پرانے زمانے میں جو کہانی بچوں کو سنائی جاتی تھی اس میں ہر بادشاہ کے ساتھ ایک ''دانش مند‘‘ وزیر ہوتا تھا۔وہ بادشاہ جسے ''اصلی‘‘ دانشور وزیر نے خیالی کپڑے پہنا ئے اور اس زمانے کے کنٹینر یعنی رتھ پر چڑھا کر اسے بر سرِ بازار لے آیا‘جہاں ایک غیر دانشور بچے نے کہہ دیا بادشاہ تو ننگا ہے ۔یہ کہانی ابھی پُرانی نہیں ہوئی‘صرف اس کے کردار اور زمانہ تبدیل ہوتا ہے۔
آئیے اس کہانی کا تازہ ایڈیشن دیکھیں۔ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کے بعد تقریباََ طے ہو چلا ہے کہ قانون وہ انگار ہے جو قہر بن کر غریب کی جھونپڑی جلا سکتا ہے لیکن امیر کے ہاتھ میں پہنچتے ہی برف کاٹھنڈا ٹھار گولا بن جاتا ہے۔ لیکن کے پی کے‘ کے وزیر کی کہانی نے بادشاہ سلامت کو پاجامہ پہنا دیا ۔وہی بادشاہ سلامت جو ماڈل ٹاؤن کے سانحے کے بعد رتھ پر سوار نظر آئے۔سردارعلی امین گنڈا پور اب ایک ایسی داستان ہے جسے ملکی سیاسی تاریخ سے نکالا نہیں جا سکے گا۔محکمہ مال کے وزیر پر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک تھانے میں بیلٹ باکس ڈکیتی کا پرچہ درج ہوا۔قانون کی نظر میں یہ چوری کی ایسی کوشش (Attempted theft) تھی جس میں بیلٹ باکس رنگے ہاتھوں بر آمد ہو گیا۔جبکہ وزیرِ مال کے پی کے کو لگے ہا تھوں سرکاری مہمان بنا لیا گیا۔ویسے تو پاکستان کے طرزِ حکمرانی کے مطابق ہر وزیر ہر وقت ہی سرکاری مہمان ہوتا ہے‘ لیکن بجلی، گیس، پانی، دال، روٹی، ٹرانسپورٹ، تعلیم، صحت اور عزت وحفاظت سے محروم عوام جیل کو ہی سرکاری مہمان خانہ سمجھتے ہیں۔پاکستان میں اب جیل ہی وہ آخری جگہ باقی بچی ہے جہاں روٹی ،کپڑا اور مکان مفت مل سکتا ہے۔لیکن یہ تقسیم بھی عام لوگوں کے لیے ہی ہے۔خاص لوگ جیل جائیں تو ان کے کپڑے فائیو سٹار ہوٹل سے دُھل کر آتے ہیں۔ ان کا ناشتہ ،لنچ اور ڈِنر چوائس کے ریسٹورنٹ سے منگوایا جاتا ہے۔اور اگر سرکاری مہمان بننے والی ڈالروں کی سمگلر ہو یا فنکارہ تو اس کے لیے جیل مساج پارلر ہے،بیوٹی پارلر بھی اور پتہ نہیں کیا کیا۔
بات ہو رہی تھی پہلے وزیر کی جو اس قدر اناڑی تھا کہ نہ اس نے سرکاری زمین پر قبضہ کر کے ناجائز پلازے بنائے اوربچ گیا‘ نہ فیصل آباد کے 8بازاروں سے نوٹوں کی بوریاں بھریں‘ مگر ہتھ کڑی اس کا مقدر بنی اور جیل اس کا ٹھکانہ ۔دوسرا وزیر گھاگ نکلا ۔ماڈل ٹاؤن کے چودہ قتل ،لاتعداد زخمی،تار تار دوپٹے،پھٹے ہوئے سَر، لنگڑاتی ٹانگیں اور گلے میں لٹے ہوئے شکستہ بازو اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔قانو ن برف کا میٹھا گولہ ثابت ہوا‘ جس سے گرم موسم میں سبز،نیلا،پیلا رنگ لگا کر پیاسے بچوں کی دل پشوری کروائی جاتی ہے۔ ایک گولے کوچُوسنے کے لیے بچوں کی لائن لگتی ہے‘ تب بھی ڈھیٹ گولہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ہر کہانی کا ایک انجام بھی ہوتا ہے ۔پہلے وزیر کی کہانی منطقی انجام تک پہنچی۔دوسرے کے لیے ملکی قانون اور زمین والی عدالتیں دونوں نے ہاتھ کھڑے کر رکھے ہیں۔ہاں البتہ قدرتِ کاملہ کے قانون کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا‘ نہ ہی ہو گا کہ قدرت اپنے سارے فیصلے زمین والوں کے ہاتھ میں دے ڈالے۔ایسا بھی نہیں ہوتا کہ قدرت زمینی عدالتوں کی طرح فیصلہ ہی نہ کرے اور تاریخ پر تاریخ ڈالتی چلی جائے۔آپ نے دونوں وزیروں کا تذکرہ سُن لیا اور ان کی کہانی بھی۔آپ لازماً سوچیں ہوں گے کہ تیسری کہانی کِدھر گئی۔چلیے اب تیسری کہانی بھی سُن لیں۔
ایک تھا وطن۔ کھانے پینے کی چیزوں سے مالا مال۔ جنگل،دریا،پہاڑ ،سمندر،پھل، اناج ،دودھ اور شہد سے بھرپور سرزمین۔ اس سرزمین میں سستا یا مہنگا سب کچھ مل جاتا‘ ماسوائے ایک جنس کے۔ اس کا نام ہے انصاف۔یہ کہانی مسلسل چلتی رہے گی۔ آپ پاک سر زمین پر اس کا ری پلے ہر روز دیکھ سکتے ہیں ۔اس لیے ایک واقعہ سن لیں۔ یہ 1997ء کی سردیوں کی بات ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ میں سابق وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو تاریخ پر پیشی کے لیے آئیں۔جسٹس نواز عباسی اور جسٹس امجد علی شیخ پر مشتمل احتساب عدالت کے رو برُو میں شہید بی بی کی طرف سے وکیلِ صفائی تھا۔ہائی کورٹ بلڈنگ کے فرسٹ فلور پر ایڈیشنل رجسٹرار عطاء الرحمن کے کمرے میں بلایا گیا‘ جہاں آصف زرداری جو لاہور سے گرفتار ہوئے تھے‘ کو احتساب عدالت میں پیشی کے لیے پہلی بار پنڈی پہنچایا گیا۔آصف زرداری نے مجھ سے پوچھا‘ تمہارے دفتر کتنے ہیں‘ سٹاف کتنا ہے اور خرچہ کتنا ۔ان دنوں آصف زرداری کے مقدمات لڑنے کے لیے ایک سابق سول جج ماہانہ تنخواہ پر ان کا وکیل تھا۔میں نے ان سوالوں کا جواب نہ دیا بلکہ اُلٹاسوال کر دیا۔ کیا آپ نے پنجاب میں اس سے پہلے کوئی مقدمہ لڑا؟ آصف زرداری کا جواب نفی میں تھا۔میں نے کہا‘ آپ کے مقدمے کے دوران میرے دفتر پر حملے ہوں گے‘ میرے خلاف پرچے بھی‘ میرا سٹاف بھی جیل جائے گا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مافیاز کو توڑنے کے لیے تنخواہ دار ملازم جنگ لڑ سکتے ہیں۔پھر میں نے اپنے والد مرحوم ملک علی حیدر کی سنائی ہوئی ایک مثا ل دی۔میرا نانکہ گاؤں کلیام اعوان گوجرخان میںہے جہاں 70ء کے عشرے میں ایک جرگے کے دوران میرے والد صاحب نے یہ کہا ''ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنے کے لیے دلہنوں کی فوج بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا‘‘۔
قصہ مختصر یہ کہ میں آصف زرداری کا وکیل مقرر ہوا ۔میرا منشی حاجی شبیر دو دفعہ دہشتگردی کے مقدمات میں اٹھایا گیا۔ مجھ پر 1997ء کی انتہائی جمہوری حکومت نے دہشتگردی کے دو مقدمات قائم کیے۔ ان دونوں مقدمات میں عدالتوں نے 15سال بعد مجھے بری کر دیا ۔جس دن مجھے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں ڈالا گیا‘ اس دن میرا مؤکل آصف زرداری جیل کے اندر میرے ساتھ والے کمرے میں بند تھا۔
تیسری کہانی ابھی بھی چل رہی ہے۔ 'بول‘ ٹی وی کے کارکن بے یارو مددگار سڑکوں پر مظاہرے کر نے پر مجبور ہیں‘ جبکہ جن مقدمات کے ہینڈلر بڑے کھلاڑی ہیں وہاں نہ کوئی گواہ محفوظ ہے‘ نہ تفتیشی‘ نہ عوام ۔دو وزارتوں اور دو وزیروں کی کہانیاں قسط وار ہیں۔تازہ قسط کے کچھ منظر لکھے جا چکے ہیں جبکہ کچھ کی ڈرامائی تشکیل ہو رہی ہے‘ کچھ کی ریہرسل اور کچھ کی عکس بندی بھی شروع ہو چکی ہے۔جن لوگوں کو سپریم کورٹ میں 35پنکچر نظر نہیں آئے وہ افسوس مت کریں میں انہیںچھتیسواں پنکچر دکھا دیتا ہوں ۔جس صوبے پنجاب پر دھاندلی کا بڑا الزام ہے وہاں کا نگران وزیرِاعلیٰ سپریم کورٹ میں کہہ آیا ہے کہ الیکشن سے پندرہ دن پہلے میرے سارے اختیارات رائے ونڈ کے حوالے ہو چکے تھے۔تیسری کہانی کے پہلے منظر میں صدارتی آرڈیننس آیا تھا ۔اس کے تحت چیف جسٹس اور دھاندلی کمیشن دھاندلی کے مقدمے کا فیصلہ دیں گے۔ فیصلہ کیا ہو گا سب جاننا چاہتے ہیں۔میں آپ کو بتا دیتا ہوں‘ یہ فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا ۔اس میں آخری عدالت کا اولین بنچ بیٹھا ہے جس کے خلاف کوئی اپیل ہو سکتی ہے نہ ہی نگرانی۔انگریزی کا ایک محاورہ کہتا ہے ''ہر بڑے آدمی کے اندر ایک بچہ موجود ہوتا ہے‘‘۔ اب صرف دو ہفتے صبرکی ضرورت ہے۔ اگر کسی بڑے آدمی کے اندرسویاہوا بچہ جاگ پڑا اور اس نے کہہ دیا کہ پاکستان کے انتخابات کا بادشاہ ننگا ہے تو سمجھ لیں پھر تیسری کہانی ختم ہو گئی۔ ویسے بھی کہانی میں نہ ریفری نظر آتا ہے‘ نہ انگلی دکھائی دیتی ہے۔
جنوں کے بس میں ہے میرا پری جمال وطن
وہ ظلم اس پہ ہوئے ہیں کہ ہے نڈھال وطن
اسے رہائی ملے تو مری رہائی ہو
ازل سے ہے مری صورت خراب حال وطن