"SUC" (space) message & send to 7575

زمیں کی طرح ہمارا بھی سینہ چاک ہوا

زخم نئے ہیں اور یادیں پرانی۔ اور دونوں دائرہ در دائرہ پھیلتے ہوئے۔ پہلے کسے بیان کیا جائے؟ دونوں کا تقاضا ہے کہ پہلے میرا حق ہے اور فیصلہ مشکل ہے۔ دل غم سے چھلک رہا ہو تو تو فیصلے آسان کب ہوتے ہیں ؟
جمعہ 10 جون کو میں منتظمین کی دعوت پر حلقۂ اربابِ ذوق‘لائل پور یعنی فیصل آباد کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچا۔اجلاس سے پہلے میں نے پوچھا کہ کیا ثناء اللہ ظہیر آئیں گے؟ جواب ملا وہ آیا تو کرتے ہیں‘ میں مطمئن ہوگیا کہ ایک دلدار شاعر دوست سے ملاقات ہونے والی ہے۔ اجلاس شروع ہوا‘مگرثناء اللہ ظہیر نہ آئے۔ پھر آئی تو وہ خبر آئی جو نہ ہی آتی تو اچھا تھا۔پتا چلا کہ اب ظہیر کبھی نہیں آئیں گے۔وہ کچھ دیر پہلے ہر ملاقات سے بے نیاز ہوگئے اور اس مالک سے ملنے چلے گئے جہاں سب نے بالآخر جانا ہے۔ آن کی آن میں دوستوں کی محفل غم خانہ بن گئی۔ایک تعزیت کدہ جس میں ہر شخص کو گمان تھا کہ جانے والے کا تعلق مجھی سے خاص تھا اور پُرسے کا سب سے زیادہ حقدار میں ہوں۔
بیس‘ پچیس سال پہلے کی بات ہوگی۔ میں فیصل آباد میں ایک شعری نشست سے اٹھ کر کچھ نوجوان دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا اورفیصل آباد کے نوجوان شاعروں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ خوبصورت شاعر عماد اظہر نے مجھے چند شعر سنائے جو سینے میں تیروں کی طرح کھب گئے:
میں درمیاں ہوں الاؤ کے اور مری آواز
تو سن رہا ہے اسی درمیاں کے اندر سے
کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے
ابھی تو یہ در و دیوار جانتے ہیں مجھے
ابھی تو میں نہیں نکلا مکاں کے اندر سے
پتا چلا کہ یہ ایک نوجوان ثناء اللہ ظہیر کے شعر ہیں اور وہ اتفاق سے آج کی نشست میں شامل نہیں ہوسکا۔ میں لاہور چلا آیا اور یہ شعر مرے ساتھ لپٹے ہوئے چلے آئے۔میں نے اس کی کچھ اور شاعری پڑھی‘ اس کا نمبر تلاش کیا اور اسے فون کرکے وہ داد اس تک پہنچائی جو اس کا حق تھی۔
دو تین دن کے بعد میرے دفتر میں ایک خوش شکل‘باریش‘با ادب نوجوان داخل ہوا۔یہ ثنا ء اللہ ظہیر تھا۔اسے لاہور آنا تھا اور یہ موقع اس نے غنیمت سمجھا۔وہ نہ صرف مجھے جانتا تھا بلکہ میرے بہت سے شعر اسے یادتھے۔ ہم ایک دوسرے کے اسیروں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ کچھ دن بعد میں نے ایک رسالے میں اس کی یہ غزل پڑھی :
رغبت مجھے اس واسطے بازار سے کم ہے
موجود مری جیب میں درکار سے کم ہے
برگد کے گھنے پیڑ تلے رک تو گئے ہیں
سایہ مگر اس کا تری دیوار سے کم ہے
اچھے شاعر کی ایک نشانی یہ ہے کہ اسے پڑھ کر اور سن کر خود کہنے کی تحریک ہوتی ہے۔ چند دن بعدمیں نے اسی زمین میں غزل کہنی چاہی تو فون کرکے ظہیر سے اجازت طلب کی کیونکہ میرے علم کے مطابق یہ زمین اسی کی اختراع تھی۔ جواب میں اس نے جس محبت سے اور انکساری سے بات کی اس نے مجھے شرمندہ سا کردیا۔ ایسا لگا جیسے میں نے اس کی زمین کی اجازت لے کر اس پر کوئی احسان کیا ہے۔ یہ اس کی منکسر المزاج شخصیت کا وہ پہلو تھا جس کا اندازہ مجھے پہلی بار ہوا۔
بیس پچیس سال کی یادوں او رملا قاتوں کو سمیٹنا ایک ریشمی تھان کو تہہ کرنے جیسا ہے جو ہاتھوں سے پھسل پھسل جاتا ہو۔ اس کا شعری قد‘ جو شروع ہی سے دوسروں سے ممتاز تھا‘ مزید بلند ہوا۔ فیصل آباد کی کوئی اچھی شعری نشست اور مشاعرہ ثناء اللہ ظہیر کے بغیر نامکمل رہنے لگا۔ ایسے کئی مواقع پر اس سے ملاقا ت ہوتی اور اس کے شعر سننے کو ملتے :
کچھ اس لیے بھی مجھے آئینہ پسند نہیں
میں صاف گوئی میں بھی انتہا پسند نہیں
تمہارے سامنے سچ بولنے سے رک گئے ہیں
ہمیں بتاؤ! تمہیں اور کیا پسند نہیں
٭......٭......٭
کیسی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں
اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوا دی مری مسماری میں
ثناء اللہ ظہیر کا شعری مجموعہ 'کہانی‘ شائع ہوا تو وہ بھی ایسی صندوقچی کی طرح تھا جو ہیروں سے بھری ہوئی ہو۔اس کے دل کا گداز اس کے لفظوں میں آتا تھا اور اس کے لفظوں کی تاثیراور مقبولیت اس کے دل کو مزید گداز کرتی جاتی تھی۔اس کے لفظ میں برکت تھی جو ڈھیروں ڈھیر شاعروں میں بھی جگمگ جگمگ کرتی رہتی تھی۔ وہ فیصل آباد کا چہرہ تھااور شہر سے کم ہی کہیں باہر جاتا تھا۔ اس کا مزاج اور اس کی مجبوریاں‘ دونوں اسے روکتی تھیں لیکن یہ بیڑیاں اس کے شعروں کے پیروں میں نہیں تھیں۔ وہ پوری دنیا میں ہر کہیں پہنچتے تھے۔وہ لوگ بھی یہ شعر سناتے اور لکھتے تھے جنہیں یہ علم بھی نہیں تھا کہ ان کا خالق کون ہے۔وہ ہنر کا امین تھا اور وہ نعت کی صنف میں بھی اپنے ہنر کے ساتھ شامل ہوتا تھا:
یہ جو سکون کی نعمت ملی ہوئی ہے مجھے
کسی سفر کی بدولت ملی ہوئی ہے مجھے
میں آبِ نعت سے اپنے گناہ دھو ڈالوں
یہ زندگی نہیں‘ مہلت ملی ہوئی ہے مجھے
٭......٭......٭
کہ ایک دن اسے آقا کی نعت ہونا تھا
غزل نے اپنی جوانی سنبھال کر رکھی
مجھے یاد نہیں کہ میں نے کسی کے منہ سے ثنا ء اللہ ظہیر کے لیے بری بات سنی ہو‘ اسی طرح اس کے منہ سے بھی کسی کے لیے منفی کلمہ نہیں سنا گیا۔ وہ نہ مشاعروں کی جوڑ توڑ میں مصروف ہوا‘نہ گروہ بندی نے اپنی طرف کھینچا‘ نہ کسی کی دلآزاری سے اپنا قد بلند کیا۔ ایک بڑے ادبی مرکز میں رہ کر ان سے بلند ہوجانا بہت بڑی بات ہے۔
کچھ مدت سے اس کے شعروں میں ایک عجیب کیفیت در آئی تھی۔
میں رفتگاں کے لیے رو نہیں رہا لیکن
مری دعاؤں میں کچھ نام بڑھتے جاتے ہیں
بلا رہے ہیں مجھے اُس طرف بھی لوگ ظہیرؔ
اور اِس طرف بھی مرے کام بڑھتے جاتے ہیں
جمعہ 10 جون کو و ہ اس کمپنی میں‘ جہاں کام کرتا تھا‘ اپنے دفتر گیا۔ جمعہ کی نماز مسجد میںپڑھی۔واپس دفتر آیا اور کچھ دیر بعد اسے گھبراہٹ محسو س ہوئی۔ ساتھی اسے ہسپتال لے گئے لیکن جمعہ کی فضیلت اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ رکھی تھی۔ مغرب سے پہلے وہ آخری منزل عبور کرگیا۔ اگلے دن میں جنازے میں اس کا پرسکون‘ ترو تازہ چہرہ دیکھ رہا تھا۔
کچھ پاس ہے تو آنسو ہیں اور لفظ ہیں۔ میں بس یہی پیش کرتا ہوں :
جو میں نے کھلتے بھی دیکھا تھا اور ٹوٹتے بھی
وہ پھول شاخ سے بچھڑا تو زیبِ جادہ ہوا
میں اس کے واسطے رو بھی رہا ہوں اور سعودؔ
مری دعاؤں میں وہ نام بھی زیادہ ہوا
وہ اپنے شہر کا چہرہ جو نذرِ خاک ہوا
زمیں کی طرح ہمارا بھی سینہ چاک ہوا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں