رہتے ہیں‘ لیکن جرأت آزماؤں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور 2009 میں ساؤتھ ویکر ڈرائیو والے رخ پر چار فٹ چوڑی مکمل شیشے کی بالکونیز بنائی گئیں جن کا فرش بھی شیشے کا ہے۔ اسے لیج (Ledge) کہا جاتا ہے۔ مکمل شیشے کے اس باکس میں کھڑا ہونے والا دائیں بائیں، اور اوپر نیچے دیکھ سکتا ہے۔ یہ مبہوت کن منظر اس عمارت کا حاصل ہے‘ لیکن جن لوگوں کو بلندی کا ڈر یعنی ہائیٹ فوبیا ہو، ان کے لیے ڈرانے والا تجربہ بھی ہے۔ لیج پر جانے کے لیے سیاحوں کی ایک طویل قطار ہر وقت لگی رہتی ہے۔ سکائی ڈیک پر دو لیج ہیں اور بیک وقت زیادہ سے زیادہ چار سیاحوں کو محدود وقت کے لیے اس پر ٹھہرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہم تین لوگ تھے تو اس لیج پر ہمیں 60 سیکنڈ ٹھہرنے کی اجازت تھی‘ لیکن یہ ساٹھ سیکنڈ پورے دن کا حاصل تھے۔ ہم نے اس پر تصویریں کھنچوائیں اور چمکدار سنہری دھوپ میں شکاگو کی عمارتوں اور میدانوں کا نظارہ کیا۔ اپنے پیروں تلے بہت نیچے ویکر سٹریٹ دیکھ کر چکر آتا تھا‘ اور یہ خیال بھی کہ اگر یہ شیشہ ٹوٹ جائے تو ہمارا کیا بنے۔ اور حضور! یاد رکھیے کہ یہ صرف اندیشہ ہی نہیں تھا۔ ایسا ہوا بھی ہے۔ موٹے اور مضبوط شیشے کا یہ فرش ساڑھے چار ٹن وزن تک سہارنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن 29 مئی 2014 کو اس فرش میں اس وقت دراڑیں پڑ گئیں جب سیاح اس کے اوپر کھڑے تھے۔ یہ غنیمت تھی کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔ پھر یہی لیج 12 جون 2019 کو ایک بار پھر ٹوٹا‘ لیکن ایک بار پھر بچت ہوگئی۔ یہ سوچ کر ہی جھرجھری آتی تھی کہ ایسا ہمارے ساتھ ہو تو کیا ہوگا‘ لیکن صاحب! خوف اپنی جگہ، بلندی کا حسن اپنی جگہ۔ ممکن ہوتا تو ہم مزید اس لیج پر ٹھہرتے‘ لیکن دنیا میں سب ممکن کہاں ممکن ہو پاتے ہیں۔ لیج سے نکلنا ہی تھا، سو نکلے، سکائی ڈیک کا ایک چکر لگایا اور ایک بار پھر تیز رفتار لفٹ میں زمین تک پہنچ گئے۔ اور یاد رکھو سعود عثمانی! سکون وقتی بلندی میں نہیں، سکون ہوا میں رہنے میں نہیں، سکون زمین پر رہنے ہی میں ہے۔ تمہی نے تو کہا تھا:
یہ خاک ہے جو سدا تیرے پاؤں چومتی ہے
کسی ہوا میں نہ رہ! نقش پا بنے گا نہیں