میرے حافظے نے تینوں بڑی جماعتوں کا کچا چٹھا کھول دیا اور جیسی بے عزتی میری ہوئی اس کے بعد بحث جاری رکھنا میرے تحمل ہی کا کمال تھا۔ میری برداشت کہہ لیں یا بے بسی سمجھ لیں کہ میں نے گفتگو جاری رکھی۔'' ایک امید بھی تھی کہ شاید باقی جماعتوں اور رہنماؤں میں کسی کا ریکارڈ کم تر برائی کے زمرے میں آتا ہو۔ تو جب یہ بڑی جماعتیں نکل گئیں تو حضور! رہ کون سی گئیں؟ مذہبی جماعتیں یا شاہی جماعتیں یا وہ چھوٹی جماعتیں جو ایک شہر یا ایک صوبے سے باہر کبھی نکل ہی نہیں سکیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مذہبی جماعتوں میں تگڑی جماعت ہونے میں
کوئی شک نہیں۔ تمام صوبوں میں موجودگی بھی اسے اہم تر بناتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن بڑے سیاستدان ہیں اور انہوں نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور پیش بینی کے سبب بڑے بڑے سیاستدانوں سے خود کو منوایا ہے۔ یہ طاقت ہی تو ہے کہ ہر جماعت ان کو ساتھ رکھنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ان کے کریڈٹ پر یہ بڑی بات ہے کہ انہوں نے مذہبی قوتوں کو ریاست سے تصادم کی راہ سے روکے رکھا۔ مولانا غیرجذباتی سوچ رکھتے ہیں اور یہ بڑے سیاستدان کی نشانی ہے۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایوان میں بھی ان کی موجودگی گم سم شرکت نہیں ہوتی‘ وہ کھل کر اظہارِ رائے کیا کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ پی ٹی آئی نے جو بھی زیادتی کی ہو‘ وہ غلط تھی۔ اگر ان پر کرپشن کا کوئی کیس تھا تو اُس کے ثبوت سامنے لاتے۔ تحریک انصاف کی تو جے یو آئی سے سیاسی مخالفت بھی تھی‘ اگر ایسا کوئی مالی بدعنوانی کا کیس ہوتا تو پی ٹی آئی یہ موقع چھوڑتی؟ مولانا کا افغانستان کی موجودہ قیادت احترام کرتی ہے اور حال ہی میں انہوں نے تعلقات کی بہتری کے لیے کابل کا دورہ بھی کیا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ 76سال میں ہم نے یہ کرکے دیکھ لیا کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو وزیراعظم اور صدر کی کرسیوں سے دور رکھنا ہے‘ چاہے وہ اس کی اہل بھی ہو۔ اس کا اب تک کیا فائدہ ہوا؟ اگر مولانا فضل الرحمن قائدِ حزب اختلاف ہو سکتے ہیں تو قائدِ حزب اقتدار کیوں نہیں؟ صدر یا وزیر اعظم کیوں نہیں؟‘‘
'' تم نے ایک ساتھ اتنی ساری باتیں کر دیں۔ بندہ کس کس کا جواب دے‘‘۔ حافظے نے قدرے ٹھنڈے لہجے میں کہا۔ ''یہ بات بھی غلط ہے کہ جے یو آئی کو بڑی کرسیاں نہیں ملیں۔ مولانا مفتی محمود کیا سرحد کے وزیراعلیٰ نہیں تھے؟ کوئی شک نہیں انہوں نے اُس دور میں قابلِ قدر کام بھی کیے۔ خود مولانا فضل الرحمن کو جب ایم ایم اے کے ذریعے خیبر پختونخوا پر اقتدار کا موقع ملا تو وہ خود وزیراعلیٰ بننا چاہتے تو بن سکتے تھے۔ کسی نے روکا تو نہیں تھا۔ یہ بتائیں کہ ایم ایم اے نے اُس دور میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے؟ کوئی ایک ایسا کام بتا دیں۔ کوئی ایک جسے کوئی مثالی کام کہا جا سکے اور جس کے ثمرات خیبر پختونخوا اور ملک کو ملے ہوں؟ کوئی ایک فلاحی کام؟ ہے کچھ جھولی میں؟ یاد کریں پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے پرویز مشرف کو اور پرویز مشرف نے انہیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یاد ہے کہ انہوں نے اپنے حلیف قاضی حسین احمد کے شدید اصرار اور دباؤ اور پورے ملک کے اصرار کے باوجود خیبر پختونخوا اسمبلی روکے رکھی تاوقتیکہ پرویز مشرف صدر منتخب ہو گئے۔ یہ آمریت کی واضح خدمت نہیں تھی؟ رہی کرپشن تو ہر دور میں جو کشمیر کمیٹی کی سربراہی انہیں سونپ دی جاتی تھی‘ کیا یہ سیاسی کرپشن نہیں تھی؟ اتنے ادوار میں اس کمیٹی نے کیا کام کیا‘ کیا کارکردگی تھی اس کی سوائے دوروں کے؟ کچھ بتایا جا سکتا ہے؟ اتنی طویل سیاست میں ان کے پلے کیا ہے۔ یہ بتائیں ؟‘‘
مجھے امید تھی کہ جماعت اسلامی کے نام پر حافظے کے خیالات اتنے تند و تیز نہیں ہوں گے۔ ''جماعت اسلامی کے بارے میں مجھے تحفظات کے باوجود یقین ہے کہ وہ ان سب سے بہتر ریکارڈ رکھتے ہیں۔ جماعت پر کبھی کرپشن کے داغ نہیں لگے۔ انہیں کبھی اس طرح اقتدار کا موقع نہیں ملا جیسا ان سب جماعتوں کو ملا ہے لیکن جب بھی انہیں کام کرنے کا موقع ملا ہے انہوں نے کام کرکے دکھایا ہے۔ کراچی کے مئیر عبد الستار افغانی ہوں یا نعمت اللہ خان‘ دونوں جگمگاتی مثالیں ہیں۔ کسی جماعت نے عوامی فلاح و بہبود کے اتنے کام معاشرے میں شروع نہیں کیے جتنے جماعت اسلامی کے ہیں یا ان سے متعلق افراد اور اداروں کے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ فرشتوں کی جماعت ہے لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ وہ لٹیروں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ کیا حرج ہے کہ ایک بار ان لوگوں کو ووٹ دیا جائے جن پر داغ یا تو ہیں ہی نہیں یا بہت کم ہیں‘‘۔
''اور وہ جو ایم ایم اے تھی‘ جس کا جماعت اسلامی بھی ایک فعال حصہ تھی‘ کیا وہ اقتدار نہیں تھا خیبر پختونخوا کا؟‘‘ حافظے نے کہا۔ ''میں کہہ چکا ہوں کہ کوئی ایک کام تو بتائیں ایم ایم اے کا؟ ان کے لوگ بے شک کرپٹ نہیں لیکن جماعت اسلامی کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ اسے ہر کام کا کریڈٹ چاہیے۔ اسے کریڈٹ کے بغیر کوئی کام قبول نہیں۔ وہ کام میں شریک ہو یا نہ ہو‘ اسے نام بہرحال چاہیے۔ ان کے طرزِ سیاست پر بھی لوگوں کے تحفظات ہیں؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 1970ء کے انتخابات سے لے کر آج تک مذہبی سیاسی جماعتوں کا جو اتحاد نہیں بن سکا‘ اس کی وجہ جماعت اسلامی ہے۔ انہیں قیادت چاہیے۔ جس مذہبی جماعت کی نشستیں زیادہ ہیں یا طاقت جماعت سے زیادہ ہے‘ ظاہر ہے وہ قیادت انہیں کیوں دے گی۔ اور اس کے بغیر اتحاد جماعت اسلامی کرتی نہیں‘ لہٰذا مذہبی سیاسی جماعتوں کو منتشر رکھنے کا فریضہ جماعت ہی انجام دیا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا جیسا چلتا رہا ہے‘‘۔
اس بحث میں جس پر ہر جماعت کے بارے میں میرا اور میرے حافظے کا اختلاف تھا‘ کچھ نکات پر مکمل اتفاق تھا۔ ایک نکتہ یہ تھا کہ شاہی نگرانی میں بنائی گئی پارٹیاں‘ خواہ ایوب خان کے دور کی ہوں‘ پرویز مشرف کے دور کی یا موجودہ دور کی‘ بہت کمزور پھیپھڑوں والی جماعتیں ثابت ہوتی ہیں۔ (ق) لیگ جو اُس دور کی طاقتور ترین جماعت تھی اس کی مثا ل آپ کے سامنے ہے۔شاید استحکامِ پاکستان پارٹی بھی زیادہ دیر سانس نہیں کھینچ پائے گی۔ یا مدغم ہو جائے گی یا ختم ہو جائے گی۔ دوسرا نکتہ سابقہ ایم کیو ایم تھی جس پر ہم دونوں متفق تھے۔ ایسی جماعت جس کا ماضی بوری بند لاشوں‘ بھتہ خوری اور لسانی تعصب کو ابھار کر ذاتی مفاد حاصل کرنے سے زیادہ نہ ہو اور جس نے کراچی کو ایک المیہ بنا کر رکھ دیا ہو‘ اس سے کسی کو ہمدردی کیوں ہو گی۔ ایک اہم نکتہ جس پر میں اور میرا حافظہ متفق تھے یہ تھا کہ ووٹ ضرور ڈالنا چاہیے چاہے کسی بھی اچھے امید وار یا کم تر برائی والے امیدوار کو ڈالنا ہو۔ اس لیے اس دن گھر میں ہرگز نہ بیٹھیں۔ لیکن اہم ترین بات اس بحث کی یہ نکلی جس نے دل بالآخر گرما دیا کہ ان حالات میں ہر پاکستانی بے چین اور مضطرب ہے۔ ہر ایک کو تبدیلی کی ناگزیر ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ یہ ضرورت جب ایک ریڑھی والے سے لے کر اعلیٰ ترین عہدے دار تک سب کا یکساں احساس بن جائے تو تبدیلی آکر رہتی ہے۔ تبدیلی کا راستہ انتخابات ہی ہیں۔ میں نے حافظے سے کہا کہ تمہیں اتنی باتیں یاد ہیں‘وہ آیت بھی تو یاد کرو ''اللہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلے‘‘۔ آٹھ فروری خود کو بدلنے کا دن ہی تو ہے۔