یقین نہ کرنے والی بات لگتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے علمی عروج کے دور میں اُن اُن موضوعات پر کتابیں لکھیں جن کا اس دور میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ علم الحیوانات یعنی Zoologyتو ایک سائنسی موضوع کے طور پر تو ایک دو صدی پہلے ہی مانا گیا ہے‘ اور مغربی اقوام نے بالخصوص اس موضوع پر محیر العقول اضافے بھی کیے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علم الحیوانات کی ابتدا اس وقت مسلمانوں نے کی جب اسے علم گردانا ہی نہیں جاتا تھا۔ آج سے ساڑھے گیارہ سو سال پہلے جب اس موضوع کا تصور نہیں تھا‘ اس وقت بصرہ کے مچھیرے اور مشہور عرب مصنف الجاحظ (869ء) نے کتابِ الحیوان کے نام سے 7جلدوں میں بڑی کتاب تصنیف کی تھی۔ جو آج بھی عربی زبان میں ہر بڑے کتب خانے کی زینت اور حوالہ جاتی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح علامہ کمال الدین دمیری (808ھ) نے حیات الحیوان کے نام سے ایک عجیب اور نہایت دلچسپ کتاب لکھی تھی۔ قزوینی کی عجائب المخلوقات ایک الگ تصنیف ہے‘ جو اسی ذیل میں آتی ہے۔ یہ تو مستقل تصانیف ہیں‘ لیکن ضمنی طور پر جن کتب میں حیوانات کا ذکر ہے وہ بھی قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس وقت ان مصنفین کے پیش نظر یہ تھا کہ ایک موضوع سے متعلق‘ مستند یا غیر مستند سے قطع نظر‘ جو روایات یا مشاہدات ہیں وہ یکجا ہوجائیں اور اس زمانے کے لحاظ سے یہ بڑی خدمت تھی۔
یہ موضوع 1990ء کے لگ بھگ میری بہت دلچسپی کا بھی رہا ہے۔ علامہ دمیری کی مذکورہ کتاب کے شائع شدہ اردو ترجمے پر میں نے کئی سال محنت کی۔ اس پر حواشی کا اضافہ بھی کیا۔ یہ سب تفصیل اسی کتاب کے مقدمے میں موجود ہے۔ حیواناتِ قرآنی کے نام سے مولانا عبد الماجد دریا بادی کی کتاب بھی معروف ہے جو ان تمام حیوانات کا احاطہ کرتی ہے جو قرآنِ کریم میں مذکور ہیں۔ لیکن یہ باتیں توضمنی طور پر اس تحریر میں آگئیں‘ دراصل اس وقت میرے ہاتھوں میں فیصل آباد کے تاریخی اور اہم تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو جناب ڈاکٹر سعید احمد کی عطا کی ہوئی کتاب 'داستانیں اور حیوانات‘ ہے جو 2012ء میں شائع ہوئی تھی لیکن میری نظر سے اب گزری ہے۔ میں اس دلچسپ علمی کتاب کو پڑھ رہا ہوں اور اسی نے وقت کی باز گشت کے طور پر مجھے وہ تمام ماہ و سال یاد دلا دیے ہیں جو علامہ دمیر ی کی حیات الحیوان پر کام کے دوران گزرے تھے۔ ڈاکٹر سعید احمد صاحب نایاب اہلِ علم میں سے ہیں جو علمی کام اور تحقیق سے وابستہ ہیں اور ادب سے بھرپور طور پر جڑے رہنے کے باوجود ان تمام مصروفیات سے دور رہتے ہیں جو ان کی راہ کھوٹی کرتی ہوں۔ ڈاکٹر سعید صاحب نے اردو داستانوں میں تصورِ خیروشر (مقالہ ایم اے) اور اردو شعرا کا سائنسی شعور (مقالہ پی ایچ ڈی) جیسے منفرد موضوعات پر بھی کام کیا ہے۔ اپنے موضوع پر اس منفرد کتاب 'داستانیں اور حیوانات‘ میں انہوں نے ہر دو زاویوں یعنی داستان گوئی کے فن اور اس میں حیوانات کے ذکر پر تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ داستانوں کی معنوی علامت اور ان کی ادب میں اہمیت پر بھی صاحبِ کتاب نے پہلا باب مختص کیا ہے۔ اس کتاب میں عربی لفظ سمر کی یہ تعریف درج ہے: سمر کے معنی ہیں قہوہ خانوں یا گلیوں کے نکڑوں پر تفریح کے لیے رات کو مجلس آرائی کرنا۔ سمر کے لفظ سے مجھے عمرو بن الحارث المضاض جرہمی کا شعر یاد آگیا جو اس نے مکہ سے جلا وطن ہوتے ہوئے کہا تھا:
کان لم یکن بین الحجون الی الصفا
انیس و لم یسمر بمکہ سامر
(ایسا لگتا تھا کہ کوہِ حجون سے کوہِ صفا تک میرا کوئی ساتھی ہی نہیں تھا اور نہ مکہ میں کسی کہانی کہنے والے نے کبھی کہانی سنائی تھی)
اور صاحب! انہی داستانوں‘ حکایتوں‘ کہانیوں اور قصوں نے تو حقیقتوں میں آمیز ہوکر ہم سب کے تخیل اور وجدان کی پرورش کی ہے۔ اور ہمارے ہی نہیں عالمی ادب کے بڑے بڑے مشاہیر کی بھی۔ دور کیوں جائیں‘ خود ہمارے مایہ ناز نثر نگار انتظار حسین انہیں اساطیری کہانیوں کے اسیر رہے۔ بانو قدسیہ نے ناول راجہ گدھ میں یہی تمثال گری کی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے 'منطق الطیر‘ نامی ناول میں خواجہ عطار کی منطق الطیر کو نئے ڈھنگ سے شامل کیا ہے۔ یعنی شراب کہنہ جامِ نو میں پیش کی ہے۔ Animal farm نامی مشہور ناول سے ہمارے ہاں کے ناول نگار اور افسانہ نگار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ یعنی انسان جبلی اور فطری طور پر اس موضوع کا اسیر رہا ہے۔
اسی کتاب سے منشا یاد کے ذرا یہ جملے پڑھیے: کہانیاں ہماری یادداشت کے پہلے آسمان کے ستارے ہیں۔ روشن اور شوخ‘ مدھم اور نہایت مدھم۔ جن کی لو وقت کی تنہائی اور شب کی تاریکی کو کم کرکے گوارا بنا دیتی ہے۔ عمر کے ہر دور کی کہانی کا اپنا ایک الگ رنگ اور ذائقہ ہوتا ہے۔ بچپن کی کہانیاں ہم جولیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ انہیں جب بھی پکاریں‘ وہ دروازوں اور پردوں کے عقب سے نکل کر ہمارے ساتھ آجاتی ہیں۔ اور ہمارے ساتھ گلی ڈنڈا اور لکن میٹی کھیلنے لگتی ہیں۔ عہدِ شباب کی کہانیاں رسیلی اور خوشبو دار ہوتی ہیں اور ادھیڑ عمری میں کہانیوں کے سارے ذائقے اور معانی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی نئی پرتیں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
ڈاکٹر سعید احمد کی اس کتاب کا ہر باب دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔ تین سو صفحات کی اس کتاب میں داستانوںکی علامتی معنویت‘ عالمی ادب میں حیوانات کا ذکر‘ فورٹ ولیم کالج کی داستانوں کے ماخذ‘ اردو داستانوں میں حیوانات کی علامتی حیثیت‘ حیوانات کی مختصر کہانیاں‘ طویل داستانیں جیسے ابواب شامل ہیں۔ ان میں عربی‘ فارسی اور سنسکرت اصل داستانیں ہیں جن کے خمیر سے اردو داستانوں نے جنم لیا ہے۔
داستانوں میں ہمیں وہ کچھ ملتا ہے جو ہمیں دنیا میں نہیں ملتا لیکن جس کی خواہش ہمارے دل سے اٹھتی ہے۔ تخیل پر سوار ہم اس دنیا میں جا پہنچتے ہیں جہاں اونٹ‘ بکریاں‘ گائے‘ بلیاں‘ توتے‘ مینائیں کلام کرتے ہیں۔ سیمرغ ہوا کے دوش پر میلوں کا فاصلہ طے کروا دیتے ہیں اور جَل پریاں ساحلوں پر گیت گاتی ہیں۔ یہ دنیا آج بھی دل ربا اور دلکش ہے جب سائنسی ایجادات نے تصورات کو تجسیم کرکے دکھا دیا ہے تو اس زمانے کا اندازہ خود لگایا جا سکتا ہے جب الاؤ کے گرد بیٹھے داستان گو یہ کہانیاں سناتے ہوں گے۔ وہ دور پیشِ نظر رکھیے۔ ظالم و جابر حکمران اور عمال سے تنگ لوگ ان علامات اور انہی رمز و کنایہ سے اپنے دل کی بات کہہ سکتے ہوں گے۔ وہ حکمران‘ کوتوال اور عمال ختم ہوگئے۔ قبریں کیا‘ نام و نشان بھی ناپید ہوگئے لیکن پرندوں اور جانوروں کی زبانی کہا ہوا سچ آج بھی زندہ ہے۔ کتاب کا ایک اقتباس شاید ہر دور میں حسب حال رہے گا۔ پنج تنتر کے زمانے کے ایک گمنام شاعر نے کہا تھا کہ اگر جانور اور پرندے نہ ہوتے تو ہم سچ کس کے منہ سے کہلواتے۔
میںکتاب کے جلائے الاؤ کے حلقے سے ابھی اٹھ کر آیا ہوں۔ سوچ رہا ہوں کہ سچ کہنا ہر دور میں اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔ ہم جو اشرف المخلوقات ہیں‘ آج بھی اسی فکر میں ہیں کہ سچ کس کے منہ سے کہلوائیں۔ ان سیاہ طویل راتوں میںاپنا کرب کس کو بتائیں:
ہمارے کرب کبھی رفتگاں سے پوچھئے گا
ہزار شب ہے مگر ایک بھی کہانی نہیں