"SBA" (space) message & send to 7575

سسٹرز‘ ڈاکٹرز اور زنجیرِ عدل

لاہور میں مال روڈ اور صوبائی اسمبلی کے سامنے موجودہ جمہوریت نے کئی دفعہ ڈاکٹروں کے سر پھاڑے۔نرسز جن کو بجا طور پر سسٹرز کہا جاتا ہے انہیں بر سرِ عام گھسیٹا گیا۔لیکن اسلام آباد بچا ہوا تھا۔یہاں صرف پارلیمینٹ کو ایاز صادق کی قیادت میں یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ شاہراہِ دستور پر پولیس تشدد سے شہریوں کے قتل پر بھی مفاہمت کی چادر اوڑھے خاموشی سے بیٹھی رہی۔
اسلام آباد کے ہڑتالی ڈاکٹروں اور نرسوں کو وہی طعنہ دیا جا سکتا ہے جو 126روزہ دھرنے کے دوران عمران خان کو ملتا رہا۔یہی طعنہ اپنے حقوق کے لیے جدو جہد اور مزاحمت کرنے والے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشنز کو دیاجاتا ہے۔اور وہ یہ کہ انہیں مریضوں کے بجائے اپنی تنخواہ کی پڑی ہے۔ایسا کہتے وقت ٹی وی پر بیٹھے ہوئے بعض تجزیہ کار،اینکر ،نیوز کاسٹر اور سرکار کے گماشتے سادھو ،سنت اور جوگی لگتے ہیں۔ جن کو دولت اور دنیا دونوں سے پیار نہیں۔ڈاکٹروں اور سسٹرز کی ہڑتال پر ڈاکٹر گردی اور نرس گردی کے نعرے بلند کرنے والے اکثر بے لوث وہ ہیں جو تنخواہ کے پیکج میں 10ہزار روپے اضافے کے اصولی مؤقف پر ایک سال میں5,4میڈیا ہاؤسز کا طواف کرکے مستقل مزاجی کا ثبوت دیتے ہیں۔ سرکارنے ایسے ہی مستقل مزاج حملہ آوروں کے پیچھے چھپ کر سسٹرز اور مسیحاؤں کو ہڑتالی غنڈے قرار دیا۔جن دنوں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پی آئی ایم ایس) کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا۔تب موجودہ حکومت کے چیدہ چیدہ ارکان پی آئی ایم ایس کے ہڑتالی ڈاکٹروں اور سسٹرز سے ان کے مظاہروں میں خطاب کرنے آتے۔وہ انہیں یقین دلاتے رہے پی پی پی کی حکومت جاتے ہی ڈاکٹروں کی مراعات برطانیہ والی،تنخواہ امریکہ والی اور اوقات ِکار جرمنی والے ہو جائیں گے۔ہاں البتہ نرسز سے خطاب کرتے ہوئے نجانے کیوں وہ انہیں پیرا میڈک تو کہتے لیکن ''سسٹرز‘‘ کہنے سے ہچکچاتے ہیں۔ 
شاہراہِ دستور کی جس قدربے توقیری موجودہ مفاہمتی جمہوریت اور تابعدار اپوزیشن کے دور میں ہوئی اس کی مثال 1973ء کے آئین کے نفاذ سے لے کر آج تک کسی دور میں نہیں مل سکتی۔اور اس کا اصلی سبب سُرخ لائٹ ایریا ہے، جسے ریڈزون کا نام دیا گیا۔اس زون میں ارکانِ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی شاندار رہائش گاہیں ہیں۔وزراء کی شاہانہ کالونی بھی۔ وی آئی پی ججز کالونی ۔سب سے بڑھ کرغریب قوم کے صدرکا وائٹ ہاؤس اور قلاّش معیشت والے ملک کے وزیراعظم کے قصر الملکی جیسے محلات واقع ہیں۔یہ ریڈ زون ایک ایسے خوفزدہ وزیر داخلہ کے ذہن کی اختراع تھی جس نے کوئین آف انگلینڈ کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ جو ہر روز قوم کو خوشخبری دیتا تھا کہ فلاں شہر میں اتنے دہشتگرد اور اس قدر خود کش داخل ہو گئے ہیں۔وہ یہیں نہیں رکا وہ مزاحیہ خبریں بھی چلواتا تھا‘ مثلاً صدر کی ذات اور اس کی زندگی کو خطرہ ہے ۔اس مینڈکی کے زکام کا عالم وہی رہا جو مینٹل ہسپتال کے مریض کا ۔مریض نے کہا قوم کے مستقبل کو خطرہ ہے ۔سسٹرز نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا قائداعظم چلے گئے‘ لیاقت علی خان شہید ہوئے‘ قائد ِ عوام کو عدالت نے قتل کیا۔پرسوں سے مجھے بھی زکام ہے اس قوم کا کیا بنے گا؟ اس پس منظر کے ساتھ بنائے گئے ریڈ زون میںباری باری اساتذہ، استانیوں ،سیاسی کارکنوں،او جی ڈی سی ایل کے مزدوروں، تاجروں اور وکلاء کا خون بہایا گیا۔اتنی لمبی خون آلود ''سڑیک‘‘ کے بعد اب وفاقی دارالحکومت کے ڈاکٹروں اور سسٹرز کے خون سے ریڈ زون کو مزید سرخ کیا گیا ۔
یہاں ایک بات وضاحت طلب ہے‘ وہ یہ کہ حکومت کا کہنا ہے ڈاکٹرز اور پیرا میڈک سٹاف ذوالفقار علی بھٹو شہید ہسپتال کا خاتمہ چا ہتے ہیں۔ان کے خیال میں نام بدلنا ایک نازک معاملہ ہو گا ۔جس پر سرکار ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف عوامی جذبات ابھار نا چاہتی ہے‘ جبکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ڈاکٹر ز یا پیرا میڈکل سٹاف کی کسی تنظیم نے یونیورسٹی کے نام پر سرے سے کبھی اعتراض اٹھایا ہی نہیں‘ وہ تو کہتے ہیں پی آئی ایم ایس کو پرائیوٹائز نہ کیا جائے اور جو لوگ ہڑتال پر ہیں ان کا مطالبہ انتہائی جائز ہے۔جو میڈیکل رسک الاؤنس مانگ رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا بے شمار دفعہ ''آن ڈیوٹی‘‘ ڈاکٹرز خواتین و حضرات اور پیرا میڈک سٹاف کے لوگ ایسے مریضوں کی جان بچانے کی کوشش کے دوران خود موت کے منہ میں چلے گئے‘ جنہیں چھوت سے لگنے والی بیماری تھی۔ پھر وقتاً فوقتاً نئے نئے وائرس سامنے آتے رہتے ہیں‘ جن کی وجہ سے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہر وقت ''میڈیکل رسک‘‘ کے زیرِ سایہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لیے قوم کے مسیحاؤں اور سسٹرزکے خلاف ریاستی دہشتگردی کے الزام کے بعد حکومت نے مذاکرات کا دروازہ کھولا۔اس سے پہلے 30 باعزت عورتیں‘ مرد زخمی اور درجنوں گرفتار کیے گئے۔پی آئی ایم ایس کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈک سٹاف کا مؤقف آئینی بھی ہے اور قانونی بھی۔
اس کا ایک اور پہلو ذرا دیکھ لیں۔خودتو حکمران'' سکیورٹی رسک‘‘ کی وجہ سے ریڈ زون میں کسی کو گُھسنے ہی نہیں دیتے‘ عوام کی جوتیوں کے صدقے اقتدار ملنے کے بعد حکمرانوں کو سکیورٹی رسک کا بخار لاحق ہو جاتا ہے۔لیکن ہسپتالوں میں تو خود کش دھماکے بھی ہوچکے۔مریضوں پر گولیوں کی بوچھاڑ تک۔ڈاکٹروں پر پتھراؤ کی بارش جیسے مسلسل واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔جو حکمران اپنے اللے تللے پر محمد شاہ رنگیلا سے زیادہ توجہ دیتے ہیں‘ اپنے شاہی جاہ و جلال پر اکبر اعظم جلال الدین محمد اکبر سے زیادہ خزانہ لٹا رہے ہیں انہیں ڈاکٹروں اور سسٹرز اور پیرا میڈک کے میڈیکل رسک الاؤنس کے ساتھ آخر چِڑ کیا ہے؟
یوں لگتا ہے جس طرح پاکستان کاا ختیار اور خزانہ پائیرٹ آف کیریبین کے ہاتھ میں ہے۔ہر سوال کا جواب بندوق اور ہر مطالبے کا جواب ٹیکس +مہنگائی ۔پنجاب کے کلرک سڑکوں پر ہیں‘ کسان احتجاج پر‘ تاجرانہ حکومت کے خلاف اصلی تاجر ہڑتال پر۔ حکمرانوں کے آقا امریکہ کے اخبار لکھتے ہیں، خاندانی جمہوریت کمال کر رہی ہے۔ جتنے قرضے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے ڈھائی سالوں میں پاکستان کو دیئے اس کی دنیا میں دوسری کوئی مثال نہیں۔قرض حکمرانوں کی عیاشی پر لگتا ہے۔آج ڈاکٹر کی تنخواہ پولیس والے سے بھی کم ہے۔اسی لیے سینکڑوں ڈاکٹرز پولیس میں جا چکے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ سارے ڈاکٹر زپولیس میں چلے جائیں ۔حکومت اپوزیشن میں پہنچے تو آگے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو۔ 
عبیر ابوزری نے خوب کہا تھا:
پِچھوں کردا پھراں ٹکور تے فَیدا کی؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں