اردو انسٹی ٹیوٹ شکاگو، شکاگو میں موجود پاکستانی اور ہندوستانی ادبی تنظیموں میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ شکاگو کی ادبی محفلوں کی رونق جناب امین حیدر اس کی روح رواں ہیں۔ خوش مزاج، اور خوش مطالعہ۔ کراچی سے تعلق ہے اور وہ تہذیب بھی ان کے رگ و ریشے میں رچی بسی ہوئی ہے جو اب بہت کم نظرآتی ہے۔ ان کی گفتگو سے اس خوش سخن کی خوشبو آتی ہے جو پورے انہماک اور پورے دل سے ادب سے وابستہ ہو۔ ان کی مسلسل کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اردو انسٹیٹیوٹ نے مسلسل کئی پروگرام ایسے کیے ہیں جنہیں بہت مقبولیت ملی اور جو ادبی پروگراموں سے ہٹ کر الگ ذائقہ بھی رکھتے تھے۔ فیض پر دو سال پہلے کیے گئے ان کے پروگرام میں ڈرامہ، شاعری، موسیقی سبھی شامل تھے اور شکاگو کے اہل ادب نے اسے بہت سراہا تھا۔ اردو انسٹی ٹیوٹ کی مزید خوش قسمتی یہ کہ اسے محبوب علی خان، اعجاز ہاشمی، شگفتہ ہاشمی، خواجہ رومی، خواجہ عظیم جیسے پُرخلوص اور محنتی دوست مل گئے اور اس ٹیم نے اپنے کاموں اور اپنے روابط سے اس سال مارچ میں منعقدہ جشن اردو کے نئے پروگرام کو چار چاند لگا دئیے۔
اس بار میں امریکہ بنیادی طور پر اردو انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر اسی جشن اردو کے سلسلے میں مدعو کیاگیا تھا۔ یہ الگ بات کہ جب مہمان شاعر ادیب کسی ملک میں پہنچتا ہے تو اس کے لیے مزید شہروں میں بھی محفلیں سجا لی جاتی ہیں۔ جشن اردو کے سلسلے میں جو متنوع پروگرامز ہورہے تھے، میں ان سے آگاہ تو تھا لیکن ان کا درست اندازہ شکاگو پہنچ کر ہی ہوسکا۔ جشن اردوکا پروگرام دراصل پروگراموں کی ایک کڑی تھی۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ شکاگو میں حیدرآباد (دکن) سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے؛ چنانچہ رہن سہن، بول چال اور کھانے پینے میں اس کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ ان پروگراموں کے لیے شامبرگ، جو شکاگو کے مضافات میں ایک خوب صورت آبادی ہے، کو منتخب کیا گیا تھا اور پریری آرٹ سنٹر ہال بک کرایا گیا تھا جو بہت خوبصورت اور جدید سہولیات والا ہال ہے۔ یہ ٹیم کی مسلسل محنت اور روابط کا نتیجہ تھاکہ وی وی آئی پی، وی آئی پی، اور عمومی نشستوں میں ایک نشست بھی خالی نہیں تھی۔ لوگ بہت ذوق و شوق سے ٹکٹ لے کر پروگرام میں شریک ہوئے۔ نشستوں تک رہنمائی کے لیے رضاکار موجود تھے یعنی مکمل انتظام موجود تھا۔ تقریب کی نظامت کے لیے نامور اداکارہ نیلوفر عباسی کو مدعو کیا گیا تھا، جن کا نام محتاج تعارف نہیں۔ انہی کے ساتھ امین حیدر بھی نظامت میںشریک رہے۔ ابتدا میںانسٹیٹیوٹ کے سیکرٹری ڈاکٹر لطیف سیف نے استقبالیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر فرینچسکا چپ کانفر ماہر اقبالیات ہیں۔ انہیں پیام اقبال کے لیے دعوت دی گئی۔ انہوں نے کلام اقبال پڑھا اور اپنا تبصرہ بھی پیش کیا۔ امین حیدر اور نیرج مہتا کی ٹیم نے شاہد احمد دہلوی کی تحریروں کے اقتباسات داستان گوئی کے انداز میں پیش کیے۔ اس کے بعد ساس بہو کا ایک مکالمہ شامل تھا جو پُرلطف حیدرآبادی زبان میں تھا۔ حیدرآباد دکن کے مشہور شاعر سلیمان خطیب کی یہ نظم تمثیلی انداز میں بہت عمدہ طریقے سے پیش کی گئی اور مزید لطف یہ کہ اس میں دونوں کردار ان خواتین نے ادا کیے جنہوں نے پہلے کبھی کسی ڈرامے میں کام نہیں کیا تھا۔ پندرہ بیس منٹ کے اس ڈرامے میں ارجمند علاؤالدین اور گلستان فاطمہ، دونوں کی اداکاری بہت کامیاب تھی اور انہوں نے سامعین سے خوب داد سمیٹی۔ اس کے بعد اگلا حصہ مرزا غالب شامبرگ روڈ پر تھا جس میں مرزا غالب (خواجہ رومی) کسی طرح شامبرگ کی مرکزی سڑک پر پہنچ جاتے ہیںاور وہ امین حیدر کا انتظار کر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک راہگیر لڑکا (محبوب علی خان) انہیں پہچان لیتا ہے۔ تیس منٹ کے اس ڈرامے کی خاص بات یہ تھی کہ خواجہ رومی اور محبوب کی مطابقت بہت اچھی تھی اور اس کے لیے انہوں نے مسلسل بہت دن ریہرسل بھی کی تھی۔ کئی مزے کے جملے اختراع کیے تھے اور حرکات و سکنات سے بھی ان کے مزے میں اضافہ کیا تھا۔ یہ خیال رکھا گیا تھاکہ غالب سے وہی جملے کہلوائے جائیں جو ان کے مزاج کے مطابق ہوں‘ لیکن انہیں مقامی حالات سے بھی جوڑ دیا جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دونوں دوستوں نے بھی پہلے کبھی اداکاری نہیں کی تھی۔ سکرپٹ مضبوط ہو اور اداکار خود اعتماد، تو داد کیسے نہ ملے۔ ایک ایک جملے پر ہال مسلسل تالیوں اور قہقہوں سے گونجتا رہا اور دونوں کو بھرپور داد ملی۔ کچھ دیر کے لیے چائے اور سموسوں کا وقفہ ہوا اور اس کے بعد دوبارہ جب لوگ نشستوں پر بیٹھے تو گرمیت مرباس کی ساتھیوں سمیت کتھک رقص کی متاثر کن پرفارمنس پر بہت داد دی گئی۔ اس کے بعد محترمہ نیلوفر عباسی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ ان کی مسلسل کارکردگی کے صلے میں ایک اچھا اعترافی نشان تھا۔ اگلا حصہ میرے ساتھ مخصوص تھا۔ پہلے جناب امین حیدر نے بھرپور تعارف کروایا، میرے لیے جناب انور مسعود، جناب افتخار عارف،جناب عطاالحق قاسمی کے ستائشی کلمات کے ویڈیو کلپ دکھائے گئے‘ اور اس کے بعد مجھے سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ یہ مشاعروں کی روایت سے ہٹ کر ایک منفرد طریقہ تھا جس میں مجھ سے شاعری بھی سنی گئی، ادبی زندگی کے پُرلطف واقعات بھی سنے گئے، اور مشاہیر کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔ وقت پر لگا کر اڑا اور سچ بات یہ ہے کہ مجھے گفتگو اور شاعری کے دوران یہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وقت کتنی تیزی سے اور کتنی خوب صورتی سے گزرا۔ سامعین اور ناظرین کی بھرپور داد ملی اور اس حصے کے آخر میں مجھے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے ساتھ ایک ہزار ڈالرز کی رقم بھی تھی۔ سچ بات یہ ہے کہ زندگی میں مشاعرے بھی بہت پڑھے اور ایوارڈز بھی، انعامی رقوم کے ساتھ، اللہ کا شکر ہے، بہت سے حاصل کیے، لیکن جس خلوص، محبت اور تپاک سے مجھے یہ ایوارڈ دیا گیا وہ یادگار ہے۔ پاکستان کے قونصل جنرل جناب طارق کریم تقریب میں اپنی بیگم کے ساتھ موجود تھے اور انہوں نے یہ ایوارڈ مجھے دیا۔ اب بھی یہ ایوارڈ دیکھتا ہوں تو اس میںسے محبت، خلوص اور تپاک کی مہک آنے لگتی ہے۔ میں ڈائس سے نیچے اترا تو محترمہ نیلوفر عباسی سمیت بہت سے ناظرین نے مبارک بھی دی اور بہت سے نئے لوگوں سے تعارف بھی ہوا۔
محفل کا آخری حصہ غزل گائیکی پر مشتمل تھا جس میں نامور گلوکار کوئنسی چیٹ، دیویا کھانڈیکر اور وکاس فالنیکر نے بہت عمدہ گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ دیویا نے خاص طور پر اپنے سریلے پن سے بہت متاثر کیا۔ جشن اردو شروع سے آخر تک متاثر کن تھا اور اس کے لیے بہت محنت بھی کی گئی تھی۔ ناسپاسی ہوگی اگر ان لوگوں کی محنت کا ذکر نہ کیا جائے جو سٹیج پر نہیں تھے لیکن جن کے بغیر یہ کامیاب پروگرام منعقد نہیں ہوسکتا تھا۔ خواجہ رومی اور محبوب علی خان کی بیگمات،جو ریہرسل میں مسلسل اپنا کردار ادا کرتی رہیں، جناب جاوید اسلم، اعجاز ہاشمی اور شگفتہ ہاشمی۔ میں ہمیشہ ایسی تقریبات کاخیر مقدم کرتا ہوں جن سے بیرون ملک موجود پاکستانی اور ہندوستانی دوست اپنی زمین، اپنی مٹی، اپنی زبان اور اپنی تہذیب سے جڑے رہیں۔ ان کے لیے یک جان ہو سکیں اور اگلی نسل بھی اس میں شریک ہونے میں دلچسپی کا اظہار کرے؛ چنانچہ جب برادرم امین حیدر نے بتایا کہ تقریب کے بعد کچھ نوجوان لڑکیوں لڑکوں نے مکمل سمجھنے کے لیے اردو زبان سیکھنے کی شدید خواہش کا اظہار کیا تو ہم سب کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ یہی اصل کامیابی تھی اور اس کے لیے ان دوستوں کو بہت مبارک ملنی چاہیے۔