"SUC" (space) message & send to 7575

لوگ ایسے نہیں تھے‘ یہ جہاں ایسا نہیں تھا

بچپن اور لڑکپن کا دور ہر ایک کو سنہرا لگتا ہے سو ہمیں بھی لگتا ہے۔ بے فکری کی زندگی اور نئی نئی اٹھان ہر چیز خوبصورت کر کے دکھاتی ہے۔ یہ تو شعور اور آگہی کی بلائیں ہیں جو دنیا بدلتی ہیں۔ خیال وخواب کی دنیائیں اپنے سحر سے آزاد کرتی ہیں تو انسان دیکھتا ہے کہ وہ بل کھاتی گنگناتی ندیوں اور مرغزاروں میں نہیں‘ ایک دشت میں کھڑا ہے۔ لیکن عمر کی اس ڈھلان پر اگر سوچ سمجھ کر اور بلاتعصب تجزیہ کیا جائے تو ظلم زیادتی‘ دھونس دھاندلی اور ناانصافیوں کے حوالوں سے واقعی بچپن اور لڑکپن کی دنیا آئیڈیل نہ سہی لیکن آج سے تو بدرجہا بہتر تھی۔ پوری اچھی نہ سہی‘ کچھ کچھ ہی سہی لیکن آج کے مقابلے میں جنت۔
کچھ کچھ مری مرضی کی تھی پہلے یہی دنیا
لوگ ایسے نہیں تھے‘ یہ جہاں ایسا نہیں تھا
اس وقت بھی کچھ کوئلے جلتے تھے بدن میں
لیکن مری آنکھوں میں دھواں ایسا نہیں تھا
60ء اور 70ء کی دہائی میں کیا یہ ہو سکتا تھا کہ غذائی امدادی ٹرکوں کے انتظار میں کھڑے سینکڑوں نہتے شہریوں کو ٹینکوں سے بھون دیا جائے؟ کیا اس وقت علی الاعلان یہ کہا جا سکتا تھا کہ غزہ کی پٹی تو ہمارے سیر وتفریح کے اڈوں کیلئے ہے۔ فلسطینی یہ زمین ہمارے لیے چھوڑ دیں اور کہیں اور‘ کہیں بھی جا کر بس جائیں۔ کیا یہ ممکن تھا کہ دنیا کی سپر پاور کا طاقتور ترین صدر ایک اور طاقتور یورپی ملک فرانس کے صدر کی علی الاعلان توہین کر دے؟ کیا سفارتی اور ملکی ادب آداب آج سے پچاس سال پہلے اس کی اجازت دے سکتے تھے کہ کوئی امریکی صدر پبلک میں فرانسیسی صدر کو شہرت کا بھوکا‘ ناسمجھ اور غلط فہم ثابت کرے۔ کیا اس وقت یہ ہو سکتا تھا کہ جس صدر کی توہین ہوئی ہو وہ گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہ ہو اور جواب میں چپ رہے۔ دنیا کے طاقتور یورپی ملک بھی اس پر احتجاج نہ کریں کہ صاحب! ایسی زبان استعمال کرنے کا آپ کو کیا حق ہے؟ کیا پچاس سال پہلے یہ ممکن تھا کہ عالمی عدالت انصاف ایک ملک کے سربراہ کو جنگی مجرم قرار دے اور اس فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اڑا دیا جائے؟ عالمی مجرم دنیا بھر میں دندناتے پھریں۔
دنیا 60 سال پہلے آج کی نسبت بہتر تھی۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہو چکی تھی لیکن وہ نسل زندہ تھی جس نے وہ بربادی اور تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی تھی۔ پہلی عالمی جنگ بھی زیادہ دور کی بات نہیں تھی۔ وہ زخم ابھی رس رہے تھے جنہوں نے یورپ‘ ایشیا اور افریقہ کو صرف زندہ چھوڑا تھا‘ باقی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ عالمی جنگوں کا تصور بھی لوگوں کو لرزا دینے کیلئے بہت تھا۔ دنیا 1940ء کے عشرے میں ہرگز واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ تکبر او ررعونت سے بھری سپر طاقتیں بھی وہ سرخ لکیر عبور نہیں کرتی تھیں جو نئی تباہی کی طرف لے جائے۔ کیوبا میں روسی میزائلوں کی تنصیب ایسا ہی واقعہ تھا جس میں روسی قیادت نے سٹالن گراڈ سمیت روسی شہروں کی تباہی یاد کی اور میزائل واپس اٹھوا لیے۔ اس لیے کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ نے کئی عشروں تک نئی عالمی جنگ روکے رکھی۔ لیکن اب جبکہ یہ اسّی سال پرانا واقعہ ہو چکا ہے اور نئی نسلیں جوان ہوکر دنیا کی باگ ڈور سنبھال چکی ہیں‘ کیا کتابوں اور تصویروں میں موجود یہ تباہی انہیں کچھ متاثر اور محتاط کر سکتی ہے؟ تاریخ دانوں‘ کچھ سیاستدانوں اور کچھ جنرلز کو تو یقینا کرتی ہو گی جو نتائج کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب دنیا کے عام لوگ اس ہولناکی کو سمجھتے ہی نہیں۔ سپر طاقتوں والے ملکوں میں مگن عوام عام طور پر اس نشے میں ہیں کہ ان کا ملک اتنا طاقتور ہے کہ وہ دنیا پر آگ برسا سکتا ہے‘ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں یہ شدید احساس باقی رہتا کہ فاشزم‘ ناانصافی اور طاقت کے زور پر اپنی بات منوانا ترک کیا جائے اور دنیا کو سانس لینے دیا جائے۔ لیکن ہوا یہ کہ عالمی جنگ کے پہلو سے مزید فاشزم‘ مزید ناانصافی اور مزید ظلم نے جنم لیا۔ ہولو کاسٹ کی بنیاد پر ایک نئے ہولو کاسٹ کی بنیاد ڈالی گئی۔ کیسا ظلم تھا کہ ہولو کاسٹ (ا س میں کتنی تاریخی صداقت ہے‘ اس پر تبصرہ کیے بغیر) جرمن گروہ نے کیا‘ یورپ کے یہودیوں پر کیا‘ لیکن یورپی ممالک نے نسل درنسل یورپ میں بسنے والے یہودیوں کو لا کر فلسطین پر مسلط کر دیا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ یورپ کے کسی ایک ملک میں یہ سب یہودی بسا دیے جاتے۔ یا سب ملک مل کر انہیں اپنی بستیوں میں جگہ دیتے۔ امریکہ ایک پورا براعظم ہے۔ اس کیلئے کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ موجودہ اسرائیل کے برابر رقبے کی ایک ریاست یہودیوں کو دے کر وہاں اسرائیل بنا دیتا؟ ہولو کاسٹ کے یہودیوں سے اتنی ہمدردی تھی تو اپنے گھر میں جگہ دیتے‘ دوسروں کے گھر کیوں برباد کیے؟ یہ فلسطینیوں اور عربوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم اور ناانصافی تھی‘ جو مغربی اقوام نے کی اور اس کا خمیازہ نہ صرف فلسطینیوں اور عربوں نے نسل در نسل بھگتا بلکہ اب پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ دنیا کی خشکی اور تری کو ایسے ہی فیصلوں نے فساد سے بھر دیا اور ظلم کبھی امن ساتھ نہیں لا سکتا۔
اسی ظلم اور ناانصافی کا ایک پہلو یہ ہے کہ مجھے تو جوہری ہتھیار بنانے اور ان میں اضافہ کرتے رہنے کا حق ہے‘ لیکن تمہیں نہیں ۔ مجھے تو حق ہے کہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد بھی نہ بتاؤں اور آئی اے ای اے کو اپنے گھر داخل ہونے بھی نہ دوں‘ لیکن تم اگر یہ کرو گے تو تمہیں نیست ونابود کر دیا جائے گا۔ مجھے تو یہ حق ہے کہ بغیر ثبوت کسی ملک اور قوم کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر حملہ کر دوں لیکن تمہیں نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے آج ہم ہٹلر اور اس کے نازی فلسفے کو ایک غارت گر کے طور پر یاد کرتے ہیں‘ آئندہ نسلیں اس ناانصافی کو بھی ایک چنگیزی گروہ کے تسلط کے طور پر یاد رکھیں گی۔
تیس سال سے نیتن یاہو دنیا کو بتا رہا ہے کہ ایران بس ایٹم بم بنانے کے کنارے پر ہے۔ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ نے مارچ 2025ء میں اس کی تردید کانگرس یا سینیٹ کمیٹی میں کر دی تھی۔ لیکن اسرائیل کا یہ جنون ختم نہیں ہوا کہ یورپ اور امریکہ کو ساتھ ملا کر ایران پر حملہ کیا جائے۔ نیتن یاہو نے ایک بار کہا بھی تھا کہ ایران پر حملہ کرنا میرا پرانا خواب ہے۔ یورپ اور امریکہ نے عملی مدد میں پس وپیش کی تو اس نے جون 2025ء میں حملہ کر دیا۔ اسے یقین تھا اور اس کا یہ یقین بہت حد تک درست ہے کہ یورپ اور امریکہ چار وناچار اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ایران کو اس طرح ملیا میٹ کر دیا جائے گا کہ ایک طرف خود ایرانی اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور دوسری طرف اس کی عسکری اور جوہری طاقت کو دس‘ بیس سال پیچھے دھکیل دیا جائے۔ لیکن ایرانی وطنیت اور قومیت کے حوالے سے بہت حساس قوم ہیں۔ وہ اس معاملے میںاب تک اسرائیل کی توقعات کے برعکس ثابت ہوئے ہیں۔ زمین پر موجود جوہری ہتھیاروں کی تنصیبات کو تو برباد کر دیا گیا لیکن زیر زمین زیادہ تر اثاثے محفوظ رہے ہیں۔ فردو کے مقام پر جو مشہور ایرانی شہر قم سے کچھ فاصلے پر ہے‘ ایران کا یورینیم افزودگی کا پلانٹ پہاڑ کے اندر زیر زمین بنا ہوا ہے۔ یہ انتہائی مضبوط پلانٹ پہاڑ اور زمین کے اندر اتنی گہرائی میں ہے کہ عام بم اور ہتھیار وہاں کارگر نہیں ہو سکتے۔ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس 30 ہزار پاؤنڈ وزنی بم ہیں‘ جو اس پلانٹ کو ممکنہ طور پر تباہ کر سکتے ہیں۔ یہ بم بھی کسی عام طیارے سے نہیں گرایا جا سکتا۔ صرف امریکہ ہی ایسے طیاروں کی طاقت رکھتا ہے۔ نیتن یاہو کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ اس جنگ میں کود پڑے۔ چند دن کی بات ہے کہ امریکی بمباری کے بارے میں فیصلہ ہو جائے گا۔ ایران جوہری ہتھیاروں کے کنارے پر ہو یا نہ ہو‘ فساد سے بھری ہوئی یہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر ضرور کھڑی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں