مجھے پاکستان کی دفاعی استعداد اور دشمن کو کسی جارحیت سے باز رکھنے کی دفاعی صلاحیت سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ مسلم ممالک میں جدید ترین اسلحہ‘ ساز و سامان اور بڑھتی جنگی صلاحیت کو بھی میں ہمیشہ جاننے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ اگر گرد و پیش پر نظر دوڑائیں تو صاف نظر آئے گا کہ اسرائیل کے قریب اور اردگرد جتنی بھی جنگی قوتیں تھیں یا کبھی اس کیلئے خطرہ بن سکتی تھیں‘ انہیں ایک ایک کر کے ملیامیٹ کر دیا گیا۔ کسی بھی بہانے ان کے بڑے رہنما قتل کر دیے گئے‘ پھانسی چڑھا دیے گئے یا اندرونِ ملک ایسی خوفناک خانہ جنگی کروائی گئی کہ اب انہیں دوبارہ ابھرنے کیلئے بہت مدت درکار ہو گی۔ عراق کو کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر اور صدام حسین کو خطرہ دکھا کر تباہ کیا گیا۔ شام کو خانہ جنگی اور اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے ذریعے زمین بوس کیا گیا۔ مصر کی لیڈرشپ کو پھانسی پر چڑھا کر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔ لیبیا‘ الجزائر وغیرہ کا نام ہی اب کوئی لینے کے قابل نہیں ہے۔ رہے اردن اور لبنان وغیرہ تو ان کی طاقت کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ ان کی مجال ہی نہیں کہ وہ کسی حکم کی سرتابی کر سکیں۔ دیگر عرب ممالک میں جتنا بھی پیسہ ہو‘ جتنی بھی شان و شوکت ہو‘ وہ کسی عسکری شمار قطار میں نہیں ہیں۔ یمن میں بھی ایسی جان نہیں ہے کہ وہ بڑی طاقت کے طور پر خود کو منوا سکے۔
ایسے میں تین بڑے مسلم ممالک ہی رہ جاتے ہیں جو اپنی جنگی طاقت اور عسکری صلاحیت کی بنیاد پر آج بھی اسلام دشمن قوتوں کیلئے خطرہ ہیں۔ پاکستان‘ ترکیہ اور ایران۔ ان تینوں کو اتنے بے شمار مسائل میں بار بار الجھایا جاتا ہے کہ انہیں چین کی ایک گھڑی بھی میسر نہیں آ سکتی۔ ایران پر بہت سی قدغنیں عائد ہیں‘ بہت سے معاشی مسائل ہیں اور فوجی طاقت بھی کوئی بہت اہم نہیں۔ نیز وہ بہت سے ممالک کیلئے پسندیدہ بھی نہیں؛ چنانچہ ان تین ممالک میں اصل ملک پاکستان اور ترکیہ ہی بچتے ہیں۔ پاکستان واحد مسلم ایٹمی طاقت اور اسرائیل کو برابر کا جواب دینے کی صلاحیت کے پیشِ نظر سب سے زیادہ کھٹکتا ہے۔ اسے معاشی‘ سیاسی اور علاقائی غلامی کی زنجیریں بار بار پہنائی جاتی ہیں۔ ترکیہ کی فوج بھی ایک بڑی طاقت ہے‘ چنانچہ وہ بھی اسرائیل اور اس کے حلیف ملکوں کیلئے پسندیدہ نہیں۔ اسے یورپی یونین کا حصہ کبھی بننے نہیں دیا گیا۔ خاص طور پر رجب طیب اردوان مغربی ممالک کیلئے ایک ناپسندیدہ حکمران ہیں اور گزشتہ سال ترکیہ کے انتخابات میں اردوان کے خلاف سارا مغرب اکٹھا ہو چکا تھا لیکن اردوان پھر بھی برسرِ اقتدار آیا اور ان مقاصد کو آگے بڑھایا جو گزشتہ ادوارِ حکومت میں شروع کیے گئے تھے۔
ترکیہ واحد مسلم ملک ہے جو ڈٹ کر مغرب کو جواب دیتا رہا ہے اور معذرت خواہانہ انداز بھی اختیار نہیں کیا۔ دوسری طرف اردوان نے ترک فوج کو بھی نکیل ڈال کر محدود کر دیا ہے۔ ترکیہ کی جنگی طاقت مسلسل بڑھ رہی ہے اور ہمیشہ اس صلاحیت میں اضافے کی خوشی محسوس ہوتی رہی ہے۔ ترکیہ کی بری‘ فضائی اور بحری افواج نے جدید ترین ساز و سامان‘ اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے حصول کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ میں یہ خبریں اور مضامین دلچسپی سے پڑھتا رہا ہوں ۔ اسی لیے 21 فروری کو جب ترکیہ کے جدید ترین لڑاکا سٹیلتھ طیارے کان (KAAN) کی پہلی آزمائشی اڑان کی خبریں آئیں تو میں نے بے پناہ خوشی محسوس کی۔ اس کے بارے میں اس پروجیکٹ کے آغاز سے پڑھتا رہا ہوں اور اس آزمائشی پرواز کے وقت میں نے وہی خوشی محسوس کی جو پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے پر عرب اور ترک مسلمانوں نے محسوس کی تھی۔ حسبِ توقع فوراً ہی مغرب اور خاص طور پر بھارت میں اس پر چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ بھارتی تشویش کا ایک زاویہ اس پروجیکٹ میں پاکستان کی شمولیت ہے۔ ترکیہ نے بھی سرکاری طور پر اعلان کیا تھا اور پاکستان میں بھی کہا گیا تھا کہ ففتھ جنریشن کے اس جدید ترین طیارے میں پاکستانی کی فنی مہارت بھی شامل ہو گی اور یہ کہ پاکستان بھی برادر ملک کے ساتھ مل کر اس پروجیکٹ میں حصہ لے گا۔ بھارت میں اس بات پر خاص شور مچا کہ پاکستان اپنے معاشی مسائل کے باعث ایک طرف تو آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہے اور دوسری طرف KAAN اور جے 31 جیسے مہنگے ترین طیاروں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہو گا۔ اس بڑے منظر نامے کو دیکھنے کیلئے کچھ بنیادی باتیں سمجھنا ضروری ہیں لیکن پہلے ایک نظر اس بات پر کہ ترکیہ کا یہ جدید ترین طیارہ KAAN آخر ہے کیا اور اس کی خصوصیات کیا ہیں۔
KAAN ترک زبان میں بادشاہ‘ حکمران‘ بڑی شان و شوکت والے فرد‘ جسیم آدمی کیلئے بولا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے یہ وہی لفظ ہے جو ''خان‘‘ کے نام سے فارسی اور اردو میں معروف ہے اور کم و بیش انہی معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اس وقت جو جدید ترین طیارے دنیا بھر کی اہم افواج استعمال کر رہی ہیں وہ بتدریج پرانے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایف 16 ‘ جو ایک زمانے میں جدید ترین سمجھا جاتا تھا‘ اب کئی عشرے پہلے کا طیارہ سمجھا جاتا ہے۔ فور جنریشن اور ففتھ جنریشن طیاروں پر دنیا بھر کی فضائی افواج کی نظر ہے اور جس ملک کو جتنے بڑے چیلنج درپیش ہیں‘ اتنا ہی وہ ففتھ جنریشن طیاروں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ان ففتھ جنریشن طیاروں میں فضائی نقل و حرکت‘ رفتار‘ میزائل سسٹم‘ ریڈار اور خاص طور پر ریڈار سے اوجھل رہنے کی صلاحیت اہم سمجھی جاتی ہے۔ یہ مہنگے ترین طیارے ہیں اور ان طیاروں کا بنانا بھی نہایت مہنگا ہے۔ ہر ملک یہ طیارے خرید بھی نہیں سکتا۔ ففتھ جنریشن طیاروں کے بنانے والے ممالک میں امریکہ‘ روس‘ چین‘ شمالی کوریا اور فرانس خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ترک فضائیہ کے پاس ایف سولہ طیارے موجود ہیں لیکن جیسا کہ پاکستان کا بھی تجربہ رہا ہے‘ اس کی خریداری میں امریکہ کی طرف سے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں‘ پھر اس کے ضروری پرزوں کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ وقت پر فاضل پرزے کسی بھی بہانے فراہم نہ کیے جائیں تو یہ مہنگا طیارہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ ترکیہ خود کو درپیش خطرات کے پیش نظر یہ ضروری سمجھ رہا تھا کہ اس کے پاس ففتھ جنریشن طیارے موجود ہوں۔ اب سوال یہ تھا کہ کیسے؟ ایف 35‘ طیارہ جو امریکی لاک ہیڈ کمپنی بناتی ہے‘ ایک آپشن ہو سکتا تھا لیکن امریکہ کیلئے طیب اردوان اور ترکیہ ناپسندیدہ ہیں۔ زیادہ امکان تھا کہ امریکی حکومت اجازت نہ دے کہ یہ اسرائیل کیلئے خطرہ بن سکتے تھے۔ دیگر مسائل بھی تھے۔ چنانچہ ترکیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ففتھ جنریشن طیارے خود بنائے گا۔ یہ فیصلہ 2010ء میں کیا گیا اور یہ طیب اردوان کے اہم ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔ یہ اسی طرح کا فیصلہ تھا جیسا پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کے حصول اور بعد کے تجربات کے بعد کامرہ میں ایرو ناٹیکل کمپلیکس بنانے کا فیصلہ کرنا پڑا جس کے تحت چین کے ساتھ مشترکہ طور پر جے ایف 17 تھنڈر طیارے بنائے گئے تھے۔ یہ بہت مشکل کام تھا لیکن پاکستانی اگر کسی بات کی ٹھان لیں تو وہ کر گزرتے ہیں۔ جوہری طاقت کا حصول اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اس وقت تک جے ایف 17 کے بلاک 1‘ بلاک 2 اور بلاک 3 کے 140 طیارے پاکستان ایئر فورس کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔ حال ہی میں بلاک 3 کے طیارے پاک فضائیہ میں شامل کیے گئے۔ یہ تجربہ نہ صرف پاکستان کی حد تک کامیاب رہا بلکہ کئی ممالک کو یہ طیارے فروخت بھی کیے گئے جن میں تازہ ترین اضافہ آذر بائیجان ہے جس سے 1.6 ارب ڈالر کی ڈیل حال ہی میں کی گئی۔ پاکستان کے اسی فیصلے اور تجربے نے ترکیہ کو بھی حوصلہ دیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی ففتھ جنریشن طیارے کسی سے خریدنے کے بجائے خود بنائے۔ لیکن یہ کہنے میں آسان ہے‘ عملی طور پر نہایت مشکل۔ کم وسائل والے ممالک کیلئے تو عملاً ناممکن۔ ترکیہ بھی بہت سے معاشی مسائل کا شکار ہے لیکن اس نے ہمت کی اور 2010ء میں یہ فیصلہ کیا اور ''کان‘‘ طیارے کے پروجیکٹ کا آغاز کر دیا گیا۔ الحمدللہ بارہ سال بعد‘ 21 فروری 2024ء کو وہ دن آیا جب کان نے پہلی آزمائشی اڑان بھری۔ (جاری)