"SUC" (space) message & send to 7575

الحمد

پاکستان کے شمالی علاقوں میں شاہراہِ ریشم پر سفر کرتے ایک عجیب مقام ہے۔ بلند ہوتے جائیے تو آخر وہ جگہ آجاتی ہے۔ یہاں پہاڑوں کے تین عظیم سلسلے ملتے ہیں۔ ہمالیہ‘ قراقرم اورکوہِ ہندوکش۔ ہمالیہ‘ جو دنیا کی دس بلند ترین چوٹیوں میں سے نو کا مسکن ہے۔ قراقرم‘ جس میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا آشیانہ ہے اور ہندو کش‘ جس میں ترچ میر کی خوبصورت چوٹی کا گھر ہے۔ اسی جگہ بل کھاتا‘ شور مچاتا دریائے گلگت عظیم دریائے سندھ سے ملتا ہے۔ اسی مقام پر گلگت اور سکردو کی وادیاں یک جان ہوتی ہیں۔ یہ سنگم ہے اور اسے یکتا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جگلوٹ نامی اس قصبے کا وہ منظر دیکھنے کیلئے سفر کرکے جانا چاہیے کہ یہ منظر کسی اور جگہ نہیں مل سکتا۔
اظہار کی شاہراہِ ریشم پر بھی سفر کرتے ہوئے ایک عجیب مقام ہے۔ بلند ہوتے جائیے تو آخر وہ جگہ آجاتی ہے۔ یہاں پہاڑوں کے کئی عظیم سلسلے ملتے ہیں۔ ہیبت‘ عظمت‘ عقیدت اور محبت۔ ان میں سے ہر پہاڑی سلسلہ بلند ترین چوٹیوں کا گھر ہے۔ یہاں خیالات‘ احساسات‘ مشاہدات اور تجربات کے عظیم دریا آپس میں ضم ہوتے ہیں۔ یہاں وادیاں یک جان ہوتی ہیں اور ان سے ہر طرف راستے نکلتے ہیں۔ یہ سنگم ہے اور اسے یکتا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حمد نامی اس مقام کا منظر دیکھنے کے لیے سفر کرکے وہاں پہنچنا چاہیے کہ یہ منظر کسی اور جگہ نہیں مل سکتا۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ نثر ہو یا شاعری‘ حمد پر آکر سب کیفیات یک جان ہو جاتی ہیں۔ ذرا سورۂ سبا کی وہ آیت پھر پڑھیے ''اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے داؤد کو خاص اپنے پاس سے بڑا فضل عطا کیا تھا۔ (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو! اس کی حمد میں آواز کے ساتھ آواز ملاؤ اور اے پرندو! تم بھی‘‘۔
کیا اس ایک ہی آیت میں قرآن کریم نے پیغمبر (علیہ السلام) کی خصوصیت‘ ان کے معجزے کا کمال‘ شاعری کی تاثیر‘ لحن کی تعریف‘ ان کے دل سے پھوٹنے والی حمدیں‘ ان حمدوں کا جمادات اور ذی روح پر اثر‘ سب جہات کے دروازے نہیں کھول دیے؟ شاعری کی اس سے زیادہ تعریف کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی تعریف لفظ کا خالق کرے۔ شاعری کا اس سے زیادہ اثر کیا ہو سکتا ہے کہ اس پر جمادات جھومنے لگیں اور ہم آہنگ ہو جائیں۔ اور جابجا قرآن کریم کا یہ کہنا کہ ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔ کبھی زبور پڑھیے۔ ایک شاکر دل سے پھوٹنے والی حمدیں یہاں سے وہاں اس طرح سیراب کرتی ہیں جیسے شفاف اور مترنم ندی کے کنارے حدِ نظر تک لالہ زار بچھا ہوا ہو۔ اور رنگ رنگ کے لاکھوں پھول ہریالی سے پھوٹتے ہوں۔ زبور کی حمدیں دل پر اثر کرتی ہیں حالانکہ ہم صرف ترجمہ پڑھ سکتے ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اصل میں یہ کیا ہوں گی۔ اور اس سے شاعری‘ خاص طور پر شاعری کی اس صنف کا انسانوں کے لیے الہامی ہونا بھی واضح ہو جاتا ہے۔
کیفیات کا اتصال کہاں ہوتا ہے؟ مجازی محبوب سے وصال ممکن ہے‘ یہ اتصال ممکن نہیں۔ اسی لیے یہ سنگم جسے دیکھنا نصیب ہو جائے یا جو اس مقام پر قیام کر لے وہ بڑا خوش نصیب ہے۔ میں رسمی اور فرمائشی شاعری کی بات نہیں کر رہا لیکن سچ یہ ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ سے قابلِ رشک سمجھتا ہوں جن کا اس معاملے میں دماغ اور دل ایک ساتھ دھڑکتا ہو۔ ان کی نبض ان کے لفظ میں بھی مرتعش ہو۔ یہ تو پیغمبروں کی سنتیں چلی آتی ہیں۔ سنتِ ابراہیمی‘ سنتِ داؤدی‘ جو لوگ ادا کرتے ہیں وہ منتخب ہیں۔ یاد رکھیے‘ سنتِ داؤدی ادا کرنے والے خاص ہیں اور کم کم۔
یہ بات کہنا مشکل ضرور ہے لیکن بہت ضروری بھی ہے کہ حمد‘ نعت‘ سلام‘ منقبت وغیرہ میں بہت سے لوگ شاعری کے ان معیارات اور لوازمات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جن کا اطلاق غزل اور نظم سمیت ہر صنفِ سخن میں ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ دل پوری طرح شاعری میں شامل ہوتا ہی نہیں یا شعر میں پوری تخلیقی طاقت شامل کرتے ہی نہیں۔ دوسرے یہ کہ حمد و نعت موجب ثواب سمجھ کر کہی جاتی ہیں۔ یہ مقصد پورا ہوگیا تو بس۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ اصناف کم معیاری شاعری کی اجازتیں نہیں بلکہ اعلیٰ ترین درباروں میں اعلیٰ ترین تحفے پیش کرنے کا اذن ہیں۔ کم حیثیت تحفہ پیش کرنے پر کسی کا دل راضی ہوتا ہے تو اس کی قسمت۔ لیکن اعلیٰ شاعر کا دل کمزور شعر پر کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ بساط بھر کوشش کے باوجود بھی یہاں لفظ حقیر ہی رہتے ہیں۔ لیکن وہ سرشاری اور طمانیت جو اللہ کے ہاں سے ہاتھوں ہاتھ انعام کے طور پر شاعر کو عطا ہوتی ہے‘ اصل اعزاز ہے ۔
حمد اور نعت میں دعویٰ نہیں چلتا۔ یہاں اپنی اپنی دستاریں دہلیز کی جوتیوں میں پھینک کر داخل ہونا پڑتا ہے اور اپنی کلاۂ فخر کو بھی پاپوش ہی سمجھ کر اس وادیٔ مقدس میں باریاب ہونا پڑتا ہے۔ یہاں سب سے بڑا فخر ہے کہ ہم اپنے مقدور بھر الفاظ کو الفاظ کے خالق کے حضور پیش کر سکیں یا نعت کی صورت میں اعلیٰ ترین توصیف میں اپنی توفیق شامل کر سکیں۔ میں بھی ایک ادنیٰ شاعر کی حیثیت میں حمد کے اس اعزاز کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ اور ایسی ہی ایک کوشش آپ کے سامنے بھی پیش کر رہا ہوں۔
یہ شام و سحر‘ یہ شمس و قمر بس تیری اطاعت کرتے ہیں
ہم تیرے شاکر ہوں کہ نہ ہوں پر تجھ سے محبت کرتے ہیں
یہ کاسنی پھول یہ زرد شجر‘ یہ سرخ پرندے پیڑوں پر
کتنے ہی صحائف ہیں جن کی ہم روز تلاوت کرتے ہیں
جو شکل ہے روشن آیت ہے جو صورت ہے اک سورت ہے
ہم اس کی نہیں اس خلقت میں خالق کی زیارت کرتے ہیں
سنتے ہیں حکایت راوی کی‘ دل دلکش قرأت منشاوی کی
بس لحن دھڑکتا ہے جس دم یہ درد سماعت کرتے ہیں
یہ نغمے گلہ بانوں کے‘ یہ گیت محبت خوانوں کے
یاں میری سواری ٹھہرا دو یاں عمر سوارت کرتے ہیں
اک سناٹا ہے جدھر جائیں کوئی شکل ملے تو ڈر جائیں
ان شہروں کے ویرانوں میں ہم آہو وحشت کرتے ہیں
تم کیا جانو اس دولت کو کیا سمجھو اصل وراثت کو
ہم عشق کا ترکہ چھوڑتے ہیں‘ ہم صبر وصیت کرتے ہیں
بت ہیں تو بہت پر ان میں کہیں معبود نہیں مسجود نہیں
کچھ پہرے دار ترے اب تک اس دل کی حفاظت کرتے ہیں
ہوتی ہے ہماری حمد یہی تعریف سخن کے خالق کی
جب لفظ تراشی کرتے ہیں ہر قاش پہ محنت کرتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں