دھاندلی کمیشن کی رپورٹ پر ہمارے دوست چودھری نثار علی خان کا تبصرہ قابلِ توجہ ہے۔کہا، کمیشن رپورٹ فریقین کے لیے سبق ہے۔
ذرا سوچئے! 21 سیاسی جماعتوں کے لیڈرہاتھ لہرا لہرا کر کہہ رہے تھے دھاندلی ہوئی ہے۔ ہر کسی نے علیحدہ علیحدہ کہا، میرے ساتھ سب سے زیادہ ہوئی۔ وزیراعظم نواز شریف نے تو یہاں تک ارشاد فرمایا: دھاندلی کیا، میرے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا۔ ہر سیاسی جماعت دھاندلی الزام کا سودا بیچنے کے لیے سرپٹ دوڑ پڑی۔ آج آدھے سے زیادہ یو ٹرن لگا گئے ماسوائے عمران خان کے، جن کا دھاندلی کے بارے میں مؤقف آج بھی وہی ہے جو2013ء میں تھا۔ غورکرنے والی بات یہ ہے کہ دھاندلی کمیشن رپورٹ نے جھوٹا کس کو کہا۔ الزام لگانے والے ساری سیاسی جماعتوںکے معتبر لیڈر ہیں۔ دوسری جانب جے سی آر آنے تک آراوز اور الیکشن کمیشن کے ممبران چُھپ چُھپا کر گزارہ کرتے رہے۔ اب اگر آواز آئی ہے'' چل جھوٹے‘‘ تو سب پیچھے مُڑ مُڑ کر کیوں دیکھ رہے ہیں؟
صدارتی آرڈیننس کی کوکھ سے جنم لینے والے دھاندلی کمیشن کا پہلا اجلاس تھا۔
اس سے ایک دن پہلے عمران خان صاحب کا فون آیا ،کہا آپ سے مشورہ کرنا ہے اور آج ہی۔ طے شدہ وقت پر بنی گالا پہنچا تو لیڈر شپ اور وکلا موجود تھے۔ میں نے قانون کی کتاب نکالی اور بتایا کہ ایسی دھاندلی جس کے ذریعے پورا الیکشن کمیشن جا سکے اس کے دو قوانین 1976ء کے عوامی نمائندگی ایکٹ میں موجود ہیں۔ پہلی دفعہ 70اور دوسری 103AA۔ دھاندلی کمیشن کے پاس مسئلہ کیا تھا اورکارروائی کے دوران ہوا کیا ، اسے سمجھنے کے لیے قانون کی ان دفعات کو غور سے دیکھنا ضروری ہے۔
عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976ء کی دفعہ 70 الیکشن کو کالعدم قرار دینے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت ٹربیونل کسی بھی الیکشن کو مکمل طور پر کالعدم قرار دے سکتا ہے، اگر اس کو اطمینان ہو جائے کہ انتخابات مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر متاثر ہوئے ہیں: ''کوئی شخص ایکٹ کی یا رولز کی پابندی کرنے میں ناکام ہو گیا ہے یا الیکشن کے عمل میں بدعنوانی اور غیر قانونی معاملات دَر آئے تھے‘‘۔
اسی قانون کی دفعہ 103AA الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ اختیاردیتی ہے کہ وہ کسی بھی الیکشن کو جس کا نتیجہ جاری ہو چکا ہو‘ مختلف صورتوں میں کالعدم قرار دے دے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹربیونل کے اضافی اختیارات بھی سونپے گئے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ الیکشن کمیشن کا یہ اختیار آئین کے آرٹیکل 225 کے باوجود بھی متاثر نہیں ہو سکتا۔
جے سی آر والا فیصلہ اب قوم اور تاریخ کی امانت ہے۔ اس پر تبصرہ بھی ہو گا، مباحثہ بھی اور اختلافِ رائے بھی۔ لیکن بدقسمتی سے کہنا پڑرہا ہے کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف نظریہ ضرورت دوبارہ زندہ ہوا بلکہ دھاندلی کرنے والے ہیرو بننے کی کوشش میں ہیں۔
