چھاتی کے اوپر کھڑے ہو کر ڈسکہ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے سینے میں 9گولیاں اتاری گئیں۔کچھ بندگان شکم کے مطابق یہ وکیل برادری اور پولیس کے درمیان تصادم تھا۔
ڈسکہ واقعہ کیا تھا اس طرف بعد میں،پہلے گزشتہ سال کی تاریخ دیکھ لینے میں حرج نہیں ۔معزز اساتذہ کرام کو برسرِ عام پیٹا گیا،خواتین اساتذہ کو بھی گھسیٹا گیا۔ سماج کے سب سے مظلوم اور کمزور طبقے خواجہ سرائوں پر وحشیانہ تشدد ۔نابینا افراد کے سر پر لاٹھیاں۔شہریوں کے گندے زخموں پر اپنے ہاتھوں سے مرہم رکھنے والی نرسوں کی پٹائی۔ کسان کے محنت کش ہاتھ، پاؤں لاٹھی چارج کی زد میں۔ ڈاکٹروں پر ریاستی دہشتگردی کی تین دفعہ بوچھاڑ۔
ماڈل ٹاؤن قتلِ عام نمبر ایک اور ماڈل ٹاؤن میں دوسری بار بھی جلیانوالہ کی تاریخ دہرائی گئی۔شاہراہِ دستورپر ، فیصل آباد میں سیاسی کارکنوں کے لاشے گِرائے گئے۔ 2014-15ء میں دنیا کے کسی بھی ملک میں شہریوں کے خلاف اس قدر پولیس گردی ہوئی نہ ریاستی تشدد۔مگرنہ کوئی بامعنی پرچہ درج ہوا ،نہ نتیجہ خیز تفتیش،نہ کوئی ملزم گرفتار ہوا۔سرکار کا اصرارہے اسے گُڈگورننس کی انتہا سمجھیں۔شہری سوچتے ہیں اس قدر اچھی حکمرانی پر جمہوریت کو مبارکباد دیں یا حکمرانوں کو شاباش...؟ اس طرزِ حکمرانی نے موجودہ لیڈروںکے مرشدضیاء الحق کی یاد تازہ کر دی۔
ہم سب جانتے ہیں پیسہ بولتا ہے۔ڈسکہ واقعہ کے بعد ایک اور حقیقت کُھل گئی۔پیسہ صرف قائداعظم کی تصویر والے نوٹ پر نہیں چمکتا بلکہ ٹی وی اور اخبار میں بھی چہکتا ہے۔جس روز ڈسکہ میں تین نوجوان لاشے اٹھے‘ ایک ڈسکہ بار کے صدر رانا خالد عباس ایڈوکیٹ کا جنازہ ‘ دوسرا26سالہ وکیل عرفان چوہان کا جنازہ جس کی اپنی ماموں زاد سے شادی ہونے والی تھی۔ تیسرا جنازہ بے نام بلکہ بے یارو مددگار بھی‘ اسے ــــــراہ گیر جنازیــ کا نام دیا گیا۔جس ملک میں بے گناہ شہری ریاستی تشدد میںمارے جائیں ، خبر اور اہمیت اتنی ہو کہ ایک راہ گیر مارا گیا۔وہ معاشرہ قہرِ خداوندی کو اور کس طرح سے دعوت دے گا؟ ایک طرف یہ جنازے اُٹھے دوسری طرف دانش کے ایک دیوتا فرما رہے تھے وکیلوں نے قانون کی دھجیاں بکھیر دیں۔سننے والوںکو یوں لگا جیسے نہ کوئی ڈسکہ بار ایسوسی ایشن ہے نہ وہاں کوئی راناخالد عباس صدر تھا‘ نہ مسٹر عرفان چوہان وکیل۔ نہ ہی ان کی چھاتیوں پر کھڑے ہوکر گولیاں ماری گئیں۔وکیلوں نے تفریح کے لیے احتجاج شروع کر دیا۔سرکاری سر پرستی میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی اس کیپشن کے ساتھ تصویرچلائی گئی، ''ایک وکیل چیف جسٹس پر حملہ آور ہورہا ہے‘‘۔ جس وکیل کی تصویر دکھائی گئی وہ کوئی اور نہیںبلکہ لاہور ہائی کورٹ کا صدرمسعود چشتی ہے۔ جو چیف جسٹس اور وکلاء کے درمیان کھڑے ہو کر گفتگو اورمذاکرات کو ممکن بنا رہا تھا۔جو لوگ اپنی سمجھ کے مطابق سچ کی مٹی پلید کرنے کے چیمپین ہیں وہ یاد رکھیں جھوٹ کا ماؤنٹ ایورسٹ یا ہرن مینار بھی سچ کے آگے ہیچ ہے۔
سچ سے یاد آیا جسٹس باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمیشن لاہور ہائی کورٹ نے نہیں بنایا تھا ۔پنجاب کے موجودہ حکمرانوں نے ہائی کورٹ سے خود التجاکر کے ایک رکنی جسٹس نجفی کمیشن تشکیل کروایا ۔جہاںمعزول وزیر، خادمِ اعلیٰ سمیت سب نے بیان حلفی پیش کیے۔میانوالی کا پسِ منظر رکھنے والے دلیر جسٹس نجفی نے انصاف کے ترازو کو گرنے نہیں دیا نہ ہی بار و بنچ کا سر جُھکنے دیا۔ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 19-Aمیں دیئے گئے اطلاعات تک رسائی کے بنیادی حق کو پاؤں تلے روندڈالا ۔ اس کے بعد نجفی کمیشن کی رپورٹ ایٹمی راز بن گئی۔302کے پرچے کے مرکزی کردار نے جسٹس نجفی کے خلاف آرٹیکل 209کی کارروائی کی دھمکی دے دی۔ رپورٹ کو عام کرنے کے لیے دائر رِٹ پٹیشن ابھی تک صوبے کی سب سے بڑی عدالت کی راہ داریوں میں گھوم رہی ہے۔قتل اور دہشتگردی کی ہر واردات میں نامزد ملزم گرفتار ہوتا ہے یا عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر تا ہے۔لیکن ماڈل ٹاؤن قتلِ عام کا کوئی ملزم گرفتار ہوا نہ کسی نے ضمانت کروائی۔صرف گُلو بٹ کے خلاف اکیلی ایف آئی آر درج کر کے اسے قربانی کے بکرے کے طور پر ''ونی‘‘ کیا گیا۔قوم کو یقین ہے اگر ماڈل ٹاؤن مقدمے کے ملزم گرفتار ہوتے قانون اور انصاف ملزموں کے چہرے دیکھ کرنئی نویلی دلہن کی طرح شرما نہ جاتا اور ڈسکہ کے تھانے میں وکیلوں کا قتلِ عام روکا جا سکتا تھا۔قارئینِ وکالت نامہ نے اس سارے قضیئے میں ایک کردار کو ضرور مِس کیا ہوگا۔ وہ سابق سیاسی چیف جسٹس جو کرپشن اور بدا نتظامی کے چارجز پر نوکری سے دو دفعہ ڈس مِس ہوا۔ اس کی نظر اس قدر تیز تھی کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا؛ چنانچہ ایک خاتون فنکارہ کے بیگ میں پڑی چھوٹی شیشیاں دیکھ کر اس نے تاریخی سوموٹو نوٹس لیا۔لیکن اسلام آباد کچہری کے احاطے میں پڑی ہوئی لاشیں اور 12مئی کو کراچی کے پلازے میں مارے گئے 5 وکیل اور درجنوں شہری اس کے سوموٹو کے ''تقاضے‘‘ پورے نہ کر سکے۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے ابھی پچھلے ہفتے ایک گُلو جے آئی ٹی کے ذریعے پنجاب سرکار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کو کلین چِٹ دے دی۔اس مہربانی کی وجہ سے پولیس اور انتظامیہ کے عوام دشمن رویے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔اسی لیے تھانہ سٹی ڈسکہ کا ایسا ایس ایچ او جس کے خلاف حراستی قتل سمیت 15,16دیگر مقدمات بھی تھے۔اسے حوصلہ ہوا ۔وکلاء کا قاتل اچھی طرح سے جانتا تھا اگر ماڈل ٹاؤن کے 14قتل ہضم کیے جا سکتے ہیں تو دو ،تین وکلاء کو مار دینے سے کیا فرق پڑے گا۔پھر پوری قوم نے دیکھا پنجاب پولیس کے ''بڑے‘‘ ملکی تاریخ کے اس سیاہ ترین واقع پر ٹس سے مَس بھی نہ ہوئے ۔ایک بات تجربے سے ثابت ہے اگر وکلاء ٹارگٹ کلنگ کے قاتلوں کو جلد منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا تو وکلاء آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔اس سانحے کا ایک اور رُلا دینے والا پہلو یہ ہے کہ جن کی بحالی کے لیے وکلاء نے 400کلو میٹر لمبے جلوس نکالے ،لاٹھیاں کھائیں، کپڑے اور سَر پھڑ وائے‘ دو سال اپنا روزگار بند رکھا ،محنت کی کمائی لُٹا دی‘ جن کو کندھوں پر بٹھایا ،جن کے نعرے لگائے‘ انہوں نے کراچی کے شہید وکیلوں کا جنازہ پڑھا نہ ہی ڈسکہ بار کے صدر اور عرفان چوہان کی میت کو کاندھادیا۔موقع پرستی، مطلب پرستی،شخصیت پرستی،جاہ پرستی جیسے الفاظ ایسے ہی رویے کے لیے مخصوص ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے صوفی منش چیف جسٹس انور خان کانسی نے ضرور حق ادا کیا ۔ڈسکہ کے شہید وکلاء کے لیے ریفرنس میں کُھل کر کہا کہ میں وکیلوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس باطل و حق کے رَن میں
رات مرتی ہے، کہ زنجیر سحر ہوتی ہے
آخری فتح مِری ہے مرا ایمان ہے یہ
جس طرح ڈوبتے سورج کو خبر ہوتی ہے
میں تو سو بار اسے، اپنا مقدر کر لوں
جس شہادت سے مری ذات امر ہوتی ہے
قانون کی حکمرانی کے لئے جان دینے والے ڈسکہ کے شہیدوکلاء اور انصاف کے لیے ڈٹ جانے والی باروں کو سلام۔