سپریم کورٹ سے بڑی کوئی دنیاوی عدالت ہوتی تو پی ڈی ایم اور اُس کے حواری شاید انتخابات رکوانے کے لیے وہاں چلے جاتے۔ سپریم کورٹ نے کل جب یہ حکم سنایا کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کے انتخابات بہرحال نوے دن میں کرائے جائیں تو یہ اُن نہایت '' بُری‘‘ خبروں میں سے تازہ ترین تھی جو پی ڈی ایم اور اس کے طرفداروں کو آج کل روزانہ کی بنیاد پر سننا پڑ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کا از خود نوٹس لینا ہی ان کے لیے فیصلے کے مترادف تھا؛ چنانچہ انہوں نے بینچ پر اعتراضات وغیرہ کے ذریعے سر توڑ کوشش کی کہ یہ فیصلہ نہ آئے۔ نو کا بینچ پانچ کا رہ گیا لیکن فیصلہ بہرحال پی ڈی ایم کی خواہش کے مطابق نہ آیا۔ گویا ع
بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے
یہ بات تو سورج کی روشنی کی طرح واضح ہے کہ پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں انتخابات میں جانا نہیں چاہتی۔ اس کے لیے وہ عجیب عجیب بہانے تراش رہی ہے۔ ادھر مریم نواز صاحبہ کی بھی سن لیں‘ فرماتی ہیں کہ انتخابات اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہ ہو جائیں۔ پاناما کیس اور دیگر مقدمات میں میاں نواز شریف کو بے گناہ قرار دیا جائے۔ عمران خان کو کٹہرے میں لایا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس بیان کا لہجہ حاکمانہ ہے یعنی یہ درخواست نہیں‘ ان کی خواہش بھی نہیں بلکہ حکم ہے‘ جس پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے۔ روئے سخن کس کی طرف ہے؟ حکومت کی طرف؟ لیکن حکومت تو ان کی اپنی ہے اور وہ اب تک ترازو کے پلڑے برابر کرنے میں ناکام ہے تو مزید کیا پہاڑ ڈھائے گی؟ مقتدرہ کی طرف؟ لیکن وہ تو نیوٹرل ہے۔ نظام انصاف کی طرف؟ جی ہاں۔ یہ حکم نظام انصاف کے لیے ہی ہے۔ مریم صاحبہ اپنے آپ کو اس منصب پر فائز سمجھتی ہیں کہ وہ یہ حکم دے سکتی ہیں۔
ذرا عدالت عظمیٰ کے کل کے فیصلے کو ایک نظر دیکھ لیں۔ ایک تو پنجاب اسمبلی انتخابات کے معاملے میں صدر کے تاریخ متعین کرنے کے قدم کو درست قرار دیا گیا ہے جبکہ کے پی اسمبلی کا معاملہ قانونی طور پر مختلف ہونے کی بنا پر صدر کے تاریخ متعین کرنے کے قدم کو درست قرار نہیں دیا گیا۔ بایں ہمہ الیکشن کمیشن اور حکومتی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ نوے دن کے اندر الیکشن لازماً کرائے جائیں تاکہ آئینی تقاضے پورے ہو سکیں۔ اس فیصلے پر قانون دان بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں؛ تاہم اب یہ فیصلہ آجانے کے بعد اس سے رو گردانی‘ حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے ناممکن ہو جائے گی۔ اس طرح جو معاملہ بنیادی طور پر غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے نسبتاً کم اہم قدم سے شروع ہوا تھا‘ اب وہ بڑے طوق کی صورت میں پی ڈی ایم کے گلے پڑا ہوا ہے۔
ذرا ڈوگر صاحب والے معاملے سے شروع ہونے والے اس تحرک کو ایک نظر دیکھ لیں۔ پنجاب کی نگران حکومت نے لاہور کے سی سی پی او جناب غلام محمود ڈوگر صاحب کا تبادلہ کر دیا۔ ڈوگر صاحب سابقہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی صاحب کے متعین کردہ تھے۔ نگران حکومت نے دیگر تبادلے بھی کیے جن سے کسی بھی نگران حکومت کو پرہیز کرنا چاہیے‘ کیوں کہ وہ عبوری طور پر انتخابات کرانے کے لیے آتی ہے اور اس کا ہدف وہی رہنا چاہیے۔ تبادلوں سے اپنی مرضی کے لوگ لگوانے کا صاف تاثر ملتا ہے لیکن یہاں یہی ہوتا ہے‘ خواہ پی ٹی آئی ہو یا پی ڈی ایم۔ یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں کپڑے کسی نے بھی نہیں پہن رکھے۔
خیر‘ ڈوگر صاحب اپنے تبادلے کے حکم کے خلاف عدالت میں چلے گئے۔ معاملہ سپریم کورٹ کے اس بینچ تک گیا جس کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کر رہے تھے۔ دو رکنی بینچ میں ساتھی رکن جسٹس مظاہر نقوی تھے۔ ڈوگر صاحب کے وکلا نے معززعدالت کے سامنے یہ سوال اٹھادیا کہ نگران حکومت الیکشن کا کوئی قدم نہیں اٹھا رہی اور اب تک کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ دو رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کو طلب کیا تو الیکشن کمیشن کے بیانات سے صورتحال کا بہتر اندازہ ہو گیا۔ ان جج صاحبان نے‘ جو عدالتِ عظمیٰ کے اپنے طے کردہ طریقے کے مطابق از خود نوٹس نہیں لے سکتے تھے‘ چیف جسٹس صاحب کو خط لکھا اور رائے ظاہر کی کہ یہ آئینی حقوق سے رو گردانی کا معاملہ لگتا ہے‘ اس لیے آپ از خود نوٹس لے کر لارجر بینچ بنائیں؛ چنانچہ اس خط کی روشنی میں چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا اور ایک لارجر بینچ تشکیل دے دیا جس میں نو منصفین شامل تھے۔ از خود نوٹس کے ساتھ ہی پی ڈی ایم اور اس کے حامیوں کو اندازہ ہونے لگا کہ یہ معاملہ ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے۔ اسی دوران ایک ایسی آڈیو لیک ہوئی جس پر پی ڈی ایم نے شور مچایا۔ اس آڈیو لیک کی ٹائمنگ بھی اس معاملے کا پتا دیتی ہے۔ نو رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ وہ دو جج صاحبان بھی شامل تھے جنہوں نے خط لکھا تھا۔ دیگر ججوں میں جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس منیب اختر‘ جسٹس یحییٰ آفریدی‘ جسٹس محمد علی مظہر‘ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔ پی ڈی ایم کے وکلا کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے اور ان میں کچھ بارکونسلوں کے اعتراضات بھی شامل ہوتے گئے۔ پی ڈی ایم کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ عزت مآب جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو اس بینچ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے جبکہ دو سینئر ججوں جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس طارق مسعود کو اس کا حصہ بننا چاہیے۔ سماعت شروع ہوئی اور پی ڈی ایم کے یہ اعتراضات بھی جاری رہے۔ بالآخر چار جج یعنی جسٹس اعجاز الاحسن‘ جسٹس مظاہر نقوی‘ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ اس بینچ سے الگ ہو گئے اور بینچ پانچ ججز پر مشتمل رہ گیا۔ اسی بینچ نے تین اور دو کی تقسیم کے ساتھ اکثریت کی بنا پر وہ فیصلہ سنایا جس کا اس وقت بہت چرچا ہے۔ جن معزز جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھے‘ ان کے اپنے دلائل ہیں اور ان پر قانون دان ہی بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں؛ تاہم یہ فیصلہ اس مؤقف کی جیت ہے جس پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے حامی شد و مد سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس تمام سیاسی خلفشار میں یہی افراتفری ختم کرنے کا ایک بہتر راستہ نظر آتا ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ اگر اس فیصلے سے کسی ایک جماعت کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے تو مخالفین کے نزدیک یہ جانبداری ہے۔
پی ڈی ایم کی بڑی جماعتیں فی الوقت اس کیفیت میں ہیں جہاں نہ اگلے بن پڑتی ہے اور نہ نگلے۔ انتخابات انہیں اپنی سیاسی موت نظر آ رہے ہیں۔ حال ہی میں راجن پور کے ضمنی انتخابات نے ان تجزیوں پر مہر ثبت کردی ہے جو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب میں پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی‘ افراطِ زر‘ زرِ مبادلہ کی شدید کمی نے انہیں انتخابی حلقوں میں جانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ یہ خطرہ بھی سر پر ہے کہ اس لہر کے زیر اثر بہت سے الیکٹ ایبلز ان جماعتوں کو چھوڑ دیں۔ اور ادھر مسلم لیگ (ن) کی رہنما ہیں جو مسلسل کہے جاتی ہیں کہ اب سبھی فرائنگ پین سے اپنے کپڑے استری کیا کریں۔ محترمہ! یہ سلوٹیں تو بھاری بھرکم استری والا دھوبی بھی نہیں نکال سکتا کہ یہ شکنیں لباس پر نہیں کردار پر ہیں۔