"SUC" (space) message & send to 7575

کمیاب، کامیاب: عزم بہزاد

عزم بہزاد اور ان کی شاعری پر لکھنا ایک خوشی بھی ہے اور ایک مشکل مرحلہ بھی۔ ان کی اس کتاب ''تعبیر کے بعد‘‘ میں میری شمولیت، عزم بہزاد کے فرزند مطلوب بہزاد کے اصرار پر ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ میرا حق بھی تھا لیکن فی زمانہ حق دینے والے ہیں بھی کتنے؟
میرے خیال میں شاعری پر بات کرنے میں بیک وقت سب سے زیادہ آسان اور سب سے زیادہ مشکل معاصر شاعری پر بات کرنا ہے۔ اس میں بھی سینئر اور جونئیر شعراء پر بات نسبتاً آسان ہے لیکن جب بات ہم عصر شعراء کی ہو جو ہم عمر بھی ہوں تو وہاں رنگا رنگ ڈوریں اور گتھیاں اس طرح الجھنے لگتی ہیں کہ اس گچھے کو سلجھا کر پیش کرنا بہت کٹھن کام بن جاتا ہے۔ معاصر شاعری‘ خاص طور پر ہم عمروں کی شاعری پر بات کرتے ہوئے انسان کے اندر شخصی پسند، ناپسند، دوستی یاری، واقعات، تعصبات، مسابقت، حسد، رنجش کے اکھوے سر نکالنے لگتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ ایسی تحریروں میں انہیں یکسر اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں رہتا لیکن میں عزم بہزاد کے اور اپنے معاملات دیکھتا ہوں تو ہم عمری‘ اور ہم عصری کے باوجود وہ حیران کن طور پر ان سے باہر رہے ہیں۔ میں ان کی شخصیت اور شاعری‘ دونوں کا پہلی ملاقات اور پہلے دن سے معترف رہا ہوں اور ان سے بھی بھرپور داد سمیٹتا رہا ہوں۔ یہ تعلق‘ جو کم و بیش بیس سال پر محیط رہا‘ کتابوں کے تبادلے، ہاتھ کی خط و کتابت، مشاعروں، محفلوں اور ان باکس پیغامات پرمشتمل ہے۔ بس ایک فلم سی ہے جو چلنے لگتی ہے۔ لیکن اس خوب صورت فلم کا فیتہ یک لخت 3 مارچ 2011ء کے بعد سادہ رہ جاتا ہے۔ 4 مارچ 2011ء کو عزم بہزاد کراچی میں انتقال کر گئے۔ اس سے چند گھنٹے پہلے‘ رات 1:40 پر ان کا یہ آخری ان باکس خط مجھے موصول ہوا تھا:
''بھائی بہت شرمندہ ہوں کہ آپ سے چاہتے ہوئے بھی نہ مل پایا۔ یہی حال عارف امام کے معاملے میں ہوا، وہ موصوف بھی کراچی میں تھے اور میں تمام تر کوشش کے باوجود رسائی نہ حاصل کر سکا۔ اُس دن جب آپ کا فون آیا تو میں ایدھی سرد خانے میں تھا، میرے ایک آفس کے دوست کے والد ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں چل بسے تھے۔ مجھے اُن کی میّت وہاں سے وصول کرنی تھی کہ اُن کے گھر والوں میں کوئی بھی شدّتِ غم کے باعث اس قابل نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ یہاں سے نکل کر آپ سے رابطہ کروں گا لیکن ایمبولینس میں بیٹھ کر بھول گیا اور جب مرحوم کو لے کر اُن کے گھر پہنچا تو وہ قیامتِ صغریٰ کا منظر دیکھنے کو ملا کہ پھر سب کچھ بھول گیا۔ وہاں سے میری واپسی رات بارہ بجے کے قریب ہوئی اور اوسان ایسے تھے کہ کسی طرف دھیان دینے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں‘ درگزر کر دیجئے گا۔ رہا شام کا سوال تو فی الحال رہنے دیجئے، میں حصولِ روزگار کے محاذ سے نمٹ لوں تو ان شاء اللہ اطمینان سے اس محفل کا حصہ بن جائوں گا۔ اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے‘‘۔
دراصل میں اس سے ایک دو دن پہلے ہی کراچی گیا تھا اور عزم بہزاد سے ملاقات کے لیے ان سے رابطہ بھی کیا تھا لیکن وہ جس صدمے کی کیفیت میں تھے‘ وہ خط میں بتائی گئی ہے۔ اس خط میں جس شام کا ذکر ہے وہ میری ادبی تنظیم ''حرف کار‘‘ میں ان کے ساتھ فیس بک پر ایک شام منانے کے لیے درخواست تھی۔ ہماری اس تنظیم میں کئی منتظم تھے جن میں سے ایک عزم بہزاد بھی تھے اور یہ تعلق ان کے انتقال تک مسلسل رہا۔ لیکن یہ تعلق تو ان سے محبت کی ایک بہت چھوٹی سی کڑی ہے۔ 1994ء کے لگ بھگ ان سے کراچی میں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔وہ مجھ سے 25 دن چھوٹے یعنی میرے ہم عمر تھے۔ جب معروف ٹی وی میزبان برادرم انیق احمد کے ذریعے ان سے اور ان کے قریبی حلقے سے متعارف ہوا تو یہ کراچی میں کسی ادبی حلقے سے میرا پہلا ربط تھا۔ پھر متواتر بہت سی یادگار محفلیں اور نشستیں رہیں جن میں ان کے گھر کے سامنے چبوترے پر یادگار مشاعرے بھی شامل تھے۔ یہ ان کا کرم تھا کہ ان کے ذریعے جناب نگار صہبائی، خواجہ رضی حیدر، لیاقت علی عاصم مرحوم، عرفان ستار، سعید آغا، اجمل سراج، معراج محمد خان مرحوم اور دیگر کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوتا رہا۔
میں نے جب بھی عزم بہزاد کی شاعری پڑھی یا سنی‘ مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ انہوں نے اس روایت کی پاسداری تو ہمیشہ کی جو روایتی شعری گھرانوں کا حصہ ہوا کرتی ہے، لیکن اس کی فرسودہ جکڑ بندی سے نکل کر۔ اسی طرح انہوں نے تازہ تر لہجہ تو اختیار کیا لیکن بے معنی اور مہمل جدیدیت سے بچ کر۔ وہ یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے، کئی رویوں کی خاک چھانی
یہ راستہ ان کا اور ان کے قریبی دوستوں کا مشترکہ تھا جو انہوں نے پوری شعری ریاضت کے ساتھ اپنایا تھا۔ ان کی آواز کھلے دریچوں سے صبح اور اذانِ صبح کے ساتھ غرفوں میں قدم رکھتی محسوس ہوتی ہے
آمادگی کو وصل سے مشروط مت سمجھ
یہ دیکھ اس سوال پہ سنجیدہ کون ہے
٭......٭......٭
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں
٭......٭......٭
مجھے یاد آیا کہ وہ دور تھا سرگوشی کا
اور اس دور کی اک کم سخنی یاد آئی
٭......٭......٭
اب کوئی نہیں جسے پکاریں
اب اپنے سخن کے روبرو ہیں
٭......٭......٭
آج اس پھول کی خوشبو مجھ میں پیہم شور مچاتی ہے
جس نے بے حد عجلت برتی کھلنے اور مرجھانے میں
ایک وضاحت کے لمحے میں مجھ پر یہ احوال کھلا
کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں
پورے تن، من، دھن سے اس طرح شاعری کے لیے زندگی گزارنا کہ یہ تینوں مل کر چوتھے بُعد یعنی فن میں ڈھل جائیں، بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ لیکن یہ عزمؔ پر صادق تھا۔ بات کہنے میں آسان لگتی ہے لیکن انسان روزگار، معاشی مسائل، گھریلو تکالیف، دوستانہ طوطا چشمی، شعراء اور ادبی حلقوں کی طرف سے پیچھے دھکیلنے کے مسائل سے روز گزرتا ہو تو یہ کام کٹھن ہی نہیں انتہائی کٹھن ہے۔ وہ مشاعروں کے بہت کامیاب شاعر اور ناظم تھے، لیکن ان کی منکسر المزاجی نے ان کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ یہی نہیں انہوں نے ملک اور بیرونِ ملک نوواردوں کی رہنمائی اور تربیت کا فریضہ بھی بہت بے لوث طریقے سے انجام دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی شخصیت میں جو شائستگی اور خاندانی وضعداری تھی، وہ انہیں بہت سے شعراء میں ممتاز کرتی تھی۔ خودداری اور خود شناسی ان کی تربیت کا حصہ تھی اور شعری سرسبزی ان کے مزاج کی دین۔
غم جہاں تو کبھی رہ گزار الفت پر
سفر نہ کرنا کہ یہ سلطنت ہماری ہے
کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے
آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے
عزم بہزاد نے کہا تھا:
میں چلا بھی گیا تو مرے راستوں پر مری یاد میں
کوئی آنسو،کوئی روشنی، کوئی خوشبو چھڑک جائے گا
ان کی یاد میں جب ہم نے ایک شام منائی تو کوئی آنسو، کوئی روشنی، کوئی خوشبو ان کے لیے لے کر آیا۔ میں نے ان کی غزل کی زمین میں کچھ حروف کے پھول ان کی لحد پر بکھیرے:
دونوں اپنے آپ میں تشنہ، دونوں خاک اڑانے میں
فرق ہی کتنا رہ جاتا ہے دشت میں اور دیوانے میں
یہ جو مجھ میں اور طرح کا شخص دکھائی دیتا ہے
لوگو! میری عمر لگی ہے یہ تصویر بنانے میں
یہ کیا ہوتا ہے کہ لکھوانے والے نے کسی لکھنے والے کی طبعی عمر بھی لکھوا دی ہوتی ہے اور جو کچھ، جیسا کچھ اس نے عمر بھر میں لکھنا ہوتا ہے اس کی عمر بھی۔ عزم بہزاد کی طبعی عمر تو بس 1958ء سے 2011ء تک تھی۔ بس یہی لکھی گئی تھی، لیکن اس کے ساتھ ان کی شاعری کی طویل عمر بھی لکھ دی گئی تھی۔ وہ عمر جو ان کی طبعی عمر سے کہیں طویل ہے اور جو نسل در نسل زندہ رہے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں