کیسا عجیب آدمی ہے ۔غیر مرئی کو مرئی بنا دیتا ہے ۔مرئی کو غیر مرئی۔درختوں پتوں اور پھولوں سے کلام کرتا ہے۔دن ‘رات صبح اور شام اس کے گھرانے کے افراد میں شامل ہیں۔ہوائیں‘ بارشیں‘ سردیاں اور گرمیاں اس کے مخاطبین میں ہیں۔وہ جمادات اورنباتات سے گفتگو کرتا ہے۔ان کی خوشی میں خوش ہوتا ہے اور ان کے دکھوں پر غمگین۔دن اس کی انگلی پکڑ کر نکلتا اور جوان ہوتا جاتا ہے۔رات اس کے پہلو میں آکر لیٹ جاتی اور اس سے ہم آ غوش ہوجاتی ہے۔وہ اشیا کی ارواح کی بات سمجھتا ہے اور ان سے مکالمہ کرتا ہے۔اصل گفتگو تو اس کی انہی سے ہے ۔ہم سے تو وہ کبھی کبھی بات کرتا ہے اور بات بھی صرف شعر کی زبان میں۔یہ اختیار صرف شاعر کا ہے اور شاعر ہونا کتنوں کو میسر ہے۔کوئی شاعر بھی ہوجائے تو نذیر قیصر ہونا کتنوں کو میسر ہے؟کتنے شاعر اس طرح کے شعر کہہ سکتے ہیں۔
خاموشی طویل ہوگئی تھی /پھر کی نہیں کوئی بات اس نے
شعلے پہ رکے ہیں ہونٹ میرے /آنکھوں پہ رکھے ہیں ہاتھ اس نے
میں ایک تھکا ہوا مسافر /بستر پہ بچھا دی رات اس نے
وہ مرے دھیان میں گم بیٹھی ہے
بال کھولے ہیں ہوا نے اس کے
صبح تک مجھ میں بکھر جائیں گے
ٹوٹ کر آئنہ خانے اس کے
شعلے جیسا ذائقہ /پانی جیسی شاعری
تیرا پہلا عشق ہے /میری پہلی شاعری
جناب نذیر قیصر سے اس بار کافی مدت بعد ملاقات ہوئی اور انہوں نے اپنی غزلوں کے تراجم کی کتاب بھی عنایت کی ۔ کتاب پر نذیر قیصر کی تصویر دیکھی تو وقت نے ایک الٹی زقند بھری اور میرا ہاتھ تھام کر لے اڑا۔یہ تیز رفتار گھوڑا بیس سال کا فاصلہ ایک لمحے میں طے کرکے لاہور ٹی وی سٹیشن کے ایک سٹوڈیو میں جا اترا۔ایک ادبی محفل کی ریکارڈنگ ہورہی ہے۔جناب ظفر اقبال کے ڈرائنگ روم کا منظر سجا ہوا ہے۔ ان کے احباب جن میں لاہور کے نامور شعرا ہیں‘ ان سے ملنے ان کے گھر آئے ہوئے ہیں۔ایک نووارد سعود عثمانی کے نام سے بھی موجود ہے۔شعر کی دنیا کا ایک معتبر سینئر نام نذیر قیصر ہے۔نووارد شاعر سعود عثمانی حیرت سے دیکھتا ہے کہ نذیر قیصر اپنی شاعری پر بہت کم لیکن سعود عثمانی کی شاعری پر زیادہ بات کرتا ہے۔ دل میں ان کی شاعری کی قدر تو ہمیشہ سے تھی ان کے ظرف کا سکہ بھی دل پر بیٹھ گیا۔ان کی ان قدر افزائیوں کا ایک تسلسل ہے جو اب تک جاری ہے۔یہ ان کی شخصیت کا وصف اور اپنے کام پر ان کا اعتماد ہے جو کسی نئے آنے والے سے انہیں خوف زدہ نہیں ہونے دیتا ورنہ ان کے ہم عمر شعرا میں اپنے بعد کے شعرا کے لیے رویہ بالعموم حساب کتاب ‘سیاست اور منافقت سے عبارت ہے۔کسی جہت سے بھی دیکھ لیں نذیر قیصر کا شعری سفر کمال تخلیق کاری اور نقش گری کا سفر ہے۔ایسا سفر جو قابلِ دید بھی ہے ‘قابلِ داد بھی۔
عجب سفر تھا مرے اس کے درمیاں قیصر/غبار اڑتا رہا اور ستارہ چلتا رہا
ان کے نادر انداز کے چند شعر اور سنیے
گرتے جاتے ہیں پھول بستر پر /کھلتا جاتا ہے تھان ہاتھوں میں
اس نے ہاتھوں پہ ہونٹ کیا رکھے/آگئی ساری جان ہاتھوں میں
وہی رستہ وہی ہوا قیصر /اور وہی شمعدان ہاتھوں میں
پہلے میں دیکھ رہا تھا اس کو /اب مجھے دیکھ رہا ہے کوئی
زرد بانہوں میں جھکی شام ِ وصال/شاخ میں پھول کھلا ہے کوئی
ہاتھ میں مشعل دیدار لیے /تیز بارش میں کھڑا ہے کوئی
وہ جو ملاپ کی لطیف اور باریک جمالیات ہوتی ہیں نذیر قیصر کے یہاں ایسے ایسے فنی رچاؤ کے ساتھ آتی ہیں کہ بس پڑھتے رہیے اور پرت در پرت محسوس کرتے رہیے۔وصال کا لفظ ان کے یہاں کم کم لیکن اس کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر کیفیات ان کے یہاں ایسے بیان ہوتی ہیں جیسے پنکھڑی پنکھڑی اور تہہ در تہہ پھول کھلتا ہے۔ایسا وصال جس میں جسم ہی نہیں ورائے جسم کائناتیں بھی جسمانی طور پر ہم آغوش ہوتی ہیں۔
دیکھتے رہنا تھا پھولوں بھری شاخوں نے مجھے
اور میں نے تجھے ہونٹوں پہ جھکا لینا تھا
وہ آیا تو اتنا پیار دے گا /دن بھر کی تھکن اتار دے گا
ہونٹوں کو چومتا رہا شعلہ کسی خیال کا
آنکھوں میں جاگتے رہے سائے شب ِ خمار کے
دونوں مہک سے بوجھل تھے /پھول کھلایا دونوں نے
کمرے میں وہ دونوں تھے /شور مچایا دونوں نے
لکھ کر سادہ کاغذ پر /نام بتایا دونوں نے
پھول کھلے خاموشی میں /ہاتھ ملایا دونوں نے
اپنی خوب صورت نثر میں نذیر قیصر نے معاصر شاعری کے بارے میں بہت بنیادی بات کی ہے'' کیا وجہ ہے کہ گفتگو کرتے ہوئے ہم اپنے مقاصد و معنی کو نہایت آسانی سے روزمرہ زبان میں ادا کرتے چلے جاتے ہیں لیکن جیسے ہی شعر کہنے لگتے ہیں ہم ایک بنی بنائی زبان اور اس کی گھڑی گھڑائی ترکیبوں اور ایک خاص شعری فضا کو اپنے اوپر طاری کرلیتے ہیں ‘ ‘ ۔یہ اس شاعر کی رائے ہے جو محض اپنی رائے دے کر بنی بنائی شاعری نہیں کرتا رہا بلکہ اس نے عملی طور پر نئے زمین آسمان تخلیق کیے۔ایسی فضا بنائی جو اس کے ہم عصروں کے پاس یا تو نہیں تھی یا اس کے محض چند اجزا تھے ۔ہتھیلی پر چند پھول ہونا اور بات ہے پھولوں بھری ٹوکری ہر ہاتھ میں کہاں جھولتی ہے۔
کتنے دنوں کے بعد شجر نے چھتری کھولی
کتنے دن میں دن بارش کا واپس آیا
ہاتھ میں دیا لیے وہ چھت پر واپس آئی
اس کے ساتھ ہوا کا جھونکا واپس آیا
تو دھرتی کی پہلی رات/میں دھرتی کا پہلا دن
تیرے بدن میں جاگی رات/میرے بدن میں ڈوبا دن
جمالیاتی شعور اس شاعری میں اتنا غیر معمولی اور منفرد ہے خاص طور پر خود کلام دل کی لرزشیں اور تھرتھراہٹیں تک صاف سنائی دیتی ہیں۔
اس دن کتنے پھول کھلے /اس دن کتنی جھڑی رہی
دیا طاق میں پڑا رہا /ماچس جیب میں پڑی رہی
آسمان کے سارے رنگ انڈیل دیے
دھرتی پر بارش برسانے والے نے
خالی چھوڑ دیا ہے دل کی تختی کو /دیواروں پر نقش بنانے والے نے دیکھا نہیں دہلیز پہ رکھے پھولوں کو /دروازے سے اندر آنے والے نے کوئی درخت بنایا نہیں کنارے پر /دریا کی تصویر بنانے والے نے
نذیر قیصر کے فن و شخصیت کو مختصراً بیان کرنا ہو تو انہی کا شعر مستعار لینا پڑے گا۔انہوں نے کسی کی بھی بات کی ہو دراصل اپنی بات کی ہے
دنیا اچھی لگتی ہے رب اچھا لگتا ہے
اچھی آنکھوں والوں کو سب اچھا لگتا ہے
جھلاہٹوں تلخیوں اور نفرتوں سے لبالب بھری ہماری شعری برادری میں کتنے شاعر ہوں گے جنہیں دنیا اچھی لگتی ہے۔کتنے ہوں گے جنہیں رب اچھا لگتا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ ان لوگوں کو نذیر قیصر جیسی اچھی آنکھیں کہیں سے مل جائیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ پھر بھی کیا فائدہ۔یہ قلم تو رب کسی کسی کو دیتا ہے ۔نذیر قیصر جیسا قلم انہیں کیسے ملے گا۔