وفاقی سرکار نے بہت پرانے لطیفے کی داستان تیسری بار بھی دہرادی،جس کے مطابق کشتی سے بچہ دریا میں گِرا۔سردار جی دیوانہ وار کود پڑے۔باہر نکلے تو لوگوں نے داد دینا چاہی۔سردار بولا'' اوئے ، داد بعد میں لوں گا پہلے یہ بتاؤ مجھے دھکا کس نے دیا تھا؟‘‘اس لطیفے میں چھلانگ مارنے کی وجہ صرف اور صرف ایک تھی۔لیکن وزیر اعظم نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں ٹکر مارنے کی وجہ صرف دھکا نہیں ہے۔ اس کی چار وجوہ اور بھی ہیں۔
لیکن پہلے یہ تو دیکھ لیں جس بنیاد پر وفاقی سرکار نے آئی ایس پی آر والے بیان میں ایک لفظ کو بہانہ بنا کر سِول ملٹری تعلقات کی تاریخ میں نئی ٹکر ماری، وہ لفظ ہے کیا۔؟ن لیگی حکومت کی اپنی تاریخ یا ٹریک ریکارڈ بھی مدِ نظر رکھنا ہو گا۔پچھلے دورِحکومت میں آرمی چیف جنرل کیانی نے بڑے صحافی،کالم نگار،رپورٹر مالکان کو بلا کر ایک سے زیادہ مرتبہ کہا کہ سوات میں فوج نے اپنا کام مکمل کر لیا، اب سویلین ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔اپنے حالیہ بیان میں آئی ایس پی آر نے تقریباََ یہی جملے دہرائے،لیکن ان جملوں میں سے مارشل لاء کس کس کو نظر آیا، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔یادو سرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ نواز شریف کو تیسری ٹکر مارنے کے لیے دھکا کس نے مارا۔آج کون سا اینکر ،کالم نگار، سیاستدان،تجزیہ کار اور آئینی عدالت ایسی ہے جس نے انہی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز والے لفظوں میں حکومت سے اچھی حکمرانی کا مطالبہ نہ کیا ہو۔اگر یہ مطالبہ کرنے والوں کے نام لکھنے شروع کیے جائیں تو ایک وکالت نامہ نہیں اخبار کا پورا ایڈیشن مطالبہ کرنے والوں کے ناموں سے بھر جائے گا۔صرف''یک دانہ ازدیگ‘‘ کے طور پر اتنا دیکھ لیںکہ 10نومبر کو چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیرجمالی نے سینیٹ سے غیر معمولی خطاب کیا،جس میں چیف جسٹس انور ظہیرجمالی صاحب نے کہا:
نمبر ایک۔ منتخب لوگ ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان فرق اور فاصلہ دور کریں۔
نمبر دو۔کچھ اداروں میں ضرورت سے زیادہ قوانین موجود ہیں ۔لیکن اصل امتحان قانون کی حکمرانی ہے۔رنج سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ اداروں میں قانون کا نفاذ سِرے سے موجود ہی نہیں۔
تیسری اور سب سے اہم بات چیف جسٹس آف پاکستان نے یوں کہی:
''جب پبلک بے چین ہو اور قانون ساز اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو پھر عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مداخلت کر کے انتظامی معاملات میںاپنا کردار ادا کرے۔‘‘
چیف جسٹس کے ان واضح پیغامات کے مقابلے میں آئی ایس پی آر کی طرف سے اچھی حکمرانی والا مشورہ اور سِول اداروں کی طرف سے بحالی امن کی خاطر آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کرنے کا اشارہ بہت ہلکا پھلکا سا ہے۔کیا چیف جسٹس آف پاکستان کے خطاب سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ انتظامی معاملات میں مداخلت کر سکتی ہے۔میری نظر میں اس کا جواب ہے، بالکل نہیں۔لیکن کیا عدلیہ اس ملک کا آئینی ادارہ ہے یا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق جو ملک میں لاقانونیت ،بد انتظامی اور کرپشن پر آنکھیں بند کر کے صرف یہ کہے کہ ہمارا کام ملکی حالات پر نظر رکھنانہیں۔ بالکل ایسے ہی فوج کے کور کمانڈروں نے وطن اور اہلِ وطن کا درد محسوس کیا ہے ، جیسے چیف جسٹس آف پاکستان نے اظہار کیا۔فوج کا معاملہ عدلیہ سے بھی ذرا آگے ہے ۔آئین عدلیہ کو کسی بھی انتظامی معاملے میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا،لیکن آئین نے انتظامی اور عوامی معاملات میں فوج کو باقاعدہ کردار سونپ رکھا ہے،جس کا ثبوت آئین کے آرٹیکل 245میں وضاحت سے درج ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کا بنیادی کردار آئین ہی مقرر کرتا ہے،لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ صرف فوج ہی نہیں بلکہ حکومت ،بیوروکریسی اور عدلیہ کو بھی آئین ہی اختیارات دیتا ہے اور ان اداروں کی طرف سے کوئی بھی ایسا اقدام جو ماورائے آئین ہو، قابلِ گرفت ہو گا۔
1973ء کے آئین کے مطابق فوج درجِ ذیل فرائض ادا کرے گی۔
الف،بیرونی جارحیت کے خلاف دفاعِ پاکستان۔
ب۔جنگ کے خدشے (Threats of War)سے نمٹنا۔
چ۔سِول انتظامیہ کی مدد کے لیے میدان میںاترنا۔
عام فہم بات یہ ہے کہ جب سِول انتظامیہ میٹر ریڈنگ نہ کر سکے،گھوسٹ سکول نہ ڈھونڈ سکے،بھل صفائی سے معذور ہو،سندر فیکٹری کا ملبہ چھ دن تک نہ ہٹا سکے،اپنے وزیرِ داخلہ کی جان بچانے کے لیے ایک بیٹھک کی چھت ''سِرکانے‘‘ کی سکت نہ رکھتی ہو ،Law and Order،زلزلہ،سیلاب ہر آفت میں فوج کو آگے کھڑا کیا جائے ،تو پھرکیا فوج کا ادارہ صرف نااہل اور کرپٹ نظام اور بیرونِ ملک محلات اور جائیدادیں بنانے والے معاشی لٹیروں کا چوکیدار ہے،مادرِ وطن کا نہیں؟
اس موضوع پر تفصیلی بات پھر سہی، آئیے وہ پانچ وجوہ دیکھ لیں جن کے لیے تازہ سیاسی منظم حملہ کروایا گیا۔
پہلی وجہ۔وزیراعظم نے امریکہ کے تین دورے کیے۔تینوں مرتبہ قوم کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے لیکن قوم اور حکومت کو شرمندگی کے سِوا امریکہ سے کچھ نہیں ملا۔راحیل شریف کے دورے کے آغاز میں اہم ترین قومی ادارے کو جان بوجھ کر متنازعہ بنایا گیا ،تاکہ امریکی دورے میں یہ زیرِ دباؤنظر آ سکے۔
دوسری وجہ۔وزیروں کے ایک جتھے کا خوف ہے کہ وہ ناکام ہو چکے اور فوج ''ٹیک اوور‘‘ کرے گی۔
تیسری وجہ۔حکومت تین سال میںمتنازع ٹھیکے ،قابلِ گرفت پراجیکٹ،معاشی ناکامی،مہنگائی ،افراطِ زر اور بُری حکمرانی سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔کچھ ''ہمدرد‘‘کہتے ہیں کہ اب حکومت شہید ہو کر پانچ سال کے لیے دوبارہ واپس سکتی ہے۔
چوتھی وجہ۔ فوج اور جنرل راحیل شریف کی قومی اور بین الاقوامی مقبولیت نے بر سرِ اقتدار ٹولے کی نیند حرام کر رکھی ہے۔
پانچویں وجہ۔ پنجاب میںدو صوبائی وزیروں اور ایک بڑی شخصیت کی ممکنہ گرفتاری کو فوری طور پر روکنے کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں ایک وکیل اور ایک عدد وزیر کی مشاورت سے آئی ایس پی آر کے بیان پر پریس ریلیز جاری کی گئی۔
فضاء میں اپنا لہو جس نے بھی اچھال دیا
ستم گروں نے اسے شہر سے نکال دیا
یہی تو ان سے رفیقانِ شب کو شکوہ ہے
کہ سب نے صبح کے رستے پہ خود کو ڈال دیا