جنگِ ستمبر میں لاہور چونڈہ سے کھیم کرن تک پاکستان کو فتح مبین ملی۔ اس عظیم عسکری اور قومی فتح کے بارے میں پورا پاکستان یکسو ویک زبان ہے۔ عالمی ناقدین نصف صدی میں اتنا کہہ سکے، جنگ پاکستان بھارت میں برابر رہی۔کسی نے کبھی پاکستان کی شکست والی ہرزہ سرائی نہیں کی۔سوال یہ ہے کراچی یونیورسٹی میں مودی کی زبان کس نے بولی...؟ کس کی اجازت اور آشیر باد سے...؟
کچھ لوگ پاکستان کی مخالفت کے نام پر ہندوتوا اور مودی کی سفارتکاری کرتے ہیں۔اب تو نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ بحث چھڑ گئی ہے اس لیے سرزمین کا فرزند ہونے کے ناتے میرا فرض ہے کہ اپنے دلائل کا وزن پاکستان کے حق میں ڈالوں۔
گزشتہ دنوں جامعہ کراچی میں قومی امورپرمذاکرہ ہوا۔جس میں ایسے شخص کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی جو عرصۂ دراز سے بیرون ملک رہتا ہے ۔اس کا زیادہ وقت کہاں گزرا معلوم نہیں۔حالیہ6ستمبر کو پوری قوم پاکستانی قومیت کے جذبے میں سرمست تھی ۔دوسری طرف مسٹر زیدی نامی شخص کراچی یونیورسٹی کے ایک شعبے کو ''چھوٹا بھارت‘‘ سمجھ کر خطاب کر رہا تھا۔نقل ِکفر‘کفر نہ با شد ۔ اس کے الفاظ یہ تھے۔
''65ء کی جنگِ ستمبر میں پاکستان کو جیت نہیں ،بلکہ بھارت کے مقابلے میں عبرتناک شکست ہوئی‘‘۔
پاکستان کے خلاف چھوٹے بھارت میں یہ اعلان ِ جنگ کئی اہم سوال اٹھاتا ہے۔مثال کے طور پر مسٹرزیدی نے جنگ ستمبرلڑی؟ کس فوج کو کمانڈ کیا؟ کس وار کالج میں عسکری تربیت حاصل کی؟ اس کے پاس پاکستان کی فتح کو شکست میں بدلنے کے اعلان کا کون سا جواز، کیسی تحقیق یا کو ئی ڈیٹا ہے؟
نمبر دو، کراچی یونیورسٹی سرکاری فنڈز کے سہارے چلتی ہے۔کیا اس کا وائس چانسلر بھی شریکِ جرم ہے؟ اگر نہیں تو اس نے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے والے کو جامعہ میں گھسنے کیسے دیا؟ اسے بلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟
نمبر تین،جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں‘پاکستا ن کا کھاتے ہیں یا پاکستانی پاسپورٹ سے فوائد اور تخفظ حاصل کرتے ہیں‘ اگر انہیں بھارت کی شکست کا اتنا ہی صدمہ ہے تو وہ Love Pakistan or Leave it کے فارمولے پر عمل کریں۔اس سرزمین سے محبت نہیں کر سکتے تو اس کی جان بخش دیں ۔ انہیں بھارت جا کر ''2نمبرشہریت‘‘ والا انعام وصول کرنے کی اجازت ہے۔
نمبر چار،دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے عوام میں اردو 7فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے۔اس کے باوجود بلوچستان کا عطاء شاد،کے پی کے کا احمد فراز ،پنجاب کا فیض احمد فیض اوراکثر عوام اردو بولتے ہیں۔حالانکہ سب کی مادری زبانیں مختلف ہیں۔ پھر لسانی و زبانی سیاست کا مطلب۔۔۔؟
نمبر پانچ‘یہ بھی بوجھل دل سے کہنا پڑا کہ ہجرت 1947ء میں ہوئی ۔بعد میں بے شمار کاروباری لوگ پاکستان کو مواقع کی سرزمین (Land of Opportunity) جان کر کراچی آ بسے۔ کچھ عناصر صرف سندھی ثقافت پر حملہ آورنہیں بلکہ پاکستان اور اس کے ادارے بھی ان کے نشانے پر ہیں۔انہیں کس نے منع کیا ہے کہ وہ اپنی آشاؤں اور تمناؤں کے دیش بھارت واپس نہ جائیں‘یاا نہیں کس نے حق دیا ہے کہ وہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دے کر اس کی برتری کی تبلیغ کریں اور ساتھ عوام کے جذبۂ حب الوطنی کی توہین کرتے پھریں۔
اگلا سوال یہ ہے کہ انہیں پاکستان کی سالمیت پر حملہ آور ہونے کا لائسنس کہاں سے جاری ہوا۔جویہ سمجھے کہ پاکستان میں نہ وہ محفوظ ہے نہ اس کی نسل‘ اسے اپنی نسل محفوظ بنانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔بھارت میں گجرات سے چنائی ،تِلگو دیشم سے کشمیر تک، اقلیتیں جس قدر محفوظ ہیں وہی حفاظت ان کو بھی مل جائے گی۔ اگر نہیں توہندوتوا کے دروازے کھلے ہیں۔شُدّھی اور سنگھٹن کی طرح۔
کراچی یونیورسٹی جیسا سانحہ جب بھی رو نما ہوا، عام پاکستانی ضرور سوچتا ہے۔مثال کے طور پر یہی کہ جب نبی آخرالزماں اور محسنِ انسانیتﷺ نے حجاز کے مہاجرین کے لیے یثرب میں مواخات کا فیصلہ فرمایا تو مقصد کیا تھا۔مواخات کا پہلا مدّعا، لوگوں کی اقتصادی بحالی اور دوسرا جذبۂ ایثار کی قدر شناسی۔کیا پاکستان میں رہنے والے لوگ47ء سے ان نعمتوں سے محروم ہوئے۔اس کا ثبوت کسی نے دیکھنا ہو تو وہ بھارت سے پاکستان رشتہ داروں کو ملنے کے لیے آنے والوں کی معاشی حالت دیکھ لیا کرے۔دوسرے ، کیا پاکستان نے ایسے ناشکرے ناقدروں کو پناہ دے کر کوئی قصور کر دیا۔اگر پاکستان کواس حوالے سے کوئی عظمت کا مینار اور روشن ستارہ نہیں مانتا تو وہ ٹی وی سکرینوں پر لیبیا ،چاڈ،تیونس،الجزائر ،مراکش،شام،عراق ،سوڈان ، مصر کے بے خانماں لوگوں کو پڑنے والے دھکوں کی المناک تصویری خبریں دیکھ لے۔
پاکستان میں کونسا نظام ہو صدارتی یا پارلیمانی‘اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ریاستی امور کیسے چلائے جائیں یہ بھی ضروری مباحثہ ہے۔عوام کو شریکِ اقتدارکرنے کے طریقے کیا ہوں‘یہ سب سے اہم موضوع ہے۔ لیکن پاکستان کیوں بنا،یہ قائداعظم کا پاکستان نہیں، تقسیم کی لکیر دیوارِ برلن ہے‘ ایسا کہنا عوام کی توہین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔
میں کراچی یونیورسٹی کے چھوٹے بھارت والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے چچا ،ماموں ،پھوُپھا، کزن سے کہیں وہ بھارت کے کسی شہر میں کھڑا ہو کر کہے کہ ستمبرکی جنگ میں بھارت کو عبرتناک شکست ہوئی ۔چلیے وہ یہ کہہ دے کہ میں بھارت کی آئینی خود مختاری تسلیم نہیں کرتا۔وہ پاکستانی فوج کو بھارت پر حملہ کرنے کی دعوت ہی دے ڈالے۔یا بھارتی ٹی وی پر مسلح افواج کے خلاف نام لے لے کر طعنے،گالیاں اور دھمکیاں دینے والی ایک عدد تقریر کر ڈے۔ سب جانتے ہیں ان کا کوئی پُھوپھا، ماموں، چچا یا کزن ایسی تقریر کرنے کے بارے سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایک زمانہ تھا جب بانیٔ پاکستان کو کافرِ اعظم کہنے والے دلائل دیتے‘ ہم ہندوستان کی تقسیم کے مجرم نہیں۔وقت نے انہیں خوب سبق سکھایا۔آج وہ سارے تصویر اور خبر ڈھونڈتے ہیں‘ جس کے ذریعے بتا سکیں کہ ان کے اینٹی پاکستان یا کانگرسی ''بڑوں‘‘ نے قائداعظم سے کب ملاقات کی۔میں اسے بانیٔ پاکستان کی سچائی ، عظمت بلکہ فتح کہتا ہوں۔جو لوگ دور دیش سے بھی پاکستانی سیاست کو ریاست کی مخالفت سے چلانا چاہتے ہیں‘ وہ بھارت کی سیاست کر لیں ،برطانیہ یا پولینڈ چلے جائیں۔ پاکستان ان کا چوائس نہ سہی‘ مجبوری ہے ۔ کسی بھی دوسرے ملک میں ان کی اوقات کیا ہے‘ سب جانتے ہیں:
وطن، شعور ہے ننھی سی آبجوؤں کا
وطن، تو نام ہے لوگوں کی آرزؤں کا
وطن، پیالہ و ساغر نہیں جو ٹوٹا تو
دکانِ شہر سے جا کر خرید لائیں گے