"SBA" (space) message & send to 7575

مجاہدِ اوّل سے مجاہد آخر تک

جو پودا مجاہد اوّل نے اپنے ہاتھ سے لگایا‘ 62سال آبیاری کی، آج وہ مقبوضہ کشمیر میں سبز پرچموں کی تحریک ہے۔سردار عبدالقیوم خان راہی ٔ ملکِ عدم ہوئے۔رمضان شریف کے تیسرے عشرے میں ،جی ہاں نجات کاوقت۔ساتھ موسمِ بہار بھی ۔ کشمیر کی آزادی اور الحاقِ پاکستان کی بہاریں دور نہیں۔
تب میں تھرڈ ائیر کا طالب علم تھا۔ G6/2میںرہائش ۔ کالج سے لوٹا۔ مجاہد اول آئے ہوئے تھے ۔ کہا‘ گرم کپڑے رکھ لو میرے ساتھ کشمیر چلو گے۔یہ وہ دور تھا جب میرے دوستوں کا گروپ پورا سال مری میں برفباری کا انتظار کرتا اور برف پڑتے ہی موٹر سائیکلوں پر کھلے بٹنوں والی شرٹیں پہن کر ہم مری پہنچ جاتے۔ گرم کپڑوں کی سمجھ نہیں آئی۔پھر بھی تعمیل کے انداز میں جلدی جلدی جو ملا‘ بیگ میں رکھا اور مجاہد اوّل کے ساتھ بیٹھ گیا۔تقریباََ3 گھنٹے میں دریائے جہلم پر بنے کوہالہ پُل سے دائیں پٹرول پمپ پر رُکے۔ پمپ مالک غالباََ بابو بشیرتھے۔ حاجی عزیزکے گاؤں‘ وہاں سے چمیاٹی‘ پھر دھیر کوٹ بازار اور آخر میں جُولی چیڑ جسے مجاہد اوّل کی رہائش گاہ نے غازی آباد کا خطاب دیا۔ 70ء کے عشرے کے آخری سال تھے۔ رہائش گاہ لکڑیوں کی چھت والے نیم پختہ گھر میں تھی۔ دو کمروں کا مہمان خانہ ۔جہاں نشست اور شب بیداری بھی زمین پر۔ ساتھ ایک چھوٹا کمرہ مجاہد اوّل کی چلّہ گاہ ۔ 500میٹر دور کھائی اور چڑھائی کے درمیان ان کے چھوٹے بھائی جو انتہائی بہادر اور بے لاگ شخص تھے‘ سردار عبدالغفارخان کا گھر‘ جو ہراعتبار سے مجاہد اوّل کی رہائش گاہ سے پُرآسائش تھا۔برف سے اٹی کشمیر کی وادی میں صفر ٹمپریچر سے نیچے برف باری کے دوران زمین پر سونے کا میرا پہلا تجربہ تھا۔آدھی رات کو گھُپ اندھیرا۔کمرے میں کُھسر پُھسر کی آواز آئی۔میں نے بیٹھنے کی کوشش کی لیکن سردی کا درد ریڑھ کی ہڈی تک محسوس ہوا۔ عجیب، خشک اور بے مزہ درد۔ یوں لگا اٹھنے کی کوشش میں ہوں اور کسی نے میری پسلیوں میں رسی ڈال کر زمین کی طرف کھینچ رکھا ہے۔ دیکھا میرے کمرے کے کونے میں کوئی آدمی نئی لکڑیوں سے بجھی ہوئی آگ جلانے کی کوشش کر رہا ہے۔چند لمحے میں آگ جل گئی۔ کمرہ روشن ہوا ۔یہ کوئی اور نہیں بلکہ میرے میزبان مجاہد اوّل تھے۔تب سے جب تک مجاہد اوّل نے عملی سیا ست کی‘ میں اقتدار کے دنوں میں غائب ہو تا تو وہ مجھے ڈھونڈ لیتے۔ اپوزیشن کے دنوں میں کوٹلی جیل سے دلائی کیمپ کے جلسے ،مظفر آباد کی ہنگامہ خیز آتشزدگی، میجر اورنگزیب کے دورِ قہرمان سمیت میرے مہربان مجاہد اول جہاں ہوتے‘ میں انہیں ڈھونڈ نکالتا تھا۔
عین ممکن ہے آپ کو یہ سارا کچھ افسانہ لگے‘ لیکن آج بھی ان باتوں کے سینکڑوں نہیں ہزاروں چشم دید گواہ موجود ہیں۔سردار عبدالقیوم اور سردار غفار کی محبت اور برادرانہ شفقت ،میں نے کئی عشرے دیکھی۔یہ اس وقت کی بات ہے جب آزاد کشمیر کی سیاست میں پاؤنڈ، سٹرلنگ، برادری ازم ،پیسے ،برمنگھم ،مانچسٹر اور لندن کا کوئی کردار نہیں تھا۔مجاہد اوّل کی برادری چھوٹے سے حلقے میں محدود تھی لیکن ان کی دوستیاں، محبت اور حلقہ اس قدر وسیع تھا کہ آزاد کشمیر کا مختصر سا خطہ اسے کبھی دامن میں نہ سمیٹ سکا۔ان کا حلقہ پورا پاکستان بن گیا۔میرے سمیت ،سعود ساحر سے لے کر پیرپگارہ تک بے شمار لوگ انہیں پاکستانی سیاست میں دیکھنے کے خواہش مند تھے۔1970ء والے عشرے سے1985ء تک وہ عملی طور پر پاکستان کی سیاست کے اپوزیشن لیڈر رہے۔ پیر پگارہ کو سیاست میں ایکٹو کرنے کا سہرا بھی مجاہد اوّل کے سر ہے۔ ایک نشست میں مجاہد اوّل کے سب دوستوں نے زور دار دلائل دیئے ۔ بظاہران کے پاس جواب نہیں تھا۔انہوں نے سر سے ٹوپی اتاری کوٹ کی جیب سے رومال نکال کر سر اور منہ صاف کیا۔پھر کہا‘ آپ کے دلائل کے جواب میں میرے پاس کوئی عذر نہیں ۔ اس کے باوجود میں پاکستان میں سیاسی جماعت بناؤں گا نہ ہی آزاد کشمیر کی سیاست چھوڑوں گا۔اگر ایسا کیا تو کشمیر میں الحاق پاکستان کا کیمپ کمزور ہو گا ۔مزید کہنے لگے میں آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ سمجھتا ہوں۔اسی لیے پاکستان کی مسلح افواج کو کشمیریوں کا نجات دہندہ اور محسن بھی۔میں اس بیس کیمپ کو چھوڑ نے کی قیمت پر پاکستان کے اقتدار کی خواہش نہیں کر سکتا۔
آج ہر جگہ سیاست پیسے کے ذریعے اور پیسے کے لیے ہو رہی ہے۔مجاہد اوّل کی سیاست کے دو پہلو آج کشمیر ی لیڈر شپ میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔
پہلا سردار قیوم صاحب نے نہ غازی آباد میں محل بنایا‘ نہ ہی اسلام آباد میں محل سرا۔ان کی ساری سیاست کا مرکز مری روڈ پر بارانی زرعی یونیورسٹی کی بغل میں واقع کاکا جی ہاؤس کا ایک کمرہ تھا۔ان کی سیاست کے پاکستانی امین ان کے دوست تھے‘ جو اسی کمرے میں بیٹھ کرکامیاب درویشانہ سیاست اور حکمرانی کا چشم دید نظارہ کرتے ۔جو دنیاوی تعلیم میں اپنے دور کے لیڈروں سے پیچھے تھا‘ لیکن دنیا داری کا شہنشاہ۔ فقر اور درویشوں کا خادم ۔اس کا ایک عکس ان کے مرحوم بیٹے اسرار میں بھی تھا‘جو سالہا سال کاکا جی ہاؤس کی مسجد کی بالکونی کا رہائشی اور تادمِ مرگ اپنے والد کا تابعدار اور ارجمند بیٹا تھا۔مجاہد اول ایک ایسے وقت میں جدا ہوئے جب مقبوضہ کشمیر میں الحاق پاکستان کے جذبات جوبن پر ہیں۔ہر روز بھارت کے اندر کسی یونیورسٹی سے پاکستانی پرچم برآمد ہوتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے طالب علم مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔آج میر واعظ سے علی گیلانی تک سب کے جلسے پرچمِ ستارہ و ہلال کے علمبردار وں سے سجتے ہیں۔آزاد کشمیرکے لیڈروں کے پاس تحریکِ آزادی کو مہمیز لگانے کا اس سے اچھا وقت کوئی نہیں۔ کشمیر پر بھارتی قبضے کے 62سال بعد پہلی مرتبہ دو طاقت ور آوازیں کشمیر کی آزادی کی جدو جہد کے حق میں بلند ہوئیں۔پہلی انسانی حقوق کے سب سے بڑے چیمپئن ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اٹھائی ۔ایمنسٹی نے بھارتی فوج کو آبرو باختہ قرار دیا۔ ایفسپا قانون کو انسانی حقوق کا دشمن ۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی مخالفت بھی کی۔اقوام ِمتحدہ اور بان کی مون کی زبانوں پر تالے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر میں حریت دشمن اور انسان کش بھارتی قانون کو مسترد کیا ہے۔ایسے ماحول میں پاکستان کے وزیراعظم کے لیے نادر موقع تھا کہ وہ شنگھائی کانفرنس میں پاکستان کا مقدمہ بھر پور طریقے سے لڑتے۔مگر پاکستان میں بر سر اقتدار کشمیری لیڈر وں نے کشمیر کے لیے ڈَٹ جانے کے وقت پیچھے ہَٹ جانے کا فیصلہ کیا۔غالباََ وہ ''مجاہد آخر‘‘ نہیں بننا چاہتے۔
وزیراعظم پھر مودی کے رُعب میں آ گئے۔نہ ان کی زبان سے لفظ کشمیر نکلا ۔نہ انہیں اپنے اجداد کی زمین پر بہنے والے مظلوم لہو کی یادستائی۔ ایفسپا اور بھارتی فوج کے وہ مظالم جن کے خلاف ایمنسٹی اور امریکہ تک چیخ اٹھے‘ سرے سے نواز شریف صاحب کے ایجنڈے پر ہی نہیں تھے۔ 
میرے کشمیر اے وادیِ محتشم 
تجھ پہ جب سے پڑے غاصبوــں کے قدم
تیری تاریخ قصۂ جَوروسِتم
وادیٔ مہرباں، اے کہ جنت نشاں
تیرے رنگین جلوے کدھر کھو گئے
تیرے پربت کے نغمے کہاں سو گئے
تیرے آنگن سدا، اک قیامت بپا
اور تری جھیل ڈَل، خونِ آدم سے تھل... 
طویل نظم سرِ وادیِ کشمیرمیں نے سعودی عرب میں کہی‘ جہاں مجاہد اوّل کے چھوٹے بیٹے اسرار میرے کلاس فیلو تھے۔میں نے نظم مجاہد اوّل کو بھجوائی ۔ انہوں نے اسے وانی صاحب کے روزنامہ ''کشمیر‘‘ جو نشاط سینما چوک سے شائع ہوتا تھا میں چھپوا دیا۔مجاہد اوّل کو یہ نظم میرے منہ سے تحت للفظ سننا بہت پسند تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں