"SBA" (space) message & send to 7575

رول بیک نا منظور

نواز شریف بیرون ملک دورے کرنے میں خا صے بادشاہ واقع ہو ئے ۔ان کے تازہ دورۂ امریکہ کے لیے پی آئی اے کابوئنگ 777لانگ رینج تیار کیا گیا۔جس کے ذریعے وزیراعظم17اکتوبر کو اسلام آباد سے لندن، پھر 19اکتوبر کو لندن سے امریکہ کے شہر شکا گو،جبکہ اگلے ہی دن شاہی طیارہ واپس واشنگٹن پہنچے گا۔ پہلے ہی اس طیارے میں 320سیٹیں ہوتی ہیں،لیکن خصوصی طور پر 12مزید نشستیں لگائے جانے کی اطلاع ہے۔یہ جہاز ہفتہ بھر سے پابند تھا۔نہ بیرون ملک جا سکا،نہ ہی کسی کمرشل پرواز میں حصہ لیا۔اس لیے سعودی عرب میں پھنسے ہوئے حاجی مزید تھوڑا عرصہ پھنسے رہیں گے۔ایک اور اہم بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ پی آئی اے کا ایک ایسا ہی لانگ رینج777بوئنگ طیارہ وزیراعظم کی دورے کی ''بیک اپ‘‘ فلائٹ کے طور پابند کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی فنی خرابی پیدا ہو جائے اور وزیراعظم کا طیارہ اڑان کے قابل نہ رہے توبیک اپ طیارہ اڑ کر وزیراعظم کی خدمت میں امریکہ جا کر حاضری دے گا۔ 
یہ تو اس دورے کا ابتدائیہ یعنی شبھ شبھا اورشاہانہ سواری کی تیاری تھی۔اب آ ئیے ذرا دورے کی طرف۔ اس دورے سے پہلے نواز شریف کی امریکہ میں لابنگ کرنے والے اور پاکستان ایمبیسی کے گرگ ِباراں دیدہ میڈیا کے ذریعے پاکستان میں تاثر پھیلا نے کی کوشش کرتے رہے کہ نواز شریف بھارتی وزیراعظم مودی کی طرح امریکی دورے میں سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کے دورے کے اس پہلو میں رنگ بازی کے دوران اتنا مصالحہ لگ گیا کہ امریکی صدر اور حکومت کے ترجمان بول اٹھے ۔انہوں نے کہا امریکی صدر اوباما پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے نیوکلیئر تنصیبات اور ان کے تحفظ کے نظام پر ہی گفتگو کریں گے لیکن سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے کسی معاہدے پر بات نہیں ہو گی۔
2013ء میں بھی وزیراعظم کے اطلاعاتی ٹولے نے قوم کو ''ماموں ‘‘بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔دورے سے پہلے کہا گیا تھا کہ امریکہ پاکستان سے لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے ختم کرے گا۔اس مقصد کے حصول کے لیے وزیراعظم امریکی ڈالروں سے بھرپور ساتواںبحری بیڑا ساتھ لے کر واپس آئیں گے۔پاکستان کے عوام خوب جانتے ہیںکہ پچھلے دورے کے بعد حکومت ہر روزبڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ پر شرمندہ ہوتی ہے اور اندھیروں میں دن بدن نا معقول حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔خواہ وہ ایپٹما کے کارخانے ہوں، کسانوں کے ٹیوب ویل یا پھر غریب کی جھونپڑی۔ 
حکومت بجلی کے ساتھ ساتھ قومی معاملات میں بھی عوام کو اندھیرے میں رکھنا پسند کرتی ہے۔ امریکی صدر ساری دنیا کو بتا چکا کہ وہ لاہوری وزیراعظم سے کیا گفتگو کرے گا۔ہماری وزارتِ خارجہ اور مذاکراتی ٹیم نے اس معاملے میں بھی قوم کو اندھیرے میں رکھنا پسند کیا ۔ دورے کے حوالے سے پاکستان کا ایجنڈا کھول کر بیان کرنا ضروری تھا۔ یہ ایجنڈا تین نکات پر مشتمل ہے ۔
پہلا نکتہ،جنوب مشرقی ایشیا میں طاقت کے توازن کے لیے پاکستانی وزیراعظم امریکی صدر سے کھل کر کہتا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ، بھارت جیسا سول ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہد ہ کرے، ورنہ یہ دورہ مؤخر کر دیا جاتا۔
دوسرے ،پاکستان کے واضح مؤقف کے مطابق بھارت کی طرف سے بلوچستان سمیت مغربی بارڈر سے مداخلت اور مشرقی سرحدوں سے جارحیت پر بات ہوتی۔
تیسرے ، پاکستانی صنعت کاروں کی بر آمدات کو امریکی منڈیوں تک آسان شرائط پررسائی دینے کامطالبہ۔ پاکستان کو غیر نیٹو اتحادی بنا کرامریکہ نے جس اتحاد میں شامل کیا اس کا امدادی فنڈ کم اور بند کرنے کامعاملہ ایک اور اہم موضوع گفتگو تھا۔اب تو دعا ہی جا سکتی ہے کہ اس دفعہ جس کسی نے بھی نواز شریف کے لیے اوباما کے ساتھ گفتگو کی ''پرچیاں‘‘ تیار کی ہیں، اس نے پاکستان کے مذکورہ بالا قومی اور علاقائی مفادات پر مبنی پرچی ان کی جیب میں ڈالی ہو۔
اس وقت شہرِ اقتدار کے سفارتی حلقوںکے مطابق، امریکی صدر تین معاملات پر پاکستانی وزیراعظم سے گفتگو کریں گے ،جو یہ ہیں۔
اولاََ،پاکستان کے ایٹمی اثاثے کس حفاظتی نظام اور حصار میں ہیں۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ ایساسوال تو دنیا بھر کے سارے ایٹمی ملکوں سے ہر وقت اٹھایا جا سکتا ہے۔اس وقت ڈولتی ہوئی پاکستانی حکومت اور بغیرجڑوں کے جمہوریت دیکھ کر امریکہ نے درحقیقت ایٹمی پروگرام کے رول بیک کے لیے دباؤ ڈالنے کا شغل شروع کر دیا ہے،ورنہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان جیسی ذمہ دار نیوکلیئر طاقت سے یہ سوال کس ضمن میں اٹھایاجا رہا ہے۔ آپس کی بات ہے، وزیراعظم کے پاس اس کا جواب ہو کیا سکتا ہے؟
ثانیاََ،بھارتی شکایات پر مبنی دہشت گردی کے الزام کا ایجنڈا وزیراعظم کو چارج شیٹ کی صورت میں تھمایا جائے گا۔
ثالثاً،پاکستانی حکومت کو وہی ''ڈو ۔مور‘‘والے پرانے راگ کی تازہ دھن سنائی جائے گی۔
2013ء میں نوازاوباما ملاقات کو آزاد تجزیہ کاروں نے نتائج کے اعتبار سے ''زیرو‘‘قرار دیا تھا۔نواز شریف صاحب کی پرچیوں نے عالمی سطح پر قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ 
اس وقت سنجیدہ تجزیہ کار یہی کہتے رہے کہ امریکہ سے کسی بھی قسم کی انڈر سٹینڈنگ سے پہلے اور انڈر سٹیندنگ کے بغیر وزیراعظم کے دورے کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی خود وزیراعظم کو عالمی طور پر شرمندہ ہونے کے لیے وہاں جانا چاہیے تھا۔تب بھی پاکستان کو امریکہ سے ڈانٹ ڈپٹ کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ ہماری لڑکھڑاتی ہوئی جمہوریت نے یہ ڈانٹ ڈپٹ خوش دلی سے قبول کر لی۔اس دفعہ تو بات مطالبات تک جا پہنچے گی۔ اوباما انتظامیہ کا موڈ خاصا ''سجن بے پروا‘‘ والاہے۔ یوں لگتا ہے پاکستانی وزیراعظم کو احکامات دیئے جائیں گے ۔پوچھ گچھ کی جائے گی اور جواب ترلہ پروگرام تک محدود رہے گا۔
پچھلے دورے میں نواز شریف کا اوبامہ سے ہاتھ ملانا ہمیں 9کروڑ16لاکھ روپے میں پڑا۔جبکہ 45منٹ کی ون آن ون ملاقات7.5لاکھ روپے فی منٹ میں۔حالیہ سات روزہ دورے میں خزانے کو 1ارب سے زائد کی پھکّی پڑے گی۔ہمارے دو طیارے 16دن کمرشل آپریشن سے باہر رہیں گے ۔یہ نقصان مجبوراََ قابلِ برداشت ہے لیکن ایٹمی رول بیک ایڈوانس نا منظور ؎
گماشتے ہیں یہ سب سامراج کے یارو
عدو کے ساتھ ہی کرنا ہے ان کا سر بھی خم 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں