جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں‘ عید آپ سے بغل گیر ہو چکی ہے۔ یہ معانقہ اور ہم آغوشی مبارک ہو۔ اس وقت جب میں آخری یعنی تیسویں روزے کی حالت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ عید کی آہٹ دیلیز پر ہے اور رمضان کی آخری چند وداعی ساعتیں رہ گئی ہیں۔
ہمیشہ سے آخری روزے پر دل اور دن ملی جلی کیفیات سے گزرتا ہے۔ رمضان کا اپنا ماحول‘ اپنا دستر خوان‘ اپنا نظام الاوقات‘ اپنی کیفیات‘ سب کی سب پورے سال کے معمول سے مختلف ہوتی ہیں۔ مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ لوگوں میں تو الگ بات‘ فضا‘ گردو پیش میں بھی کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں جنہیں لفظوں کی گرفت میں لانا مشکل ہے۔ یہ محسوس کی جا سکتی ہیں‘ بتانا دقت طلب ہے۔ یہ مہینہ ہمیشہ سے خاص تھا اور خاص رہے گا۔ تمام عمر میں بارہ مہینے آتے جاتے رہتے ہیں اور اللہ نے عمر عطا کی ہو تو ان مہینوں کے مختلف ذائقے دل میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں لیکن کسی مہینے کے آنے کی ایسی خوشی نہیں ہوتی اور جانے کا ایسا افسوس نہیں ہوتا ہے جیسا رمضان کی آمد اور رخصت کا ہوتا ہے۔ ویسے تو رمضان کی آمد کے ساتھ ساتھ اس کے نظام‘ سارے سال کی بگڑی عادتوں کا معمول بدلنے کا خوف اور روزے کی محنت سبھی ایک آزمائش کی طرح بھی محسوس ہوتے ہیں اور آزمائش سے انسان کی جان تو جاتی ہی ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ رمضان شریف اصل میں امتحان شریف ہے لیکن یہ ایسا عجیب ڈر ہے کہ اس کے ساتھ خوشی بھی منسلک ہے۔ رمضان کے ابتدائی چند روزے گزرتے ہیں تو ایک نیا معمول زندگی کا حصہ بننے لگتا ہے۔ اور پھر یہ معمول اس طرح زندگی بن جاتا ہے جیسے باقی گیارہ مہینوں کا چلن بھول ہی گئے ہوں۔
آخری عشرے تک آتے آتے عجیب ملی جلی کیفیات ہو جاتی ہیں۔ آخری دس روزے باقی بیس روزوں سے کچھ الگ سے ہو جاتے ہیں۔ ایک تو آخر تک پہنچتے پہنچتے بہت سے لوگوں کی آخر ہونے لگتی ہے۔ پھر تراویح میں ختم قرآن‘ عید کی تیاریاں‘ خریداریاں اس نظام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آخری روزوں میں عید کی خرید و فروخت کے علاوہ باقی کام نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ جس کام کا پوچھو‘ یہی جواب ملتا ہے کہ بس اب عید کے بعد۔ ہر معاملہ عید کے بعد کے دنوں پر چلا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے لاہور یا دوسرے بڑے شہروں سے باہر اپنے گھروں یا آبائی علاقوں میں عید کرنی ہوتی ہے‘ وہ کئی دن پہلے نکل جاتے ہیں۔ مجبوری یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک خاص دن تک بسیں اور گاڑیاں چلتی ہیں۔ اس کے بعد جس نے باہر جانا ہے وہ خود جائے۔ بڑے شہر خالی اور خاموش ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم جو سارا سال لاہور کو اژدہام سے کھچا کھچ بھرا بلکہ چھلکتا دیکھتے ہیں‘ ہمیں یہ وقتی سکون اور قدرے سکوت بھی اچھا بلکہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اور پھر عید کی چھٹیاں شروع ہوتی ہیں تو بہت سے لوگوں کی یہ تین روزہ چھٹیاں بھی آٹھ دس دن پر محیط ہو جاتی ہیں۔ رمضان ختم ہوتا ہے تو ہفتہ دس دن بعد پھر وہی معمول‘ وہی بگڑی عادتیں‘ وہی سونے جاگنے کی خرابیاں‘ وہی کھانے پینے کی بے اعتدالی۔ خیر ہم لوگ رمضان میں کون سا کھانے پینے میں اعتدال برتتے ہیں لیکن اتنا تو ہے کہ کچھ پابندیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ یہ پورے سال کے بعد ٹیوننگ‘ اوور ہالنگ کا موسم ہے جس سے ہم پورے سال کی گاڑی رواں رکھتے ہیں لیکن انصاف کی بات ہے کہ ہم یہ سچی بات کہہ دیتے ہیں‘ دل میں نہیں اتارتے۔
عید کئی کیفیات لے کر ساتھ آتی ہے۔ خوشیوں‘ اداسیوں اور جدائیوں کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ۔ کسی گھر میں مسکراہٹیں اور قہقہے لے کر آتی ہے اور کہیں آنسو۔ یہی بار بار ہوتا ہے‘ بس ہر بار گھرانوں کی ترتیب بدلتی جاتی ہے۔ ہر سال روزوں کا بہ اطمینان اختتام۔ عید کی تیاری۔ عورتوں بچوں کی خوشیاں۔ عزیزوں کی دوری۔ ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والوں کا غم۔ یہ سب غم اور سب خوشیاں ہر بار اس دن آتی ہیں اور عید پر ان خوشیوں غموں کی شدت ہر دوسرے دن سے زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ نظام اسی طرح ہے۔ بار الہا! یہ دن کتنا مختلف ہے اور یہ دنیا کیسی عجیب ہے۔
عید آتی ہے تو ہر چیز سے دھیان ہٹ کر اپنے بچپن اور لڑکپن کی عیدوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ عید وہی عید ہے جو بے فکر زندگی میں گزاری ہو۔ اور بے فکر زندگی بچپن اور لڑکپن کے علاوہ کون سی ہوتی ہے۔ نیلا گنبد کے قریب ایونگ روڈ کے ایک گھر میں میرے والدین دس سال رہے۔ میری پیدائش اسی گھر کی اور ابتدائی یادیں اسی زمانے کی ہیں۔ چاند رات کو مغرب کے فوراً بعد چاند دیکھنے کے لیے چھتوں پر پہنچ جانا معمول تھا۔ عید کے کپڑے واسکٹ ٹوپی اور رومال تو امی عید سے پہلے ہی تیار کر لیتی تھیں لیکن عید سے کچھ دن پہلے کسی رات یا چاند رات کو ہم اپنے والد مرحوم کے ساتھ انارکلی بازار میں عید کے جوتے لینے جاتے تھے۔ یہ جوتے عام طور پر چاولہ یا بٹالہ کمپنی سے لیے جاتے تھے۔ یہ دکانیں پیسہ اخبار سے قریب تھیں اور اب انہیں ختم ہوئے بھی زمانہ ہوگیا۔ ان جوتوں یا سینڈلز کی خوشی کیسے بیان کی جائے۔ بار بار انہیں ڈبے سے نکال کر دیکھنا اور ہر بار ایک لہر کا جسم میں دوڑ جانا اب تک یاد ہے۔ ایک بار جو بوٹ میرے لیے میری پسند سے خریدا گیا‘ اس کے تلے کا نیا نکور نچلا حصہ جو زمین سے مس ہوتا ہے‘ بہت چمک دار تھا۔ میں بہت دیر والدین کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ استعمال کے بعد اس پر بھی میں روز پالش کرکے نیا کر لیا کروں گا۔ مجھے یاد ہے کہ یہ بات سن کر وہ ہنس پڑے تھے اور مجھے بہت برا لگا تھا کہ میری ٹھیک بات پر یہ ہنس کیوں رہے ہیں۔
متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والی اس نسل کی یادیں کم و بیش ایک جیسی ہیں۔ خاص طور پر میرے وہ ہم عمر جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ نیلا گنبد کی جامع مسجد کے باہر تک نمازِ عید کی صفیں بنتی تھیں اور صفوں سے ہٹ کر نور محل ہوٹل کے سامنے غباروں والا‘ کھلونے والا‘ گٹے والا اور بہت سے والے کھڑے ہوتے تھے۔ ہم بچوں کی اصل عید تو یہی ہوتی تھی۔ دھنی رام روڈ پر ایک بیکری کی رنگ برنگی پیسٹریاں‘ لمبے کریم رول اور نیلا گنبد چوک پر سید محکم الدین اینڈ سنز کے تین منزلہ کیک ہم بچوں کی توجہ کے خاص مرکز ہوا کرتے تھے۔ لیکن اسے کیا کیجیے کہ شیشے کے شوکیس کے اندر رکھی یہ ناقابلِ رسائی چیزیں جب دسترس میں آنے لگیں تو وہ کشش بھی جاتی رہی۔ سچ ہے کہ نارسائی بہت بڑی کشش ہے۔
بے فکری کی زندگی والدین کے انتقال پر ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے اپنے والد اور امی کے رخصت ہو جانے کے بعد کی دو عیدوں کی کڑواہٹیں اب تک یاد ہیں۔ لقمہ حلق سے نہیں اترتا تھا۔ لیکن یہ گزرتے زمانوں اور بدلتی کیفیات کا عجیب نظام ہے اللہ کا۔ یہ نہ ہو تو کلیجے پھٹ جائیں اور زندگی ہمیشہ کیلئے تلخ ہوکر رہ جائے۔ سو زخم لگتے رہتے ہیں اور مندمل ہوں یا نہیں‘ بہرحال بھر جاتے ہیں۔ انسان جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے‘ اس کے زخم بھی اس کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں‘ خواہ وہ کتنے پرانے ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔
آپ بہت بار ایسی سڑک سے گزرے ہوں گے جہاں سڑک پر ایک طرف خدا حافظ اور اسی بورڈ کے دوسری طرف یا دوسرے بورڈ پر خوش آمدید لکھا ہوتا ہے۔ ایک علاقہ ختم ہوتا ہے اور آپ کو الوداع کہتا ہے اور دوسرا علاقہ کھلی بانہوں کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔ یہ دو جگہوں کا سنگم ہے۔ ہم بھی اس وقت دو بابرکت مہینوں کے سنگم پر ہیں۔ رمضان نے ہمیں الوداع کہا اور عید نے خوش آمدید۔ اسے بھرپور طرح سے منا لیں اور برکتیں سمیٹ لیں۔ آپ نے بہت سے ملاپ اور فراق دیکھ رکھے ہیں۔ دنیا ہے ہی خوش آمدید اور الوداع کا سنگم۔ ہم اسی اتصال میں عمر گزارتے ہیں۔ عید کی خوشیاں خراب نہیں کرنا چاہتا لیکن سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپ کو مخاطب کر رہا ہوں کہ کیا ہم اگلے سال یہ سنگم دیکھ سکیں گے؟ خدا کرے کہ دیکھ سکیں لیکن یقین کس کو ہے؟