اسی طرز کی ایک اور نورا کشتی ''ایکسرسائز‘‘ قوم کا پیسہ اور وقت برباد کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی میں ہو رہی ہے، جس کے بارے میں سرکار پوری سنجیدگی سے غیر سنجیدہ ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس کے عرصہ اقتدار کے بقیہ ڈھائی سال کمیٹی کمیٹی کھیلتے گزر جائیں۔ اس مقصدکے لیے حکومتی ارکان میٹھے میٹھے ہو کر سرکاری سینڈوچ کھلانے سے آگے جانے کے لیے تیار نہیں اور اس کی ایک وجہ سارے اداروں کو معلوم ہے۔ جنرل ضیا کی آمریت نے اپنی نرسری میں تیار کردہ لیڈروں کو دھاندلی کی باقاعدہ تربیت دی تھی ، اس لیے کچھ لوگ ہر الیکشن میں سیٹ نکال جاتے ہیں۔ ان کے اکثر ووٹ ایسے ہیں جن کوحلقے کے ووٹر بھی نہیں جانتے۔ دوسری یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جس ملک میں عدالتی طور پر طے شدہ مجرم، بینک ڈیفالٹر،کرپٹ ،لینڈ مافیا کے کارندے اور منی لانڈرنگ کے بادشاہ پارلیمینٹ کا حصہ ہوں، وہاںکونسی انتخابی اصطلاحات اور کونسی آئینی ترمیم یا نیا قانون، انتخابی دھاندلی کا راستہ روک سکتا ہے۔ فرض کیجیے، آئین میں ترمیم کر کے لکھ دیا جائے کہ جو دھاندلی کرے گا اسے سزائے موت دے دی جائے گی تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا ، کیونکہ آئین میں پہلے سے ہی لکھا ہوا ہے کہ جو شخص صادق ، امین اور راست باز نہیں وہ قومی نمائندہ منتخب نہیں ہو سکتا۔کیا آج تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹے، عوام سے وعدے کر کے مُکر جانے والے سب سے بڑے دھوکہ باز سیاستدان اور ناجائز پیسے والے پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی بھاری اکثریت آپ کو باہر کہیں نہیں مل سکتی۔ یہ سارے پارلیمنٹ میں ہیں۔ پھر فصیح بخاری نے2013ئکے الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ڈیفالٹروں ، سزا یافتہ مجرموں اور کرپٹ لوگوں کی جو فہرست دی تھی اس میں لکھے ہوئے سارے نام پھر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ثابت ہو گی لیکن یہ سچ ہے، پاکستان دنیا کے ان درجن بھر ممالک میں سے ایک ہے جہاں پیدا ہونے سے لے کر مرنے کے بعد تک کے قوانین موجود ہیں، لیکن یہ قوانین غریبوں کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں لا سکتے۔ انقلاب تو دور کی بات، ہلکی سی تبدیلی بھی نہیں۔ ایسے میں جتنے مرضی نئے قانون بن جائیں اور دل چاہے توپورا آئین ترامیم سے بھر دیا جائے، دھاندلی پھر بھی دھاندلی ہے، اسے ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
آج کل انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بڑی مقبول ہوئی ہے جس میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ بچوں کو کامیاب زندگی گزارنے کے گُر سکھا رہے ہیں۔ موصوف نے قوم کے مستقبل کو کامیاب مستقبل کے جو راز بتائے وہ یہ ہیں:
نمبر ایک۔۔۔۔بچو! کرپشن کرپشن ہے، وہ ہوتی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔
نمبر دو۔۔۔۔کرپشن کو ہّوا نہ بنایا جائے یعنی کون سا ادارہ ،کون سی کمیٹی،کیسی پارلیمینٹ ، کیسا احتساب۔ ہر طرف خریداروں کا شور، ہر جگہ لوٹ کا بکاؤ مال پڑا ہے۔ اس لنڈا بازار میں نعرے بازی کا کھوٹا سودا بِک رہا ہے۔
نمبر تین۔۔۔۔کرپشن پر احتساب کرنا عوام کا حق ہے۔
ایک جانب نعرہ بازی، ایک جانب انقلاب
دیدنی ہے، معرکہ آرائی کا جوش و شباب
کیا مزے کی بات کی ہے، واقفانِ حال نے
بعض چہرے رفتہ رفتہ، ہو رہے ہیں بے نقاب
جو کبھی یک جا تھے، ان میں ہو رہی ہے تو تکار
ڈھل رہا ہے، شہر یاروں کا سیا سی آفتاب
یہ الگ شہ ہے، کوئی وعدہ کبھی ایفا نہ ہو
آئے دن وعدے کیے جاتے ہیں، لیکن بے حساب
ذرا زور سے بولو۔۔۔۔چل جُھوٹے۔