"SBA" (space) message & send to 7575

ہاؤس آف کارڈز

بالآخر پتے بازی کا دوریا پھر زور کہہ لیں ختم ہوا۔بے یارومددگار نوجوان لڑکیاں ،لڑکے باہر نکلے اور انہوں نے تحتِ لاہور کا ہاؤس آف کارڈزگرا دیا۔ایک دوسرے گروہ نے پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی جمہوری،عوامی اور ترقی پسند تحریک کو مفاہمت کے نام پرمزید ایک اور سودے بازی کے لیے استعمال کیا۔نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ شہیدوں ،غازیوں اور مجاہدوں کی تاریخ رکھنے والی عظیم ترین تحریک کو ہاؤس آف کارڈ زمیں تبدیل کر دیا گیا۔یہ تاریخی کام یا کارنامہ باہر سے نہیں بلکہ اندر والوں نے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔
حلقہ NA-122کے دو بڑے نتائج تھے جن کا تذکرہ اوپر ہم نے مختصراًکر دیا۔اور بھی قابلِ ذکر نتائج سامنے آئے جو ذرا تفصیل مانگتے ہیں۔مثال کے طور پر۔اولاً،پنجاب میں جو سیاست ضیاء آمریت سے شروع ہوئی چھانگا مانگا کی نرسری میں پروان چڑھی۔بھوربن جاکر گملے کا پودا بنی۔اور سرور پیلس جدّہ سے تناور درخت بن کر واپس آئی۔اس پراوکاڑہ میں بناسپتی گھی کا کنستر بھاری نکلا۔تھوڑے دن پہلے ایک غیر سرکاری جج نے کہا اس الیکشن کو چھپانے میں الیکشن کمیشن بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔صاف نظر آنے والی مقبولیت کا منہ بولتا تازہ ثبوت۔ثانیاً،کونسا الیکشن ،کہاں کا کمیشن ،کون سے ضابطے، کیسے رولز ،آئین اور قانون سب کی دھجیاں ان اداروں کے گریبانوں میں پڑی لٹک رہی ہیں۔سپریم کورٹ نے الیکشن کے دو دن بعد دہرا دیا کہ وزیر الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکتے۔لیکن الیکشن کمیشن کو کوئی بے ضابطگی نظر نہیں آئی نہ ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لگائے ہوئے مفادات، نوکریوں،پلاٹوں اور انعامی پیکیج کے لنڈا بازار اور نیلام گھر نظر آئے۔اربوں ،کھربوں لگا کر2000ووٹوں کی'' فتح مبین‘‘ سے جوشفافیت نکھر کر سامنے آئی۔ اس کا نتیجہ کوئی اور خونی دھرنا تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے پاکستان میں فیئر ،فری ،ٹرانسپیرنٹ الیکشن کا خواب ہمیشہ کے لیے چکنا چور ہو گیا۔
اگلے روز برادرم ہارون الرشید صاحب کے فرزند کی شادی میں پہنچا۔ابھی آڈیٹوریم کے دروازے پر سیلفی کی فرمائشوں میں گھرا ہوا تھا کہ عمران خان کی ناہید خان یعنی عون چوہدری میرے پاس پہنچے۔بتایا عمران خان آڈیٹوریم کے آخری سرے پر بیٹھے ہیں اور مجھے یاد کر رہے ہیں۔عمران خان پہلے سے زیادہ پر عزم نظر آئے،گلے لگا کر زور دار معانقہ کیا اور پھر علیم خان سے ملواتے ہوئے کہا اس ہیرو کو جانتے ہیں۔ میں نے جواب دیا اس ہیرو کی شادی میرے گاؤں سے ہوئی ہے ‘‘ساتھ نعیم الحق اور گلوکار سیاستدان ابرارالحق بھی موجود تھے۔ 
کپتان نے بتایا گڑھی شاہو لاہور جا رہا ہوں۔پرسوں ملاقات کرتے ہیں۔اور ساتھ یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا الیکشن کے دوران ووٹ کا مقام تبدیل کیا جا سکتا ہے۔میں نے اختصار سے بتایا کہ جب شیڈول کا اعلان کر دیا جائے اسے قانون کی زبان میں Constituency is called upon to ellectکہا جاتا ہے۔یعنی جب کسی حلقہ انتخاب کے ووٹروں کو کال دے دی جائے کہ وہ ایک طے شدہ شیڈول کے مطابق الیکشن کے عمل میں کو د جائیں تو پھر نہ حلقہ بندی میں کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی ووٹر یا امیدوار کا ووٹ اس حلقے میں لا کر رجسٹر کیا جا سکتا ہے۔اور نہ ہی انتخابی حلقے کا کوئی ووٹ الیکشن فہرست سے ڈی نوٹیفائی کر کے اسے کسی اور جگہ شفٹ کرنے کی اجازت ہے۔اس پر عمران خان نے کہا پھر تو وہ پکڑے گئے۔ حلقہ NA-122میں ووٹوں کی تبدیلی پر جو بات چیت ہوئی اسے عمران خان خود بیان کریں گے۔میں ان تفصیلات کو ذاتی گفتگو سمجھ کر سینسر کر رہا ہوں۔NA-122میں پنجاب کا سب سے بڑا ہاؤس آف کارڈزیعنی گتے کی بنی ہوئی محل سرا دھڑام سے نیچے آئی،جس کے چند ثبوت یہ ہیں۔
نمبر 1،محترم خاتون اول کے بھانجے کو واضح شکست ہوئی،ایک عام کارکن وکیل شعیب صدیقی کے ہاتھوں جو نہ قارون تھا اور نہ ہی شداد۔شعیب ہمارا دوست ہے اور لاہور کے وکلاء اور مؤکل جانتے ہیں کہ وہ صاف ستھرا پروفیشنل وکیل ہے۔کیا فرماتے ہیں سرکاری علماء اور ڈھنڈورچی اس شکست کے بارے میں ۔؟بلکہ عام آدمی تو یہ پوچھ رہا ہے کہ کیوں چھپاتے ہیں یہ ڈھنڈورچی اس شکست کو۔
نمبر2،عمران خان نے ہارون بھائی کے بیٹے کی شادی والے دن ہی علیم خان کی موجودگی میں مجھے بتایا اس حلقے میں ان کے ووٹوں کا2013ء میں فرق 8ہزار چند سو تھا جبکہ ضمنی الیکشن میں پنجاب حکومت اور اس کے سارے وسائل، وفاق اور اس کے سارے وسائل کے باوجود NA-122کے ضمنی الیکشن میں ووٹوں کا یہ فرق صرف 2ہزار چند سو رہ گیا۔کیا سرکاری ڈھنڈورچی اسے خادمِ اعلیٰ کی کامیابی اور خادمِ اعظم کی مقبولیت کہیں گے،یا عوام کا بدلہ ہوا موڈ۔؟نمبر3،اوکاڑہ اور لاہور ،پنڈی اسلام آباد کی طرح جڑواں علاقے ہیں۔وہاں سرکار اپنی شکست پر کیا تبصرہ کرتی ہے۔نمبر4،پاکستان کے قلم کار اور تجزیہ گر اس بات پر متفق ہیں یہ الیکشن مالی طاقت کا مظاہرہ تھا ۔
اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اب غریب آدمی ،متوسط طبقے،ٹریڈ یونین لیڈر اور مزدور کسان کے لیے سیاست میں داخلہ بند ہو گیا ۔جب سے سیاست ایک ہی بازو پر اڑنا شروع ہوئی ہے تب سے محروم طبقات ریاستی وسائل سے محروم ہوتے ہوتے بے دخل ہو چکے ہیں۔اب سیاسی جماعتیں اور سیاسی قبضہ گروپ میں فرق نظر آنا ضروری ہے۔قبضہ گروپ چاہے کتنا بھی طاقتور ہو وہ ہاؤس آف کارڈز ہی ہوتا ہے۔سیاست میں پتلیاں نچانے کا وقت گزر چکا ۔نظام تب بچے گا جب لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ ووٹ ڈالنے والے ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ووٹ گننے والے نہیں کر سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں