سا نحۂ کربلا پر لکھنے والوں میںصدیوں سے ہر زبان ،علاقے اور طبقۂ فکر کے لوگ شامل ہیں،لیکن مجھے شورش کاشمیری سب سے جدا اور بلند آہنگ کیوں نظر آیا۔اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شورش 'احرارئیے‘ تھے۔دوسرے سنی العقیدہ ۔تیسرے فرقہ واریت سے بلند تر ۔چوتھے شورش محرر اور مقرر ہی نہیں، سیاسی مفکر بھی تھے۔نواسۂ رسول مقبولؐ اور آپ کے خاندان سمیت جانثاروں کی خوں بار رُوداد پر شورش نے محرم الحرام،اتباعِ حسینؓ، طاقت کی پرستش،مسلمان(دولت کے بھکاری،طاقت کے پجاری)،حسین ؓ کربلا میں،دوشِ رسول ؐکا سوار میدانِ کربلا میں،حسینؓ ابنِ علیؓ، سیدالشہداء سمیت بے شمار فن پارے نظم کیے۔شورش باغی تھا۔ روایت سے بغاوت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
مسکرا قاتل کے خنجر کی جسارت دیکھ کر
خوف! غیر اللہ کااعصاب پر طاری نہ کر
شہ رگِ شبیرؓ سے ہے کربلا کی آبرو
عصرِ حاضر کے یزیدوں کی طرفداری نہ کر
شورش کا شمیری اپنی جدو جہد کے دوران طاقت کی پرستش سے عمر بھرانکار کرتے رہے۔پسِ دیوارِ زنداں گئے مگر کسی بادشاہ یا ملوکیت کی کبھی طرفداری نہ کر سکے۔''اتباعِ حسین ؓ ‘‘ کے عنوان سے شورش نے لکھا؎
روحِ اسلام میں شاہی کا تصور ہی نہیں
ہیچ ہیں اس کی نگاہوں میں سلاطینِ زمن
شورش کاشمیری نے اپنی روح اور جسد کا سارا سوز او ر تمام تر گداز اکٹھا کیا۔شورش کے الفاظ میں کربلاکا تصور یہ ہے :
درد کا خطبۂ اول ہیں گلابی آنسو
عشق کی آنچ میں ہے، بیتِ غزل، روحِ سخن
کربلا وادیٔ سینا سے بہت آگے ہے
یہ وہ مشہد ہے کہ ہے ابن ِ علی ؓ کا مدفن
شورش کا شمیری نے 'سید الشہداء‘ جیسا شاہکار کلام خونِ جگر سے کشید کیا۔ساتھ ساتھ ملوکیت کی بھرپور مذمت اور مدحِ اولادِ پیمبرؐ کرتے نظر آئے۔ الفاظ :
پابجولاں جا رہے ہیں شہرِ استبداد کو
دُود مانِ سیدالکونینؐ کے ماہِ تمام
ان کے خوں سے دامنِ تاریخ پر لکھا گیا
امتِ خیر البشرؐ میں ہے ملوکیت حرام
''دوشِ رسول ؐ کا سوار میدانِ کربلا میں‘‘ ،رِجزہی رِجز سے بھرا ہوا شہ پارہ ہے۔شورش اس رِجز یہ نظم میں تاریخِ انسانی کے المناک سانحے میں صبرو ر ضا کو مینارِ ہُدیٰ سمجھتا ہے۔شورش کے بے مثال الفاظ ملاحظہ ہوں:
صبر و رضا و عشق کا پیکر بنا ہوا
چاروں طرف سے ابنِ علیؓ ہے گھرا ہوا
آلِ نبیؐ پہ خنجر مروان خندہ زن
ابنِ زیاد خوفِ خدا سے ہٹا ہوا
شورش کاشمیری کی شخصیت کا ایک اور دل نشیں پہلو یہ تھا کہ وہ گولڑہ کی سرزمین اور پیر مہر علی شاہؒ کے خاندان سے تعلق کا فخریہ اظہار کرتے۔مگر فرقہ واریت ہر مسلمان کی طرح ان کے سینے کی پھانس بنی ہوئی تھی۔''حسینؓ کربلا میں‘‘اسی مضمون پر ایک اور جاندار تخلیق ہے۔چند شعر ملاحظہ کیجئے:
ایک آفتابِ عرش ہے غبار میں اٹا ہوا
حسینؓ ہے یزیدیوں کے سامنے ڈٹا ہوا
گھری ہوئی ہیں کوفیوں میں فاطمہؓ کی بیٹیاں
کہ جیسے کاروانِ گل بہار سے کٹا ہوا
یہ جان لو کہ دعوتِ حسین ؓ سے گریز ہے
زباں دراز مفتیوں میں دین ہے بٹا ہوا
شورش کاشمیری ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت ؐ کو اپنا سرمایۂ افتخار جانتے تھے۔تا زندگی یہ ان کے اولین مضامین میں سے ایک رہا۔''حسینؓ ابنِ علیؓ ‘‘ کے عنوان سے شورش کاشمیری کہتے ہیں:
کون ناموسِ رسالتؐ کا نگہباں ہو گیا
کس کا سر نیزے کو پہنچا، کون قرباں ہو گیا
کس کی نعش ِخوں چکاں تشہیر کو لائی گئی
کس کا پرچم چادرِ گورِ غریباں ہو گیا
کون تڑپا یا گیا تھا کربلا کی خاک پر
کس کا ماتم ،ماتمِ تاریخِ انساں ہو گیا
آج افریقہ سے عربستان تک ہر جگہ مسلمان تماشا بنے ہوئے ہیں۔کچھ مسلمان لیڈر تماشا گروں کے فنانسر ہیں۔کچھ دوسرے ان کے ٹوڈی ہیں۔کچھ اس تماشے کا بل بھی ادا کرتے ہیں۔ہمیں جو نقشہ آج دکھائی دے رہا ہے وہی منظر نامہ آج سے 40سال پہلے شورش کاشمیری نے ''مسلمان‘‘ نامی تخلیق میں کھینچا۔انہوں نے مسلم حکمرانوں،سیاسی اشرافیہ، بادشاہوں اور شہزادوں کو دولت کے بھکاری اور طاقت کے پجاری قرار دیا۔''مسلمان‘‘ کے چند روح تڑپا دینے والے اشعار ملاحظہ کیجئے:
سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولادِ پیمبرﷺ کا تماشا دیکھا
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں
جس نے لختِ دلِ حیدرؓ کو تڑپتا دیکھا
بر سرِعام سکینہؓ کی نقابیں الٹیں
لشکرِ حیدر کرارؓ کو لُٹتا دیکھا
امِ کلثومؓ کے چہرے پہ طمانچے مارے
شام میں زینبؓ و صغریٰ ؓ کا تماشا دیکھا
شہِ کونینﷺ کی بیٹی کا جگر چاک کیا
سبطِ پیغمبرِ اسلامﷺ کا لاشہ دیکھا
پھاڑ کر گنبدِ خضریٰ کے مکیں کا پرچم
عرش سے فرش تلک حشر کا نقشا دیکھا
اے مری قوم! ترے حسنِ کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی د کھایا، وہی نقشا دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے؟مجھے کچھ سوچنے دے!