لڑکپن میں‘ جب میں گھر کا سودا سلف بازار سے لانے کے قابل ہوا تو ہرچند ماہ بعد تانبے کے برتنوں کو اجلوانے کا کام بھی میرے سپرد ہوگیا۔یہ قلعی گر بعض اوقات چلتے پھرتے گلی محلوں میںبھی آجاتے تھے ورنہ ان کے مستقل اڈوں پر جانا پڑتا تھا۔قلعی گر کے پاس کھڑے ہو کر اس کی لمبی سی دھونکنی‘ لوہے کے چمٹے اور نوشادر سے برتنوں کودھونی دینے کا نظارہ دیکھنا بھی دلچسپ تھا لیکن طلسماتی کام اس کے بعد شروع ہوتا تھا۔وہ چاندی جیسی ایک چھوٹی سی رنگ کی ٹکیا دیگچی کے اندر مس کرتا اور کپڑے سے تمام اندرون میں پھیلا دیتا۔دیگچی اسی لمحے جگر جگر کرنے لگتی۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ پچھلے لمحے کی وہی بے رنگ‘ داغ دار اور سیاہ ملگجی دیگچی ہے۔ میںنئے نکور‘ چمچاتے برتن لے کر جب گھر واپس آتا تو امی اور باقی گھر والوں سے اس طرح داد وصول کرتا جیسے یہ صیقل گری میں نے خود کی ہے۔
ڈاکٹر وحید احمد کی نظمیں پڑھتا ہوں تو وہ قلعی گر یاد آتا ہے۔ ایسا اصیل قلعی گر کہ اللہ اللہ! نظم کے پرانے برتن کو ایسا چمچماتا ہے کہ سبحان اللہ۔ موضوعات اور لفظیات سے لے کر بُنت تک ہر چیز کو چمچما دینے والا ایسا ہنر کس کے پاس ہوتا ہے۔
اپنے آپ کو زبردستی منوانے کی کوشش کرنے والے شاعروں میں وہ ایک جدا شخص ہے۔اپنی شان میں روز نئی تشبیب کے ساتھ تازہ قصیدہ پڑھتے اور بلاناغہ محفلوں میں گھنٹوں شرکت کرکے اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کرنے والے شاعروں میں الگ تھلگ آدمی۔ گلا پھاڑ کر اپنا وجود ثابت کرنے پر تلے ہوئے لوگوں میں ایک خاموش شخص۔وہ یہ سب کام کرتا ہے مگر اپنے ڈھب اور اپنے ڈھنگ سے۔وہ قلم کی طاقت سے اپنے آپ کو منواتا،نظم کی شان میں تازہ قصیدہ پڑھتا،اپنے ساتھ گھنٹوں وقت گزارتا‘ اپنے اور دوسروں کے وقت کو سرشار بناتا ہوا ایک موجود حرف کارہے جس کی موجودگی اطمینان بخشتی ہے، سرشار کرتی ہے اور شاعری پر اعتماد بحال کرتی ہے۔ پہلی بار اس کی نظم ' ' خانہ بدوش‘‘ملی تھی تومیں اس وقت تک وحید سے نہیں ملا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ مصرعوں کی طاقت ،تخلیقی زور اور لہجے نے مجھے اس نظم کا اسیر کردیا تھا۔
میں بالا بیلے دشت کا، صحرا میں ہوا جوان
مرا جسم چھریرا سانولا، مری سیدھی تیر اُٹھان
میری کالی آنکھ دراوڑی، متجسس اور حیران
مرے نیند میں ہلتے پاؤں ہیں، میرے جذبے کی پہچان
اِک مشعل راہ نورد ہے جو جلتی رہتی ہے
مرے ہاتھ پہ ایک لکیر ہے، جو چلتی رہتی ہے
وحید احمد کے مناصب سے زیادہ مشاغل میں حارج ہونے کا احساس نہ ہوتا تو شاید اس سے زیادہ ملاقات ہوا کرتی۔نہ پشاور زیادہ دور تھا نہ اب اسلام آباد بہت فاصلے پر ہے۔پھر بھی جو ملاقاتیں ہوئیں وہ بھرپور تھیں۔ یہ اس کی محبت ہے کہ اس نے مجھے ہم مشرب سمجھا اور ہمیشہ دل کھول کر ملا۔ ایک بار جب وہ مانسہرہ میں مقیم تھا تو ہم نے ایک شام ایک پہاڑی چوٹی بھی سر کی اور اسی رات اس نے اپنی تاریخی سرکاری رہائش گاہ میں میرے گھرانے کو اپنے گھر عشائیے پر مدعو کیا۔ شام طلوع ہونے سے رات بھیگنے تک کا وہ وقت اور اس سے گپ شپ یادگار تھی اور رہے گی۔وہ خوبصورت گفتگو کرتا ہے اور اگر وہ موج میں ہو تو نرالی اور اچھوتی تشبیہات اس کی نظم کی طرح اس کی گفتگو میں بھی سنہری دھاریوں کی طرح جگمگاتی ہیں۔ وحید احمد نے پُرلطف غزلیں بھی لکھی ہیں لیکن اس کی نظم اس کی غزل سے آگے ہے۔اس طرح کہ اس کے ذکر کے بغیر جدید نظم پر بات مکمل نہیں ہوسکتی۔ ایک بار اس نے یہ بتا کر مجھے حیران کردیا کہ وہ نظم سے زیادہ غزل پڑھنے کا رسیا ہے۔خیر اس کے مطالعے کی جو بھی ترجیح ہو،نظم میں اس کا اپنا انداز ہے۔ ـاس کی نظم ''گھر سے باہر نکلنے کی تیاری‘‘مجھے کبھی بھولتی ہی نہیں۔
اور پھر ریڑھ کی چوڑی پہ کسا کاسۂ سر؍ کاسۂ چشم میں آنکھیں رکھ دیں؍ ہر بنِ گوش میں آواز کا بالا ڈالا؍ ناک کا چھید کیا کیلِ مشامِ جاں سے؍ آبِ حیواں جو پیا،سوئی زباں جاگ اُٹھی؍ روغنِ لامسہ تر کرتا گیا ہر بنِ مو؍ جسم کو ڈھال کیا کپڑوں کی دہری تہ سے؍ پاؤں میں چرم کا چکر پہنا؍ کوٹ کی جیب میں چہرے ڈالے؍ اور ہاتھوں میں لکیریں رکھ دیں؍ پھر درِ ذات کو اندر کی طرف کھول دیا؍ گھر کے دروازے کو باہر کی طرف کھول دیا
اس کو پڑھتے ہوئے بعض الفاظ اور تراکیب میں اس کے بے نیازانہ استعمال سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن تخلیقی زور سے ہرگز نہیں۔
اس نے مٹھی کے گلداں میں ٹہنی رکھی
پتیوں کے کنارے چمکنے لگے
پھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے
اس نے پاؤں دھرے گھاس کے فرش پر
پاؤں کا دودھیا پن سوا ہوگیا
سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہوگیا
دراصل وحید ایک پکے اور صاف ستھرے گھر میں رہنے والا مضطرب الحال خانہ بدوش ہے۔کبھی منگلا ڈیم میں پانی اترتا ہے تو اسے پرانے میر پور کے در و بام ، منارے اور گھر اپنے گھر کی طرح رلاتے ہیں۔ گاہے وہ قدیم یونان میں '' زینو‘‘کے پاس جا اترتا ہے اور احوال لکھنے میںمصروف ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی '' مرمت کون کرتا ہے‘‘کے کنارے پڑاؤ ڈالتا ہے۔ لیکن گھوم پھر کراپنی برادری کے پاس آتا ہے تو فخر سے کہتا ہے: ''ہم شاعر ہوتے ہیں‘‘
ہم شاعر ہوتے ہیں؍ ہم پیدا کرتے ہیں؍ ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں؍ تو شکلیں بنتی ہیں؍ ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں؍ جو مٹی تھے وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں؍ ہم شاعر ہوتے ہیں
اس نے اپنے والد کی وفات پر جو نوحہ ' ' بین‘‘کے نام سے لکھا‘ وہ اردو رثائی ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے۔
مجھے تو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر ؍ ایک جھٹکے سے ہوا میں پھینک دیتا تھا؍ کبھی گرنے نہیں دیتا تھا؍ جھک کر تھام لیتا تھا؍ مگر اس بار تو نے مجھ کو نیلے آسماں میں پھینک کر نیچے زمیں رکھ دی؍ خدا پوچھے تجھے؍ تو نے مجھے بے وقت منہ کے بَل گرایا ہے ؍ زمیں کی ضرب سے میرا کلیجہ پھٹ گیا ہے ؍ مجھے آنسو بہاتا دیکھ؍ جس کو ہاتھ کی پوروں سے شیرینی کھلاتا تھا؍ اسے دھرتی چباتا دیکھ؍ او میرے ویریا
وحید احمد نے برسوں پہلے ''علاج بالمثل‘‘ لکھی تھی لیکن لگے ہوئے روگ اور چمٹے ہوئے عارضے کہاں جاتے ہیں کہ یہ نظم پرانی ہوسکتی۔ دو ابالمثل بے توقیر روگوں‘ بے حمیت عارضوں کے واسطے بے مثل ہوتی ہے۔
کئی عشرے ہوئے ہم جاں بلب ہیں؍ اور مسلسل اس دو ا پر ہیں؍ ہمیں دیکھو بڑے بے آسرا ہیں ہم ؍ ہمارا گھر ہے لیکن کس قدر بے خانماں ہیں ہم؍ ہم اپنی دشت ویرانی مٹانے کے لیے صحر اکو جاتے ہیں؍ ہم اپنے ایک قرضے کو چکانے کے لیے اک دوسرا قرضہ اٹھاتے ہیں؍ دوا بالمثل کھاتے ہیں
وحید احمد! یہ مختصر تحریر دراصل نہ تمہارے لیے ہے نہ تمہیں خوش کرنے کے لیے۔ تم بخوبی جانتے ہو کہ لکھنے والا لکھتا ہے تو سب سے زیادہ اپنے آپ کو خوش کرنے کے لیے۔ یہ نہ ہو تو لکھنا محض ایک مشقت ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔چنانچہ یہ لفظ میں نے اپنے لیے اور خود کو خوش کرنے کے لیے لکھے ہیں۔ رہے تم تو تمہارا اس تحریر سے واسطہ محض یہ ہے کہ
اے وقتِ تو خوش کہ وقتِ ما خوش کردی