"SBA" (space) message & send to 7575

برائے فروخت

ملک کے اہم ترین ادارے اور اثاثے کوڑیوں کے مول فروخت کرنے کے لیے لوٹ سیل کی وزارت نے ایک اور ادارہ لنڈے کے بھاؤ بیچ دیا۔اس موقع پر موجود سرکاری اہلکاروں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔جس کے گھر پیا آئے اسے ایسے ہی ناچنا پڑتا ہے۔پاکستان کی شریفانہ سرکار نے جدّہ کے دربار کا حق ادا کر دیا۔این پی سی سی فروخت ہو گئی۔اس کے ساتھ ساتھ 88فیصد مزدور ہاتھ پاؤں باندھ کر شاہی غلامی میں دے دیئے گئے۔12فیصد وہ شیئرزبچ سکے جنہیں بینظیر انکم ورکرز سٹاک سکیم کے ذریعے پیپلز پارٹی جیسی گنہگار جماعت نے کارکنوں کے نام کر دیا تھا۔ظاہر ہے شاہ کے بعد تابعداروں کے لیے شاہ کے ساتھ شاہ سے زیادہ تابعداری کا اظہار انہیں دربار میں مزید اونچی نشست پر بٹھاتا ہے۔مزدور،محنت کش تو بے نوا ہوتا ہے ۔وہ اپنے حقوق نہیں مانگ سکتا۔نہ ہی اس کو مزدوری کا معاوضہ پسینہ سوکھنے سے پہلے ملتا ہے۔مزدور درباریوں کو نذرانہ کہاں سے دے۔؟
یہ کمپنی ملک کے ان چند اداروں میں سے ایک ہے جو گزشتہ 10سال سے منافع میں چل رہے تھے۔سال2010ء کے آخر میں کیبنٹ ڈویژن کے انچارج وزیر کی حیثیت سے میں نے کراچی میںاس ادارے سے بریفنگ لی۔تب اس کے ذمے سندھ،بلوچستان میںایک طویل ٹرانسمیشن لائن بچھانے کا کام تھا۔خون پسینے کو ایک کرکے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر ان خطرناک دیہات میںلائن بچھانے والے کارکن مجھے دعوت دے رہے تھے کہ میں یہ پراجیکٹ موقع پر دیکھنے کے لیے آؤں۔
میں نے عدالتی جھگڑوں اور ایوانِ اقتدار کی محلاتی سازشوں کے بھرے بازار کو چھوڑ دیا اور اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا،مگرمجھے آج تک قومی کمپنی کے کارکنوں کی پُر خلوص دعوت یاد ہے۔برادر ملک کی ایک کمپنی جس کا نام لکھنا ضروری نہیں ہے‘ نے ہمارے اس قومی ادارے کو خریدا۔بیوروکریسی اور درباریوں نے اس ادارے کی کل قیمت محض 2ارب روپے لگائی، یعنی 200کروڑوہ بھی پاکستانی روپے میں۔نہ کوئی زرِ مبادلہ ہاتھ آیا اور نہ ہی قیمت ڈالروں میں طے ہوئی۔پھر اس 200کروڑ میں سے بھی پاکستان کے خزانے کو 1ارب76کروڑ کا وعدہ ملا۔میں نے پاکستان کے وفاقی کابینہ کے ممبر کی حیثیت سے ہمیشہ قومی اداروں کی لوٹ سیل کا فریق بننے سے انکار کیا۔مزدور کُش پالیسی پر بلند آہنگ احتجاج بھی۔جتنے دن وزیر رہا کامیابی سے چلنے والے پاکستانی قومی اداروں پر سے ملک برائے فروخت کا بورڈ ہٹانے کی بھر پورکوشش کی۔
ْقومی اثاثوں کی فروخت کے حوالے سے ایک تازہ و اردات ملک کے واحد ''پرچم بردار‘‘ ادارے میں ہو رہی ہے ‘جہاں لمبے چوڑے دعوئوں کے با وجود تین سال پرانی جمہوریت بہتری کے لئے مکھی مارنے کے قابل بھی نہیں ثابت ہوئی اور سارا زور اس بات پر لگا یا جارہا ہے کہ یہ ادارہ سفید ہاتھی ہے، خسارے میں جا رہا ہے اور اس کو بیچ کر گھر گھر میں روٹی، کپڑا اور مکان پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس واردات کو سمجھنے کے لئے لمبے چوڑے اعداد و شمار میں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ صرف اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ اس کونجکاری کے لنڈے بازارکے بھائو بیچنے کے لئے جو لوگ کمیشن میں بیٹھے ہیں ‘وہی دوسرے ہاتھ سے اس کی خریداری میں لگے ہوئے ہیں۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ والی نجکاری قوم کو وہی دے گی جو شوکت عزیز برانڈ پی ٹی سی ایل کی نجکاری نے پہلے بھی دے رکھا ہے۔
یہ ملکی اثاثے فروخت کرنے کا ایک رُخ تھا۔ اس کاایک دوسرا تازہ ترین رُخ بھی اتنا ہی کرب ناک ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں انجینئر رشید‘ مودی کی ہندوتوا کے نشانے پر ہے‘ دوسری جانب مقبوضہ جموںکشمیر جو ایک ہزار سال سے مسلم ریاست ہے اور جس پر کئی دفعہ چڑھائی کے باوجود مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی وہاں کے مسلم فرماںروائوں کو بے دخل نہیں کیا تھا‘ اب وہاں گائے کی قربانی دینے پر پابندی لگ چُکی ہے ۔نئی دہلی سے مہارشٹرا تک جہاںکسی مسلمان کے گھر میں آدھا پائو قیمہ یا دو بوٹی گوشت کی موجودگی والی خفیہـ ''اطلاع‘‘ باہر نکلے وہاں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے سیکولر آئین سمیت ترشول ہاتھ میں اُٹھا کر حملہ آور ہو جاتی ہے۔
بھارت میں اقلیتوں پر نئے حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے‘ لیکن تازہ تاریخ میں مسلم اقلیتوں کے نظریات اور انکی مذہبی علامتوں کو پامال کرنے کے کئی باب ہیں۔مثال کے طور پرمسلمانوں کی بابری مسجد کی شہادت کا المیہ‘ ہندوستان بھر میں دلّت یا اچھوت کی بستیوں پر حملے‘ ہندوستان کے طول و عرض میں عیسائیوں کے چرچ ، عبادت گاہوں سمیت جلائے جانے کے واقعات اور اب سکھوں کے گُروگر نتھ صاحب کی مسلسل بے حرمتی کے بعد بھی کرکٹ کے کرتا دھرتاکو شرم نہیں آئی ۔ خاص طور پر وہ لابی جو بھارت کے بم اور بارود کے باوجود امن کی آشا کا ڈھول بجاتی ہے‘ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری بے عزتی میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے دہلی جا پہنچی ۔ ہماری قوم کی جیب سے نکلنے والے ٹیکس کے پیسے نے ان کے منہ کالے ہونے سے بچا لئے‘کیونکہ موصوف دہلی کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرے ‘جہاں ہندوتوا والوں کو گھسنے کے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ پھر ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ پاکستان میں تھڑے سے اُٹھ کر کھرب پتی بننے والے‘ جوں ہی موقع آتا ہے بھارتی حکمرانوں اور میڈیا کے سامنے لمبے لیٹ جاتے ہیں‘جس کا تازہ ثبوت ایک سابق وزیرِدفاع کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی صورت میں سامنے آیا:
ساری زمینوں کو ہیں گھیرے 
صدیوں سے خونخوار وڈیرے
عزت دولت میرے وطن کی
لوٹ رہے ہیں چند لٹیرے
کب تک یہ بربادی دیکھوں، کب تک ضبط کروں‘ آخر کیوں
ہر دل پر ہے د ہشت چھائی
کس نے ہے یہ آگ لگائی
د شمن دور ہے چین سے بیٹھا 
لڑتا ہے بھائی سے بھائی
قاتل کو پہچان کے بھی ، قاتل کا نام نہ لوں‘ آخر کیوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں