استنبول سے نیو جرسی تک کی طویل فلائٹ‘ مسلسل سونے کی کوشش کرکے مسلسل جاگتے‘ باتیں کرتے‘ کھاتے پیتے گزر ہی گئی۔ اب پندرہ یا بیس منٹ کے نیند کے جھونکے کو سونا کہنا تو زیادتی ہی ہوگی۔ اس لیے استنبول سے نیو جرسی تک کی اس گیارہ گھنٹے کی فلائٹ‘ اس سے پہلے لاہور تا استنبول چھ گھنٹے کی پرواز اور استنبول ایئر پورٹ پر تیرہ گھنٹے کے انتظار نے توڑ کر رکھ دیا۔ لیکن ٹوٹنے سے کسی کا بھلا کیا نقصان ہے سوائے اپنے۔ اس لیے جہاز نے جب نیو جرسی کے نیوآرک ایئر پورٹ پر اترنے کی تیاری کی تو میں نے بھی اپنی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنی شروع کردی۔ گردن‘ بازو‘ دھڑ اور ٹانگیں جو ایک دوسرے سے غیر متعلق ہوئے پڑے تھے‘ انہیں بتایا کہ تم ایک ہی ریاست کے حصے ہو۔ کچھ اعضا کے تامل اور کچھ کی بغاوت کے باوجود ان کی فیڈریشن قائم کی اور نیوآرک ایئر پورٹ پر زمین چھونے سے پہلے اس کوشش میں کامیاب ہوگیا۔
ایک تو نیو آرک اور نیویارک کے ملتے جلتے ناموں نے بڑے گھپلے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ امریکیوں کی تلفظ اور لفظ کھا جانے کی عادت اس پر مستزاد۔ بکنگ یا سمجھنے میں ذرا سی چوک ہو تو آپ میلوں فاصلے پر غلط جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ نیوآرک ایئر پورٹ ریاست نیو جرسی کا بڑا بین الاقوامی ایئر پورٹ ہے۔ یہ تو آپ کو علم ہوگا کہ ریاست نیو یارک اور ریاست نیو جرسی آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ میں پہلی بار نیو جرسی آیا تھا۔ اس لیے یہ تمام شہر اور بستیاں میرے لیے نئے تھے۔امیگریشن سے گزر کر جلد ہی سامان حاصل کرنے کے لیے بیگیج کیرو سیل یا بیلٹ نمبر ایک پر پہنچ گئے۔ ڈیجیٹل بورڈ کے مطابق ہمارا سامان یہیں آنا تھا۔ کافی انتظار کے بعد ایک سوٹ کیس آتا دکھائی دیا لیکن پھر اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور۔ اس دوران استقبال کرنے والے میزبانوں کے پیغامات آنے شروع ہوگئے کہ آپ کہاں پہنچے ہیں؟ انہیں بتایا کہ میں تو پہنچ گیا لیکن سامان کے لیے ہنوز انتظارِ ساغر کھینچ رہا ہوں۔ یہ بات چیت جاری تھی کہ بیلٹ نمبر ایک پر موجود ہم سفر بیلٹ نمبر دو کی طرف بھاگتے دکھائی دیے۔ معلوم ہوا کہ بیلٹ دو پر بھی سامان آرہا ہے۔ اب یہ تماشا زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ ایک نمبر اور دو نمبر بیگیج کیروسیلز (بیلٹ) پر بیک وقت ایک ہی فلائٹ کا سامان آرہا تھا۔ یہ دونوں آمنے سامنے تھیں لیکن بیک وقت دونوں پر نظر رکھنا خاصا مشکل کام تھا۔ بیک وقت دو بیگیج کیروسیلز پر سامان بھیجنا خاصی احمقانہ بات تھی اور یہ سرخاب کا پر ٹرکش ایئر لائنز کی ٹوپی میں لگا ہوا تھا۔ بالآخر بیگیج کیروسیل نمبر دو پر دوسرا سوٹ کیس بھی نظر آیا۔ بڑی بات یہ تھی کہ ایئر پورٹ پر مفت ٹرالی بھی میسر تھی اور مفت وائی فائی بھی۔ ورنہ اکثر ایئر پورٹس یہ مفت عیاشی کہاں کرنے دیتے ہیں۔
باہر نکلا تو نیو جرسی میں ہماری میزبان شاعرہ فرح کامران اپنے بھتیجے کے ہمراہ میرے خیر مقدم کے لیے موجود تھیں۔سابقہ برسوں میں فرح اپنے شوہر کامران‘ جو بہت عمدہ غزل گو تھے‘ کی جدائی کے سخت صدمے سے گزری ہیں۔ اور ان کی یاد کو اپنے ادبی سفر کے ذریعے بھی تازہ کرتی رہتی ہیں۔رات کے لگ بھگ بارہ بج رہے تھے جب اس ہوٹل میں پہنچے جہاں میرا بندوبست کیا گیا تھا۔ اگلے دن دوپہر بارہ بجے کے قریب ہمیں اٹلانٹک سٹی کے لیے روانہ ہونا تھا جو ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ریاست نیو جرسی ہی میں بحر اوقیانوس کے کنارے ایک جدید شہر ہے۔ رات وہیں مشاعرہ تھا جو ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشنز آف نارتھ امریکہ (APPNA)کی سہ روزہ سالانہ تقریبات کا ایک حصہ تھا۔ میں بستر پر لیٹا تو جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ اور بس وہ حال تھا کہ
کچھ ایسی تھکن کی نیند آئی
خوابوں کا خیال تک نہ آیا
رونا اور سونا انسان کے لیے کیسی عجیب دوائیں ہیں۔ کبھی سوچا ہے صاحب کہ ٹوٹ کے رونے اور ٹوٹ کے سونے سے انسان کیسا ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس رات ایک لمبی‘ گہری اور پُرسکون نیند نے تازہ دم کردیا۔ صبح کی کرنوں نے بند پلکوں پر دستک دی اور میں نے اٹھ کر کھڑکی کا پردہ ہٹایا تو نیو جرسی کی صبح مجھے دیکھتے ہی کھلکھلا پڑی۔ دور تک کھلے نیلے آسمان اور شاداب ہریالی کا ایک منظر میرا منتظر تھا۔
نیوجرسی امریکہ کی شمال مشرقی ریاستوں میں بحر اوقیانوس کے کنارے اہم ریاست ہے۔ بحر اوقیانوس کو اس کا 130کلو میٹر لمبا ساحل لگتا ہے۔ مشرق اور جنوبی جانب ریاست نیویارک ہے۔ سترہویں صدی میں یورپی آباد کاروں کے آنے سے قبل یہاں مقامی لوگوں کا لینی لیا ناپے نامی قبیلہ غالب تھا۔ سب سے پہلے سویڈش اور ڈچ یعنی ولندیزی اس ریاست میں آباد ہوئے۔ بعد میں انگریزوں نے اس ریاست پر قبضہ کر لیا اور جزائر چینل میں جرسی کے نام پر اس کا نام صوبہ نیوجرسی رکھا۔ نیوجرسی لگ بھگ پچانوے لاکھ لوگوں کی رہائش گاہ ہے۔ امریکہ کی جنگ ِآزادی میں نیوجرسی نے انگلینڈ کے خلاف حصہ لیا اور متحدہ یونین میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تیسری ریاست بنی۔ اپنی جغرافیائی اہمیت اور مرکزی مقام ہونے کے سبب نیو جرسی میں تیزی سے آباد کاری ہوئی۔ اور اب کہا جاتا ہے کہ نیو جرسی امریکہ کی مالدار ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔
دوپہر بارہ بجے کے لگ بھگ فرح کامران ہم سب مہمانوں کو لینے آگئیں اور ہم ہوٹل سے چیک آؤٹ کرکے ایڈیسن کاؤنٹی میں ان کے گھر آگئے۔ میں نے ایڈیسن کا نام سنا تو ایک دم خیال ہوا کہ یہ اسی معروف ترین موجد تھامس ایڈیسن کے نام پر تو نہیں۔ یہ خیال درست تھا۔ 1876ء میں تھامس ایڈیسن نے اس جگہ اپنے گھر اور لیبارٹری کی بنیاد رکھی تھی جو آج کل ایڈیسن سٹیٹ پارک کہلاتا ہے اور جہاں اب اس کے نام سے میوزیم قائم ہے۔ کیا کمال موجد تھا۔ تصور کیجیے کہ 1931ء میں 83 سال کی عمر میں انتقال سے قبل ایڈیسن 1093 عدد پیٹنٹ شدہ ایجادات کر چکا تھا۔ جن میں بجلی کا بلب‘ گراموفون‘ متحرک فلم والا کیمرہ‘ ووٹنگ مشین‘ بیٹری سیل جیسی ایجادات شامل تھیں۔ ان ایجادات سے اسے خاصی آمدنی ہوئی اوراس رقم سے اس نے نیوجرسی میں ایک تجربہ گاہ اور ورکشاپ قائم کر لی۔1915ء میں ایڈیسن کو نوبیل انعام ملا تھا۔بنی نوع انسان کو جدید دنیا میں اپنی کامیابیوں کے لیے تھامس ایڈیسن جیسے موجد ہی کی ضرورت تھی اور اسی لیے تھامس ایڈیسن کو جدید دنیا کا سب سے بڑا موجد کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچنے سے پہلے مجھے اندازہ ہی نہ تھا کہ اتنے بڑے موجد کے گاؤں میں پھر رہے ہیں۔
اس دن ہم وقت کی کمی کی وجہ سے ایڈیسن کا میوزیم تو نہیں دیکھ سکے لیکن کتابوں میں پڑھے ہوئے اس کے کارنامے اور ایجادات ذہن میں گھومتی رہیں۔ اگر کسی نے اس طرف سے ذہن ہٹایا تو وہ فرح کامران کی بنائی ہوئی لذیذ نہاری اور سویاں تھیں۔ اور آپ اتفاق کریں گے کہ بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے نہاری اور سویوں کی ایجادات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