کچھ لوگ‘ خاص طور پر کسی بڑے شہر کے ادبی منظر نامے میں‘ برقِ رواں کی طرح ہوتے ہیں۔ کتنے ہی تخلیق گھران سے قمقمے اور قندیلیں روشن کرتے ہیں۔ یہ برق دوڑنی بند ہو جائے تو وہ تاریکی ان گھروں میں بھی بسیرا کر لے جو ان گھروں کے اطراف میں پھیلے ویرانوں میں ڈیرے ڈالے رکھتی ہے۔ آپ نے وہ عمارتیں دیکھی ہوں گی جن میں ساری عمارت تیرگی میں سر تا پا غرق ہوتی ہے لیکن چند کھڑکیاں روشن ہوا کرتی ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہاں زندگی ہے‘ روشنی ہے اور یہاں آسیب نہیں‘ انسان رہتے ہیں۔ رات اپنے نشے میں ہو‘ سارا قریہ بے نور ہو اور دور سے کوئی جاگتی کھڑکی نظر آ جائے تو اطراف کا اندھیرا اسے زیادہ روشن کر دیتا ہے۔ یہ بے خواب کھڑکی اپنی بساط کے مطابق روشنی پھیلاتی رہتی ہے۔ وہ کیا شعر ہے عرفان صدیقی مرحوم کا
رات پر فتح تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
یہ قندیلیں بجلی کے بغیر محض چراغِ کشتہ ہیں۔ کچھ لوگ ہر شہر کے ادبی منظر نامے پر برقِ رواں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کا اعتراف کرنا چاہیے اور ان کی قدر کرنی چاہیے۔
ادبی جریدہ و تحریک سائبان اور اس کے مدیر حسین مجروح بھی ایسے ہی قابلِ قدر دوستوں میں ہیں۔ سائبان سے ربط ضبط نیا ہے لیکن جناب حسین مجروح سے پرانی یاد اللہ ہے۔ کم و بیش تیس سال سے! پہلی ملاقات یاد نہیں لیکن وہ اس وقت میرے مال روڈ دفتر کے قریب بینک سکوائر میں ایک بینک میں کام کرتے تھے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل وہ اور منیر سیفی مرحوم کراچی میں خاصا وقت گزار کر لاہور آئے تھے اور کراچی کے اہلِ ادب سے بھی ان کی دوستیاں اور تعلقات تھے۔ محفلیں منعقد کرنے اور دوستوں کو اکٹھا کرنے کے شوقین اس وقت بھی تھے اور اب تک یہ شوق کم نہیں ہوا۔ حالانکہ دوستوں سے زخم کھاتے رہنے اور تلخیوں کی پوٹلیاں باندھتے رہنے کے بعد یہ شوق بتدریج کم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس زمانے میں جو اپنے گھر پر شعری نشستیں منعقد کیں‘ ان میں ازراہِ کرم مجھے بھی کئی بار مدعو کیا۔ کراچی کے دوست مثلاً اطہر شاہ خان جیدی مرحوم لاہور آئے ہوتے یا کوئی اور مہمان‘ حسین مجروح ان کے اعزاز میں محفلیں سجاتے رہتے۔ پھر وہ دور آیا جب وہ حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ یہ حلقے کا خاصا ہنگامہ خیز دور تھا اور شاید ایسے پُرہجوم اجلاس بعد میں کبھی منعقد نہ ہوئے ہوں۔ وہ سینئر ادیب اور شاعر جو بدمزہ ہو کر حلقے میں آنا جانا ختم کر چکے تھے‘ انہیں دوبارہ کھینچ لاناحسین مجروح کے تعلقات کا کمال تھا۔ جناب اشفاق احمد‘ احمد فرازکی صدارت میں اجلاس مجھے یاد ہیں۔ فراز صاحب اور سلیمہ ہاشمی والے اجلاس میں ایک نامعلوم شخص کی ہنگامہ آرائی بھی یاد ہے۔ ایک وہ اجلاس بھی یاد ہے جس میں اشفاق احمد صاحب نے اپنا تازہ افسانہ پیش کیا تھا اور اس پر کڑی تنقید ہوئی تھی۔ بہت مدت کے بعد حلقے میں اس طرح کی سرگرمی ہوئی تھی اور یہ مجروح کی بدولت تھی‘ سو انہیں سب لوگ قابلِ قدر جانتے تھے اور سراہتے تھے۔
ہم لوگ نیند میں کروٹیں بدلنے کے عادی ہیں لیکن زمانہ جاگتے میں کروٹیں بدلا کرتا ہے۔ ایک بار جو کروٹ بدلی تو پاک ٹی ہائوس بند ہونے کی خبر لایا۔ یہ ٹھکانہ ختم ہوا تو ادیب‘ شاعرغضبناک مگر بے ٹھکانہ پھرتے رہے۔ حسین مجروح بھی بحالی کے لیے کوشاں رہے۔ کچھ عارضی بندوبست ہوئے لیکن سچ یہ ہے کہ وقت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پاک ٹی ہائوس بالآخر بحال ہو گیا لیکن رونق بحال نہ ہو سکی۔وقت کی ایک اور کروٹ نے دکھایا کہ بینک سے علیحدگی کے بعد حسین مجروح ہیلی کالج آف کامرس میں بطور استاد مقرر ہو گئے ہیں۔ یہ تعلق زیادہ دیر کا نہیں رہا۔ اور ہوتا بھی یہی ہے۔ مضبوط لوگوں میں اصل تعلق غمِ یار کا رہ جاتا ہے‘ غم روزگار کا تعلق آذوقۂ حیات کی ضروری حد پار نہیں کرتا۔ جلد ہی حسین مجروح کا تعلق صرف غمِ یار سے رہ گیا۔ تیس سال کی یہ سرگزشت خلاصہ کر کے سنانا آسان نہیں کہ اس میں کئی پڑائو کٹھن بھی آئے۔ لیکن اصل بات جو میں بتانا چاہتا ہوں‘ یہ ہے کہ کم کم ہی لوگ اس طرح ادب کیلئے یکسو ہوتے ہیں‘ جیسے مجروح ہیں۔ اپنے تعلق والوں کی سوچ‘ فکر‘ شخصی خصائل‘ عادات یا طریقہ کار سے اختلاف کیا جاتا ہے اور ہم سب میں کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں۔ حسین مجروح بھی کوئی استثنا نہیں‘ ان سے اختلاف کیا جاتا ہے لیکن ناقابلِ تردید بات ان کی ادب سے غیر مشروط اور غیر معمولی وابستگی ہے اور یہی بات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اس سفر میں ادب سے کسی بھی قسم کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اپنے مفادات قربان کیے۔ یہ کوئی آسان بات نہیں۔
چہرہ تراشی کھیل نہیں ہے ہاتھ لہو ہو جاتے ہیں
چند سال سے انہوں نے سائبان تحریک بپا کی ہوئی ہے جس کا بنیادی مقصد بھی ادیبوں‘ شاعروں کی فلاح ہے۔ ان کی کتابوں کی اشاعت کا مناسب انتظام‘ مفت کتب دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی‘ ادیبوں‘ شاعروں کے معاشی استحصال کا سدباب اور ایسے ہی دیگر ارفع مقاصد۔ اس تحریک کے سلسلے میں انہوں نے کئی چھوٹے بڑے شہروں کے دورے بھی کیے اور لوگوں کو اپنا ہم خیال پایا۔ یہ مقاصد کتنے پورے ہو سکتے ہیں‘ ثمرات کیلئے کتنا انتظار کرنا ہو گا‘ یہ الگ اور بڑا سوال ہے۔ لیکن یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اس مفاد پسند معاشرے میں کوئی آدمی یہ محسوس کرے‘ یہ سوچے اور اس منزل کیلئے چل نکلے۔ سچ تو یہ ہے کہ مفاد زدہ اور غرض گزیدہ طبقات میں خود ادیب‘ شاعر بھی شامل ہیں جو ایک دوسرے کے استحصال میں بھی کسی سے کم نہیں۔ سچ یہ بھی ہے کہ ظالم کئی جگہ خود مظلوم ہوتا ہے۔ خیر! اس بحث کو ایک طرف رکھیے۔ سائبان کا تازہ شمارہ میرے ہاتھ میں ہے اور اس میں موجود تخلیقات بھی نہایت وقیع ہیں۔ میںہمیشہ ادبی رسائل و جرائد کے کام اور مدیران و مالکان کی قربانیوں کا اعتراف کرتا رہا ہوں۔ یہ مشکل کام ہے اور بے شکریہ (Thankless) تحفہ بھی۔ ہر ماہ یا سہ ماہی تحفہ بھیجنا اور شکریے کے دو لفظ بھی وصول نہ ہونا مدیر کا مقدر ہے۔ اگر اس نصیب پر کوئی مطمئن رہے اور کام جاری رکھے تو اس کیلئے داد تو بنتی ہے۔ بطور عمدہ شاعر اور نثر نگار حسین مجروح معیار کو جانتے پہچانتے ہیں اسی لیے رسالے میں عمدہ تخلیقات شامل ہیں۔ کالم کا کوزہ اجازت دیتا تو میں اس مشروب کے چند گھونٹ یہاں شامل کرتا لیکن وہ جو ضروری بات میں کرنا چاہتا ہوں‘ وہ رہ جائے گی۔ صرف دو شعر سن لیجیے:
نوک سوزن سی نگہ میری طرف کیا لپکی
پھٹ گیا سینے کے اندر ہی غبارا دل کا (رفیق سندیلوی)
اب یونہی بیٹھے رہو خاک بسر‘ اچھا ہے
میں نہ کہتی تھی محبت سے حذر اچھا ہے (کومل جوئیہ)
اگر اس کالم نگار کی آواز کسی ادب دوست صاحبِ اختیار تک پہنچ رہی ہے‘ اور صاحبِ اختیار کا لازمی مطلب مالدار یا صاحبِ اقتدار نہیں‘ اپنی ذات پر اختیار سب سے بڑا اختیار ہوتا ہے‘ تو ان تمام ادبی پرچوں کی بقا اور فروغ اس پر بھی اتنا ہی فرض ہے جتنا مدیران پر تھا۔کسی لائبریری‘ کسی دوست‘ کسی عزیز‘ کسی ادارے‘ کسی گھر میں اگر ایک پرچہ پہنچ جائے تو کوئی بڑا خرچ نہیں لیکن ایک بڑے مقصد میں آپ شامل ہوجائیں گے۔ وہ بڑے تجارتی ادارے جو لایعنی چیزوں پر لاکھوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں‘ کیا وہ اپنے گاہکوں اور ملاقاتیوں کو ایک ادبی تحفہ نہیں دے سکتے۔ ان سے امید تو کم ہے لیکن کوئی صاحبِ دل تو کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ صاحبِ دل تو جانتا ہے کہ یہ رسالہ نہیں‘ ادب ہے‘ زندگی ہے‘ شائستگی ہے‘ زبان و بیان کا گلدستہ ہے‘ اقدار کا مجموعہ ہے اور سب سے بڑھ کر دل کا گداز ہے۔ صاحب! دلوں کے گداز کی ضرورت آج کل ہمیں نہیں تو پھر کس کو ہے؟