"SUC" (space) message & send to 7575

مری سے کچھ ٹھنڈے جھونکے

ہم لاہور والے خنک جھونکوں کے لیے شمال کی طرف دیکھا کرتے ہیں۔ لو اور حبس والے دنوں میں اُدھر ہی سے آکر وہ شاداب کرنے والی ہوائیں جسم سے ٹکراتی ہیں جن پر یخ بستگی بکھیرنے والی ہزاروںمشینیں قربان۔ بادِ شمال کی اٹھلاتی‘ مسکراتی خنکی لاہور کی پیشانی چوم کر اسے بانہوں میں بھرتی ہے تو جیسے روح تک سیراب ہو جاتی ہے۔ ایک طرح کا چین نہیں‘ کئی طرح کے سکھ نصیب ہو جاتے ہیں۔ گرمی سے نجات‘ ایئر کنڈیشنرز اور پنکھوں کی آوازوں سے نجات اور ان جان لیوا بلوں سے نجات جن کی تکلیف گرمی کی شدت سے کہیں زیادہ ہے۔ موسم کا حال جاننا ہو تو لاہور کا احوال اپنی جگہ لیکن یہ جاننے کی کوشش ہوتی ہے کہ شمالی علاقہ جات کا موسم کیا ہے یا اگلے چند دنوں میں کیا ہونے والا ہے؟ شمالی علاقوں خاص طور پر مری اور اسلام آباد کا موسم اچھا نظر آئے تو توقع ہو جاتی ہے کہ کچھ گھنٹوں بعد یہ نم آلود ہوائیں اور بار آور بادل ہمارے سر پر بھی ہوں گے۔ بہت بار یہ توقع پوری ہوتی ہے اور مہکتی ہوائیں لدے ہوئے بادل لیے آپہنچتی ہیں۔
اسوقت جب میرے دفتر کی کھڑکی سے باہر سرمئی گھٹا چھائی نظر آرہی ہے اور کسی وقت بھی چھما چھم ہو سکتی ہے‘ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس بار مری کی سمت سے خنک جھونکے دونوں طریقوں سے پہنچے ہیں۔ ہواؤں اور بادلوں کی شکل میں بھی اور کتابوں کی شکل میں بھی۔ مری کے دو اہلِ قلم کی کتابیں میری میز پر ہیں۔ یعنی حبس کے موسم میں مری کے کچھ خنک جھونکے۔ یہ کتابیں یارِ دیرینہ آصف مرزا اور جناب امجد بٹ کی تصانیف ہیں۔ ایک زمانے سے مری میرے لیے اس شہر کا نام ہو چکا ہے جسے میں آصف مرزا‘ ان کے گھرانے اور ان کے احباب کے نام سے جانتا ہوں۔ یہ کم و بیش 40 سال پرانا تعلق ہے۔ ہندوستانی پہاڑی ریاست چنبہ سے ہجرت کرکے مری میں آباد ہونے والے اس گھرانے سے میں نے بہت محبتیں سمیٹیں‘ اس لمحے بھی مجھے لگ رہا ہے کہ میں ان کی والدہ کے سامنے جھکا ہوا ہوں‘ ان کا دستِ شفقت میرے سر پر ہے اور سکون و طمانیت سے میری آنکھیں مندی جارہی ہیں۔ یہ علم دوست‘ دل دار‘ مہمان نواز گھرانہ ہے۔ کوئی صاحبِ دل خود بھی دلدار اور دل نواز ہو تو یہ محبت کے لیے کافی ہے۔ اس پر اگر وہ عمدہ ادیب یا شاعر بھی ہو‘ لکھنے والوں سے محبت بھی کرتا ہو تو ایسا دوست نایاب ترین ہے۔ حیرت ہے کہ نایابی کے خطرے سے دوچار حیات میں اس نسل کا شمار کیوں نہیں کیا جاتا جو صاحبِ دل بھی ہے‘ دلدار بھی ہے اور کاغذ پر دل رکھ دینے کا ہنر بھی جانتی ہے۔ یہ دوست اسی نسل سے تو ہیں۔
''صدا پانی کی‘‘ آصف مرزا کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جس میں نعتیں‘ غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ ''کھلا ہے بابِ سخن‘‘ ان کے وہ مضامین ہیں جو انہوں نے علمی‘ ادبی کتابوں اور شخصیات پر تحریر کیے تھے۔ جناب امجد بٹ سے میرا شخصی تعارف آصف بھائی ہی کے ذریعے ہوا تھا اور ادبی تعارف کا آغاز ان کی تحریریں تھیں۔ اب ان کی دو کتابیں ''مری کے اہلِ قلم‘‘ اور ''علامہ مضطر عباسی‘‘ ان کے محقق ادیب ہونے کی گواہی بن کر مجھ تک پہنچی ہیں۔ اس کی قدر الگ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں سعود عثمانی کے لیے جناب آصف مرزا کے دو اور جناب امجد بٹ کا ایک مضمون بھی شامل ہے۔ مری کے اہلِ قلم وہ کتاب ہے جسے ادبی تاریخی دستاویز کہنا چاہیے۔ ایسی دستاویز جسے ذاتی اور سرکاری لائبریریوں اور محققین کے ذخیروں میں قیمتی اضافہ سمجھنا چاہیے۔ کون جانتا ہے کہ مری کے اہلِ قلم رفتگان و موجودگان کی تعداد اتنی ہے کہ ان کے مختصر تذکرے کے ساتھ بھی یہ ایک خاصی ضخیم کتاب بن جاتی ہے۔ کیا ہم مری کو اس حوالے سے جانتے ہیں؟ اس مخلوق کو چھوڑیں جو مری کی مال روڈ پر آئس کریم کھاتے‘ اونچے اونچے قہقہے لگاتے یا ہلڑ بازی میں ایک رات گزار کر سمجھتی ہے کہ ہم مری اور مری والوں سے مل آئے۔ کیا ہم لکھنے پڑھنے والے‘ حرف سے جڑے ہوئے‘ قلم سے متصل لوگ بھی ان خاموش لوگوں کو جانتے ہیں جو درحقیقت بہت گفتگو کرتے ہیں؟ کیا ہم ان خود کلام لوگوں سے باخبر ہیں جن کے لفظ میں کتب خانے بات کرتے ہیں۔ اوروں کو چھوڑیے‘ میں جو خود لکھنے والوں میں شامل ہوں‘ خود ان میں سے کتنے حرف کار حضرات سے واقف ہوں؟ مجھے یہ تو خوشی ہے کہ رفتگاں میں سے کئی باکمال افراد سے میری ملاقاتیں رہی ہیں اور موجودگان میں بھی کافی افراد سے ملنے یا انہیں پڑھنے کا موقع ملتا رہا ہے لیکن سینکڑوں افراد میں ایسے کتنے ہوں گے؟ دس فیصد بھی نہیں۔ کیسی عجیب ہے زندگی۔ کیسی زنجیریں ڈال کر رکھتی ہے کہ اپنے شعبے کے بہت سے افراد سے محض ایک ملاقات بھی جلتی بجھتی ایک خواہش کی حیثیت میں رہتی ہے۔ خواہش بھی اتنی دیر جب تک یا آپ رخصت ہو جائیں یا وہ فرد۔
میں نے آصف مرزا کا شعری مجموعہ ''صدا پانی کی‘‘ پڑھنا شروع کیا تو انکا پہلا مجموعہ ''ستارہ ہے خاک‘‘ بھی یاد آنے لگا اور وہ متعدد ملاقاتیں بھی‘ جو لاہور اور مری میں ان سے ہوتی رہی تھیں۔ وہ جو ''عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے‘‘ والا کلیہ ہے وہ کسی اور پر صادق ہو یا نہ ہو‘ ہم پر تو ہے۔ جب دو فرد ایک دوسرے کے دل کے مکین ہوں تو کم ملیں یا زیادہ‘ مختصر ملیں یا طویل‘ تشنگی کیساتھ ملیں یا بھرپور‘ بہرحال ایک دوسرے سے بہت زیادہ‘ بہت طویل‘ بہت بھرپور ملتے رہتے ہیں۔ ان کیساتھ مری کی بل کھاتی سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر طویل چہل قدمی‘ کلڈنہ جنگل کی خاموش سماعت میں گفتگو‘ شاہ بلوط کے گھنگروؤں والی پگڈنڈی پر دور تک اکیلا پن‘ چیڑ اور اوک کے درختوں کے بیچ سامنے دھوپ بھری وادی‘ ترائی سے اٹھتی دھند میں کچھ خوشبودار سانس‘ لمبی پیدل مسافت کے بعد جھیکا گلی میں چائے‘ سب ملاقاتوں کی رہگزر کے چند موڑ ہیں۔ اس لیے ہم ایک دوسرے کو بہت سن سکتے ہیں۔ بھلا بہتے پانی کی صدا سننے والا دھڑکتے دل کی صدا کیوں نہیں سن سکتا؟
سرمدی راگ سنانے لگا بہتا پانی ؍برف پگھلی ہے تو دریاؤں میں اترا پانی
.........
اب مقابل ہے فقط ریگ روان صحرا؍دور آوازۂ طفلاں سے نکل آیا ہوں
.........
یوں تصور سے ترے سلسلہ جنبانی کی ؍زخم کو یاد رکھا‘ درد کی مہمانی کی
بہہ رہا ہے کوئی دریا مرے اندر شاید ؍یا کہیں دور سے آتی ہے صد ا پانی کی
کس طرح شکر بجا لاؤں ترا ربِ جمیل؍حسن کی خود کو‘ مجھے عشق کی ارزانی کی
.........
میں سو کے غار سے نکلا تو میں نے کیا دیکھا
کہ شہر میں وہی بیداد گر ہے بارِ دگر
یہ سب کہانی تو جیسے سنی سنائی سی ہے
وہی خبر ہے وہی نامہ بر ہے بارِ دگر
.........
ہر ایک لمحہ نئی ہوتی کائنات قدیم
پرانا ہوگیا ہوں میں نیا بناتے ہوئے
خود اپنے حال سے تھا بے خبر ستارہ شناس
مرے نصیب کا اک زائچہ بناتے ہوئے
.........
جانے والوں کے دکھ پر‘ ارضِ وطن کی محبت میں‘ کسی واقعے کی یاد میں‘ غرض دل کی کسی بھی واردات پر لکھی ہوئی نظمیں کتاب کا حصہ ہیں۔ یہ سب دل سے نکلے اشعار ہیں۔ آصف مرزا کم آمیز‘ کم گو اور گوشہ نشین سہی‘ دنیا داری سے الگ اپنے دریچے کے پاس بیٹھ کر کتاب‘ کاغذ اور قلم سے قریبی رشتے داریاں جوڑنے والے ہی سہی۔ لیکن کلام کرتے ہیں تو دریچہ‘ کتاب‘ کاغذ‘ قلم سب کلام کرتے ہیں۔ میں ان کا مصرع پڑھتا ہوں:
سکوت ٹوٹ رہا ہے نوا بناتے ہوئے
اور جانتا ہوں کہ میں یہ بات پہلے سے جانتا ہوں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں