سیلاب کے بعد کی تباہ کاریاں؟ کوئی ایسی ویسی تباہ کاریاں؟ بہت مدت پہلے میں نے شعر کہا تھا
دل سے تری یاد اُتر رہی ہے
سیلاب کے بعد کا سماں ہے
سیلاب پورے ملک میں قیامت بپا کیے ہوئے ہے۔ شمالی علاقہ جات ہوں یا ساحلی شہر۔ دشت ہوں یا زرخیز علاقے۔ پہاڑ ہوں یا میدان۔ ہر جگہ ایک ہی کہرام ہے۔ لوگ مر گئے‘ اجڑ گئے‘ برباد ہو گئے۔ پیاروں سے محروم ہوگئے۔ بے گھر ہوگئے۔ فٹ پاتھ پر آگئے۔ کے پی‘ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان۔ جدھر دیکھیے ہاہاکار مچی ہے اور دکھ بھری کہانیاں ہیں۔ اور ابھی مزید بارشوں کی پیش گوئی ہے۔
حسبِ معمول کئی طرح کے لوگ میدانِ عمل میں اُتر آئے ہیں۔ آسودہ گھروں میں بیٹھ کر تماشا دیکھنے والے اور محض زبانی افسوس کرنے والے۔ اپنی جان کی پروا کیے بغیر مصیبت زدوں تک پہنچنے والے۔ مالی مدد جمع کرنے اور بے گھروں تک پہنچانے والے۔ حکومت اور اہل کاروں کو برا بھلا کہنے والے۔ اپوزیشن جماعت کو کوسنے والے۔ دعائیں مانگنے والوں پر تبرا کرنے والے۔ خدا کا انکار کرنے والے۔ ہر آسمانی اور ناگہانی مصیبت کو مذہب کے سر مڑھ دینے والے۔ وہی تمام گروہ جو ہر ایسی ناگہانی پر دیکھے جاتے ہیں‘ اس وقت بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حسبِ سابق اور حسبِ معمول ہر ایک اپنی بولی بول رہا ہے اور کوئی کسی کی نہیں سن رہا۔ رہی بات حکومت اور پی ٹی آئی کی‘ انہیں اپنے جھگڑوں سے فرصت ہی کہاں کہ وہ ان نہایت معمولی‘ نہایت کم درجہ اور نہایت بے حیثیت معاملات کو دیکھیں اور ان پر توجہ دیں۔ اُن کا اصل مسئلہ تو طے شدہ ہے۔ یہ سیاست ہے اورکسے پتا نہیں کہ لوگ سیاست میں دل پہلے ہی الگ رکھ کر میدان میں اُترتے ہیں۔
سیلاب زدگان کی بہت سی وڈیوز اور تصویریں دیکھ رہا ہوں اور لرز رہا ہوں۔ خبریں پڑھ رہا ہوں اور دل پارہ پارہ ہوا جا رہا ہے۔ میں سیلاب زدہ علاقوں کے دوستوں کی باتیں سن رہا ہوں اور خود کو مجرم سمجھ رہا ہوں۔ بات صرف ایک جگہ کی نہیں‘ ہر جگہ کی ہے۔ کوہستان‘ جنوبی پنجاب‘ بلوچستان اور سندھ۔ لیکن جنوبی پنجاب میں اٹھنے والا کہرام حاوی ہوگیا ہے۔ جو قیامتیں ان لوگوں پر گزری ہیں اور ہنوز گزر رہی ہیں‘ وہ ان لوگوں کے تصور سے بھی نہیں گزریں جو اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی یہ گرم‘ خشک‘ ریتلی‘ نیم سبز‘ نیم دشت‘ نیم کہساری‘ نیم میدانی بستیاں جو پانی کا انتظار کیا کرتی تھیں‘ پانی نے انہیں اس طرح آگھیرا کہ بھاگنے کی جگہ اور وقت بھی میسر نہ آسکا۔ وہ رود کوہیاں یعنی پہاڑی ندیاں جو سالہا سال سے خشک پڑی تھیں اور جن کے بارے میں وسیب کے بڑے بوڑھے بتاتے تھے کہ کبھی وہ رواں بھی ہوتی تھیں مگر ان کی گڑگڑاہٹ سنے بھی ایک زمانہ ہوگیا تھا‘ اچانک فعال ہوگئیں۔ یہ رود کوہیاں خاموش آتش فشاں کی طرح سرد تھیں۔ لیکن پھر اگست 2022ء میں ایک دم بیدار ہوئیں اور پانی‘ گارے‘ پتھروں‘ چٹانوں‘ درختوں‘ ٹہنیوں کو ہمراہ لیے بپھرتی اُمنڈتی ہوئی بستیوں کے سر پر آن پہنچیں۔ بلندی سے اترتی رود کوہی کتنی مہلک اور کتنی جان لیوا ہو سکتی ہے‘ اس کا اندازہ کسی کو نہ تھا‘ بڑے بوڑھوں کو بھی نہیں۔ گھروں میں آرام کرتے‘ کھانا کھاتے‘ راتوں کو سوتے اور کام کاج کرتے مرد و زن کو وہ تند گڑگڑاہٹ سنائی دی جو ان کے بزرگوں نے بھی نہیں سنی تھی۔ جو بروقت گھروں سے نکل آئے بمشکل جانیں بچا سکے۔ باقی کا وقت پورا ہو چکا تھا۔
کتنی جانوں اور کتنے مال کی قیمت عام آدمی نے ادا کی؟ گھروں‘ سامان‘ فصلوں کا کتنا نقصان ہوا؟ اور جو فصلیں تباہ ہوگئیں‘ ان کی وجہ سے آئندہ مہینوں میں خوراک کی کتنی کمی ہوگی؟ ایک نظر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار پر ڈال لیجیے۔ جون کے وسط سے اب تک 903 افراد سیلاب کی نذر ہوگئے۔ ہزاروں زخمی ہوئے‘ 1 لاکھ 76 ہزار سے زائد مکانات برباد ہوگئے۔ لاکھوں مویشی غرقِ آب ہوئے۔ 2800 کلومیٹر سڑکیں اور 130 پل پانی نے تباہ کردیے۔ 100 سے زائد اضلاع سیلاب کی زد میں آئے جن میں زیادہ تر بلوچستان میں ہیں۔ بلوچستان ہی میں سات لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین پر فصلیں تباہ ہوئیں۔ صرف بلوچستان میں نقصان کا اندازہ 10ملین ڈالر لگایا جارہا ہے۔
لیکن یہ توصرف ایک جھلک ہے۔ مقامی لوگ اعداد و شمار زیادہ بتا رہے ہیں ۔ ہر 24گھنٹے بعد صورت حال اور گمبھیر ہورہی ہے۔ جانی اور مالی نقصان کے اعداد و شمار ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو یہ ہولناک تصویریں اور وڈیوز کبھی منظر عام پر نہ آ سکتیں۔ وہ لاشیں جو مٹی اور کیچڑ میں چھپ گئیں‘ یہ مناظر بھی انہی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جاتے۔ میں بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کے کئی دوستوں سے تفصیل پوچھتا رہا۔ جنوبی پنجاب کے حوالے سے دو تخلیق کاروں کا ذکر ضروری ہے جو سیلاب زدہ علاقوں سے براہ راست متعلق ہیں۔ میرے عزیز دوست شاہد ماکلی‘ جو نہایت عمدہ شاعر‘ مصنف اور نقاد ہیں‘ تونسہ سے 20کلومیٹر پہلے کی ایک بستی موکل کلاں کے رہنے والے ہیں۔ کوہ سلیمان ان کی بستی سے لگ بھگ 40کلو میٹر دور ہے۔ کوہ سلیمان سے اترنے والی رود کوہیاں راستے کی ہر بستی کو ملیامیٹ کرتے ہوئے آئی ہیں۔ احمدانی نامی بستی پر سب سے پہلے بے خبری میں قیامت ٹوٹی۔ موکل کلاں بھی نصف سے زیادہ ڈوبا ہوا ہے۔ نامور قیصرانی قبیلے کے ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایمان قیصرانی‘ جو خود عمدہ شاعرہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد ہیں‘ ان دنوں دکھ سے چھلک رہی ہیں۔ ان کی ننھیالی زمینیں کوٹ قیصرانی میں ہیں جو کوہ سلیمان سے کم و بیش 20کلو میٹر دور ہے۔ یہ سب علاقہ ملیامیٹ ہو چکا۔ کیچڑ سے لاشیں نکال لی گئیں لیکن انہیں دفنایا کہاں جائے؟ ہر طرف تو پانی ہے۔ کہیں خشک زمین کا ٹکڑا ملے تو تدفین بھی ہو۔ قبرستان پانچ چھ فٹ مٹی میں دفن ہو چکے اور قبروں کے نام و نشان تک مٹ چکے۔ گھر بھی گئے اور اجداد کی قبریں بھی۔ کوئی نقصان سا نقصان ہے۔ وہ گھرانہ کیا کرے جس کے ہاں اسی آشوب میں بچی نے جنم لیا۔ طبی وجوہات کی بنا پر اسی کشمکش میں بچی دم توڑ گئی۔ اب ماں سمیت پورے کنبے کو کیسے صبر آئے۔ اور اس پھول کی لاش کہاں دفنائی جائے؟
ان کے علاوہ دیگر احباب سے بات ہوئی۔ ہر ایک کی زبان پر شکوے ہیں۔ سرکاری خزانے کی اور وسائل کی کمی ایک طرف اور حکومت کی بے حسی‘ عدم توجہی دوسری طرف۔ یہی بے حسی زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہے۔ عام آدمی میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو ہم سے ووٹ لینے آتے تھے۔ اور اب اسمبلیوں میں ہیں۔ ان کے چہرے کیوں نظر نہیں آتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ علاقہ عثمان بزدار کا ہے۔ کوئی کہیں نظر آرہا ہے؟ کچھ یہ کہ عوامی غم و غصہ ایسا ہے کہ عوامی نمائندے بھی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حنیف پتافی اور زرتاج گل کے نمائندے کہیں کہیں نظر آئے لیکن یہ تباہی کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں۔ اس آشوب میں تباہ شدہ بستیوں کے ساتھ کوئی نہیں کھڑا ہوا۔ اور اگر کوئی کھڑا ہے تو وہ خود تباہ حال عوام ہیں‘ جو اپنی مدد آپ کے تحت جنگ لڑ رہے ہیں۔ (جاری)