پاکستان کا موجودہ نظام‘ مغربی جمہوریت کا بھونڈا چربہ ہے۔ تقریباً ویسا ہی جیسا ہالی وڈ ایکشن فلموں کا چربہ تامل اور ہندی زبانوں کے فلم ساز بھارت میں بے دردی سے بناتے ہیں۔ہالی وڈ کی '' میٹرکِس‘‘ فلم کا جواب بالی وڈ کی فلموں میں ایک مکے کی طاقت سے دیاجاتا ہے۔جو مکا پجارو جیپ کو لگ جائے تو وہ ہوا میں اڑ سکتی ہے۔دیوار پر پڑے تو وہ ریت کی مٹھی بن جائے گی۔ ہیرو وہی مکا وِلن کو مار دے تو وِلن بغیر ٹکٹ کے امرتسر سے کلکتہ پہنچ جائے گا۔
وزیراعظم نواز شریف کا طرزِ سیاست بھی بالی وڈ کی تھیم سے پوری طرح متاثر لگتاہے۔جس کے آغاز میں کشمیر کے سپوت سیاستدان نے پنجاب کی ''پَگ‘‘ پر لگنے والا داغ دھویا ۔پھر ضیاء الحق اور آلِ سعود کی رہنمائی میں وطنِ عزیز کوا سلام کا گہوارہ بنا ڈالا۔اب کچھ کم 70سالہ تجربے کی روشنی میں وزیراعظم نے پاکستان کو ''لبرل ڈیموکریٹ ‘‘ریاست بنانے کا بیڑا اپنے بزرگ کاندھوں پر اٹھالیا ہے....اللہ خیربلکہ سَتے ای خیراں۔ہاں اس سیاسی سفر میں کچھ سٹاپ یا فل سٹاپ اور بھی آتے رہے۔جیسے کہ جدّہ کے سرورپیلس والا سٹاپ۔ اس کے ساتھ ساتھ اٹک جیل والا ''کوما‘‘جو فل سٹاپ بننے سے پہلے ہی آرٹیکل 6کے ''انڈر ٹرائل‘‘ قیدی مشرف کی مہربانی اور شاہ عبداللہ کی میزبانی کی نذر ہو گیا۔لیکن یہ سارے سٹاپ اور فل سٹاپ بھی پاکستان میں مک مکا کی تاریخ کے روشن مینار ثابت ہوئے۔
آج اقتدار کی تکون تبدیل ہو چکی ہے۔جس نے بر سرِ اقتدار آنا ہو اسے پہلے بھرپور کمائی کے بعد طاقت کے دو مغربی مراکز یعنی امریکہ اور لندن میں محل،پلازے اور بینک اکاؤنٹ کھولنا پڑتے ہیں۔جس کا سیدھا سادہ مطلب آئی ایم ایف کو یقین دلانا ہوتا ہے کہ ہم کو ئی ''تھڑئیے‘‘ نہیں ۔بلکہ صاحبِ حیثیت اور صاحبِ جائیداد لوگ ہیں۔کیونکہ یہ اصول کاروبار سے سرکار تک اور مقدمے سے ضمانت تک طے شدہ ہے کہ ملزم کی ہتھکڑی کھلوانے کے لیے صاحبِ حیثیت اور صاحبِ جائیدادہی ضامن بن سکتا ہے۔جس کی مغربی بینکوں میں جتنی بڑی''پروفائل‘‘ہو گی اس پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اتنی ہی زیادہ نظرِ کرم پڑ ے گی۔ہم جیسے غریب عوام رکھنے والے امیر حکمرانوں کی تاریخ بتاتی ہے جس سیاست کارکے پاس مغرب میں ''کے ٹو‘‘ جتنا اکاؤنٹ نہیں اس کا اقتدار میںکوئی حصہ نہیں۔شاید اسی لیے نواز شریف صاحب نے'' بلو۔کی‘‘ میں بَلے بَلے کرا دینے والا بیان دے ڈالا۔جس کے دو حصے ہیں۔اس شاہی فرمان کے دونوں حصے پوری ایک ایک صدی کا سچ سمجھ لیں۔وزیراعظم نے کہا کہ بجلی پرو جیکٹس میں ہم نے قوم کو 110ارب روپے بچا کر دے دیئے۔ایسا نواز شریف صاحب کے بقول انہوں نے کہیں سنا اور نہ ہی کرہ ارضی پر کہیں دیکھا ہے۔
اس کے جواب میں '' انجمنِ ستائشِ باہمی‘‘ پنجاب شاخ کے صدر خادم اعلیٰ نے یوںجوابِ آں غزل پیش کیا۔فرمایا''بھاء جی کے ہوتے ہوئے کسی سیاستدان اور کسی بھی سرکاری ملازم میں ہمت نہیں کہ وہ کرپشن کو ہاتھ بھی لگا سکے‘‘۔مجھے ذاتی طور پر ان دونوں بیانات سے اتفاق ہے۔کیونکہ ایسے ہی موجودہ پارلیمانی جمہوریت میں ''ونڈ کھاؤ...کھنڈ کھاؤ‘‘ کے اصول پر مکمل اتفاق ِ رائے موجودہے۔قوم جس کو آسان لفظوں میں ''گرینڈمک مکا‘‘ کہہ سکتی ہے۔اس کا تازہ ترین مظاہر ہ پچھلے ہفتے سپیکر قومی اسمبلی کے الیکشن کے موقع پر ہوا۔آج پاکستانی برانڈ اصولوں کی سیاست کہاں پہنچ چکی ہے‘ آئیے ذرا س کی تفصیل دیکھ لیں۔
اولاً،پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو انتظار کرتے رہ گئے کہ کوئی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جائے۔لیکن اپوزیشن لیڈر،قبلہ شاہ صاحب اپنے چیئرمین پر بازی لے گئے۔انہوں نے فوراً گرینڈ مک مکا میں حسبِ توفیق حصہ ٹھونک دیا۔(جھونک دیا کا لفظ میں نے احتیاطً استعمال نہیں کیا)۔
نمبر دو، خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کے وزارتی اتحادیوں نے جنرل مشرف کے عہدِ جمہوریت کی ''الائچی حلوہ ‘‘والی لذیذ یاد پھر تازہ کر دی۔اورکچھ اس طرح کہ جماعت اور شیر پاؤ گروپ نے اپنا وزن مرکزی سرکار کے کھاتے میں ڈال دیا۔ان دونوں کا حالیہ تاریخی فیصلہ ملک میں نفاذِ اردو کی مہم کا بھی ترجمان ثابت ہوا۔ اس فیصلے کی رونق دیکھ کر اردو کے تین محاورے قوم کی یاداشت میں پھر سے جوان ہو گئے۔
پہلا یہ کہ،''رِند کے رِند رہے‘ ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ یعنی (عمران خان ہاتھ میں‘ نواز شریف جیب میں)
دوسرا محاورہ کے پی کے کی وزارتوں والا ''ثوابِ دارین‘‘جاری رہے گا۔
تیسرے یہ کہ،''ہم خورمہ اور ہم ثواب‘‘یعنی کے پی کے کابینہ کی حد تک ہم ثواب اور وفاق کی نوازشات کی حد تک ہم خورمہ۔یعنی(مل جل کر کھاؤ)۔
گرینڈ مک مکا ایک جاری عمل ہے۔ کرپشن، دھاندلی، لوٹ مار، منی لانڈرنگ، بھتہ خوری اور پری پول دھاندلی کی طرح۔اس کے رکنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لیے کہ جو خاندان اور پارٹیاں اس حمام میںاشنان کرتی ہیں ان کا گرینڈ مک مکا دن بدن مضبوط ہوتا جارہا ہے۔بڑی ڈھٹائی اور بے رحمی سے ذاتی نفع بخش کاروبار کو جمہوریت اور گرینڈ مک مکا کو پارلیمانی نظام کی بالادستی کے لیبل لگے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے بڑے سماجی اور سیاسی مسائل کینسر کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔یہ مرض ناقابلِ علاج ہے۔اگر علاج نہ کیا جائے تو نتیجہ مریض کی دردناک موت اوراگر علاج شروع ہوجائے تو بچنے کے چانس ففٹی ففٹی۔بنیادی سوال یہ ہے کہ جہاں حکمران معاشی مافیا کی بی ٹیم ہیں۔جس نظام میں اپوزیشن سرکارکی بی ٹیم ہے۔الیکشن کمیشن کی سب سے بڑی پہچان دھاندلی اور بد انتظامی۔قانون نافذ کرنے والے سیاستدانوں کی جیب والی گھڑی اور انصاف بے رحمی کی علامت پھر مزید کس بہتری کی توقع رکھی جائے۔معاشی ذرائع پر حکمرانوں کا قبضہ۔سیریل کلرز کی سرپرستی کرنے والے وزیر اور موت کے سوداگر مسیحا بن جائیں وہاں سوائے عوام کی حکمرانی کے ‘دوسرا ہر نسخہ ہومیو پیتھک ہو گا میٹھا مگر بے اثر۔ملکی نظام کو بے رحم سرجری کی ضرورت ہے۔شہرِ اقتدار میں بہتری کی طرف جانے والی ہر شاہراہ پر گرینڈ مک مکا کے کنٹینر کھڑے ہیں۔کچھ دیسی اور کچھ امپورٹڈ۔ انہیں ہٹائے بغیر پاکستان کے لوگوں کے لیے شاہراہ ِترقی اور شاہراہِ دستور دونوںراستے بند رہیں گے۔
ذہانت ر و رہی ہے منہ چھپائے
جہالت قہقہے برسا رہی ہے
ادب پر افسروں کا ہے تسلط
حکومت شا عری فرما رہی ہے