بم پروف، کالے شیشوں والی، قیمت4کروڑ سے زیادہ سکّہ رائج الوقت‘ بی ایم ڈبلیو کار سٹارٹ ہوئی۔ڈرائیونگ سیٹ پر وی آئی پی شوفر کی بجائے ایک بیوروکریٹ بیٹھا تھا۔ رات11بجکر 5منٹ پرکار مدھم روشنی میں چیڑ کے درختوں میںگِھرے بڑے گھر سے نکلی۔ محض 7منٹ کی ڈرائیوکے بعد بی ایم ڈبلیو پنجاب ہاؤس کے عقب میں جا پہنچی۔سامنے والے گھرکے گیٹ کیپر نے کار کو اندر آنے کا اشارہ دیا ۔گاڑی اندر گئی اور ساتھ ہی گیٹ بند ہو گیا۔
یہ پاکستانی ''مشن امپاسیبل‘‘ تھا ۔جسے ممکن بنانے کے لیے وفاق کے ایک ترقیاتی ادارے کا سابق سربراہ ''سہولت کار‘‘ کے کردار میں گھر کے اندر موجود تھا۔ تھوڑی دیر میں گھر کا دروازہ کھلا اور ''مہمان‘‘ وی آئی پی چال چلتا باہر نکلا۔ اچانک بیرونی گیٹ کے سامنے مارگلہ کے سازشی گیدڑوں نے شور مچا دیا۔یہ ''مِڈ نائٹ جے کالز‘‘ بین کرنے کے انداز میں رونے کی آواز یں نکال رہے تھے۔یوں لگا جس طرح انصاف کے جنازے کو روک رہے ہوں۔ ''مہمان‘‘ تیزی سے مڑا اور گیدڑوں کے رونے کی آواز کے ساتھ ہی گھر کا دروازہ پھر سے بند ہوگیا۔
تھوڑی دیر بعد پنجاب ہائوس کی عمودی سڑک پر سناٹا چھا گیا۔ گیٹ کیپر نے اندر والے دروازے پر جا کر سب اچھا کی اطلاع دی۔ ساتھ ہی ترقیاتی ادارے کا سابق سربراہ دروازہ کھول کر پھرکھڑا ہوا۔ اس دفعہ ''مہمان‘‘ بہت محتاط اندازمیں تیز قدموں سے کالی کار کی جانب بڑھا۔ چیئرمین نے پِچھلا دروازہ کھولا ''مہمان‘‘ کو بٹھایا خود ڈبل ''ف‘‘ کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوا اور گاڑی بھاگ نکلی۔ گاڑی اس رفتار سے دوڑی جیسے فرانس کے ہوٹل سے نکلتے وقت لیڈی ڈیانا کی کار ٹی وی کیمروں سے بچنے کے لئے بھاگی تھی۔
کالی کار 5 منٹ بعد ایک بار پھر بڑے گھر کی چڑھائی چڑھ رہی تھی۔ پہلے ناکے پر گاڑی کو اچانک بریک لگی۔ دو سنتری اُونگھ رہے تھے ۔جبکہ تین موبائل کے ''نائٹ پیکج‘‘ میں گم ۔ کالی کار کے بریک لگانے کی وجہ سنتری نہیں تھے۔ بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی کے آگے مڈ نائٹ جے کالز( نصف شب کے گیدڑ) تھے۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ وہی گیدڑ تھے جنہوں نے مہمان کے دروازے پر انصاف کے جنازے کے لئے بین کیے یا ان کے کوئی تعلق دار وغیرہ۔راوی نے ان گیدڑوں کے حوالے سے ایک عجیب بات کہی۔ وہ سارے کالی کار کے ''مہمان‘‘ پر دانت نکال کر ہنس رہے تھے ۔ان میں سے نہ کوئی رویا نہ کسی نے دھاڑیں ماریں۔ ان کے اس مزاحیہ انداز سے چشم دیدگواہ بھی لطف اندوز ہوئے ۔بلکہ موبائل فون چھوڑ کرسنتری بھی ہنسی میں شریک ہو گئے ۔ایسے لگا مہمان یامڈنائٹ جے کالز کچھ عرصے بعد شہر چھوڑ نے والے ہوں۔
بڑے گھر کے اندر مہمان کا استقبال ایک ''گُرگِ باراں دیدہ‘‘ نے کیا۔اُس کے ساتھ مشہورچیلا بھی تھا۔یہ ملاقات بھیڑیوں جیسی تھی جس میں دونوں طرف سے دانت نکالے جاتے ہیں۔ خون آلود مسکراہٹ کے ساتھ۔ بڑے گھر کے رہائشی علاقے میں چھوٹے کمرے کا دروازہ کھلا اور گُرگ ِباراں دیدہ نے مہمان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ گھر کے سب سے ''بڑے‘‘ کو بتانا چاہتا تھا یہ اپنا بچہ ہے ۔برخوردار اور تابعداربھی۔
مہمان بیٹھا رہا۔کافی دیر بعد میزبان فرضی گفتگو کارڈ لیس فون پر کرتا ہوا کمرے میں آیا۔وہ کہہ رہا تھاسر آپ کی سر پرستی میں مسئلہ حل ہو گیا۔پھر مہمان کو متاثر کرنے کے لیے اس کی طرف مُڑااور کہا... سر وہ میرے سامنے بیٹھے ہیں۔پھر میزبان نے اونچی آواز میں ٹی وی لگایا۔جس پر چاروں شرکاء نے خون آشام مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔تقریباََ90منٹ بعد کمرے کا دروازہ دوبارہ کھل گیا اورتلوار ٹوٹ گئی، دوسری مرتبہ۔پہلے بھی گُرگِ باراں دیدہ نے جیب کتروں کے سر پرست کی طرح بڑی مہار ت سے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ملزم کو ''بچہ سقّہ‘‘ بنایا تھا۔سالوں بعد وہی ٹیم پھر اکٹھی ہوئی۔ ''بچہ سقّہ- 2‘‘ پہلی میٹنگ میں موجود نہیں تھا۔ یوں لگا یہ سارے پیدائشی کزن ہیں۔ ''ڈن ڈیل‘‘ کے بعد اچھے مستقبل کی امید نے ضمیر کوپچھاڑ کر لمبا ڈال دیا ۔
کالی کار آگے آئی ۔سابق چیئر مین نے پھر اس کا دروازہ کھولا ،چاروں کار کی جانب بڑھے ۔ایک دفعہ پھر مارگلہ کے گیدڑ آہ وزاری کرنے لگے۔لیکن اس مرتبہ نہ تو دروازہ دوبارہ بند ہوا ، نہ کوئی پریشان۔مِڈ نائٹ جے کالز مسلسل بین کرتے رہے۔راوی کولگا جیسے گیدڑ کالے شیشے والی کالی کارکو سی ڈی اے کی بس سمجھ بیٹھے ہیں۔وہ کالی بس جس میں تابوت مع میت رکھاجاتا ہے ۔اور جونہی کسی سیکٹر میں داخل ہوتی ہے لوگ با آواز بلند ''اوہ...ہو... بیچارہ مر گیا‘‘ کہتے ہیں۔
دوسری جانب مشرقِ بعید کے ایک مشہور دارالحکومت میں بینک کے افسران ڈیسک پر سر جوڑے کھڑے تھے۔موت جیسی خاموشی میں بینک کمپیوٹر کاڈیسک ٹاپ اور کی بورڈ بولتے نظر آئے۔کی بورڈ پر پڑنے والی انگلیاں اور کمپیوٹر سکرین پرظاہر ہونے والی گنتی تھوڑی دیر میں کنفرم ہو گئی۔بڑے گھر کے میزبان نے گُرگِ باراں دیدہ کی طرف اُکتادینے والی مسکراہٹ سے دیکھا۔اس کا کشادہ ماتھا سُکڑ کر تنگ ہوتا چلا گیا۔باڈی لینگویج کہہ رہی تھی کہ اب جاؤ بھی۔گُرگِ باراں دیدہ نے اکتاہٹ کو یکسر نظر انداز کیا اور بولا ویل ڈن۔مجھے آپ کے ساتھ وہاں بیٹھ کر کام کرنے میں بڑا مزہ آئے گا ۔گُرگِ باراںدیدہ کاا شارہ قصرسفید کی طرف تھا۔جو بڑے گھر کے فٹ پاتھ سے بھی نیچے کی طرف دکھائی دیتا ہے۔جہاں مملکت کے علاوہ باقی سارے کام ٹھیک ٹھاک چلتے ہیں۔راوی خود کلامی کے انداز میں بولا، اچھا تو اب پتہ چلا گُرگِ باراں دیدہ اپنے ''غول‘‘ کو اکٹھا کرنے کے لیے کبھی25دسمبر کبھی23مارچ کبھی 14اگست کی تاریخیں کیوں ڈال رہا تھا۔اتنی دیر میں میزبان کے اشارے پر گُرگِ باراں دیدہ کی دونوں گاڑیاںسامنے آکر پارک ہو گئیں۔ایک عہدے کے عوض مفت ملنے والی ۔دوسری بُلٹ پروف خدمات کے بدلے سرکار کی عطا۔
نوٹ: اس افسانے میں مہمان، راوی، مڈ نائٹ جے کالز، میزبان،گُرگِ باراں دیدہ،قصرِ سفید،بڑا گھرسمیت تمام واقعات و شخصیات ''حسنِ اتفاق‘‘ سے کسی پر فٹ آئیں تو کالم نگار اس کا ذمہ دار نہیں ؎
ہر اک شاخِ تمنّا جل رہی ہے
مری بندوق مجھ پر چل رہی ہے
اگر کہتے ہیں ہم قاتل کو قاتل
تو اُن کو بات یہ کیوں، کَھل رہی ہے؟