ٹانگ بچائو، جمہوریت چلائو... دکانداری طرزِ جمہوریت کا نیا نعرہ بن گیا ہے۔ ان کا پرانا نعرہ بھی قوم کو ابھی تک یاد ہے‘ جس کے نتیجے میں غریب عوام، ڈالر اکائونٹس اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جیبوں کی صفائی ہوئی۔ وہ نعرہ تھا 'قرض اتارو ملک سنوارو‘۔
حالیہ نعرے سے پہلے نواز حکومت نے لندن پلان، دھرنا پلان اور اس سے بھی قبل غلیل پلان کے نعرے بلند کیے تھے۔ نیا نعرہ ایک گِھسی پِٹی پرانی سازشی تھیوری پر مشتمل ہے‘ جس کے مطابق 12 اکتوبر 1999ء سے آج تک نواز جمہوریت بار بار ایک ہی شربت کو مختلف رنگ کی بوتلوں میں بھر بھر کر سیاسی سٹاک ایکس چینج کا ریٹ بڑھانے کے لیے مارکیٹ میں لاتی رہتی ہے۔ اس سازشی تھیوری کو آگے بڑھانے کے لیے حکومت نے تین ٹیمیں بنا رکھی ہیں۔
پہلی ٹیم کے امیرِ لشکر کا عہدہ وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہے۔ اس ٹیم کا کام ان سیاسی جماعتوں کو ڈرانا بلکہ زیرِ دبائو رکھنا ہے‘ جو گرینڈ مک مکا میں شامل ہیں۔ نواز حکومت اس سے دو مقاصد حاصل کرتی ہے۔ پہلا مقصد یہ کہ سیاسی اتحادی ہر وقت خوف کا شکار رہیں۔ اور دوسرا، اس خوف کے زیرِ اثر وہ جمہوریت کی دکان کا دو نمبر مال بیچیں‘ اور اونچی آواز میں ہاکر کا کردار ادا کرنے پر راضی رہیں۔ ایسا ہی تازہ ترین مظاہرہ قوم نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دیکھا اور سنا۔
سرکار کی دوسری ٹیم غیر سرکاری ہے۔ اس ٹیم کو آج کل میڈیا میں شدید مار پڑ رہی ہے۔ اس ٹیم کو باہر کی ناکامیاں جبکہ اندر سے روزانہ کی ڈانٹ ڈپٹ کٹہرے میں کھڑا رکھتی ہیں۔
تیسری ٹیم ان سرمایہ کاروں پر مشتمل ہے‘ جو بیرونِ ملک حکومت کی لابنگ کا خرچہ برداشت کرتے ہیں‘ تاکہ عالمی مراکز کو یہ یقین دلایا جائے کہ پاکستان کے لیے تاجرانہ نظامِ حکومت اشد ضروری ہے۔
اس منظرنامہ سے ابھرنے والا اہم ترین سوال یہ ہے کہ خود نواز جمہوریت کی ٹانگ کس نے کھینچی...؟ برادرِ مکرم حسن نثار کا خیال ہے کہ تاجرانہ جمہوریت ٹانگوں سے معذور ہے۔ ان کے خیال میں جمہوریت کی ٹانگ ہے ہی نہیں‘ لہٰذا اسے کھینچے گا کون...؟ کچھ دوسرے دوستوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے بعد گلو بٹ ذہنیت رکھنے والے لیڈروں کی گردن کا سریا لٹک کر ٹانگ تک آ گیا۔ کچھ دیگر احباب کے مطابق تاجرانہ جمہوریت، لوہے کے جنگلے اور سریے کی بیساکھی کو ٹانگ کہہ کر احساسِ ندامت سے بچنا چاہتی ہے۔
بہرحال اگر یہ بات بغیر کسی معقول دلیل کے مان ہی لی جائے کہ اس جمہوریت کی ٹانگیں ہیں‘ تو پھر وزیر اعظم کو بتانا پڑے گا کہ جمہوری ٹانگ کو کھینچا کس نے۔ بظاہر ''ٹانگ کِھچ‘‘ کے امیدواروں کی فہرست یوں بنتی ہے۔
امیدوار نمبر ایک: عالمی طاقتیں‘ جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہو سکتے ہیں‘ مگر ایک اہم ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ ہماری ٹریڈر لیڈرشپ کا کون سا ایسا کارنامہ ہے‘ جس سے عالمی استعمار، سپر پاور سمیت ترقی یافتہ عالمی قوتوں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے...؟ بے شرمی کی حد کراس کر دینے والی شرائط پر 24 گھنٹے قرضہ مانگنے والے بھکاری سے ڈرے گا کون...؟
امیدوار نمبر دو: علاقائی نمبر دار‘ جن میں کا ایک برادر اسلامی ملک سرِفہرست ہے۔ ساتھ ہی ہمارا پڑوسی ملک۔ دونوں جگہ کی حکومتیں پاکستان میں رائج طرزِ دکانداری کو تابعداری سمجھ کر پروموٹ کرتے ہیں‘ جس طرح موجودہ حکومت گزشتہ اڑھائی برسوں سے کبھی جھجھک کر اور کبھی شرما کر مودی کا نام بھی نہیں لیتی۔ اس سے کم از کم سرکار کو کسی مقامی نمبردار سے کوئی مخلفانہ چیلنج درپیش نہیں۔
امیدوار نمبر تین: اپوزیشن‘ جو بے چاری سرے سے ہے ہی نہیں۔ جہاں کہیں تھوڑی بہت نظر آئے‘ ایک دوسرے کے گلے اور گریبان پکڑے ہوئے ملتی ہے۔
عوامی سطح پر لوگ سمجھتے ہیں وزیر اعظم کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان کی برادری، رشتہ داروں اور تجارتی فرینڈز پر مشتمل وزیر، مشیر، کابینہ کے ساتھ ساتھ بہت سارے کف گیر بھی ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب، گھریلو ٹوٹکا قسم کے وزیرِ خزانہ اور ان کی آل اولاد کو چھوڑ کر ملک میں نہ تو کسی کو گورننس نظر آتی ہے‘ نہ ایشین ٹائیگر‘ نہ ہی عوام کے لیے کوئی رتیّ بھر سہولت۔ ایسے میں جمہوریت کا نیا نعرہ لگنے کے ساتھ ہی ٹھس ہو گیا۔
ویسے بھی نواز حکومت کا ٹریک ریکارڈ ہے‘ جب بھی اس کو بھاری اکثریت ملے یہ بے چاری بھاری مینڈیٹ کے بوجھ تلے دب کر سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں جونہی بھاری مینڈیٹ کا وزن بزرگ لیڈر شپ کے کاندھوں پر پڑا، اس کا حال کچھ یوں ہو گیا۔
وہ ناداں گِر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
پھر اسے بھاری مینڈیٹ کی سیاہ بختی کہہ لیں کہ اس وقت دنیا کے پاس ان کے نعرے کی لذت محسوس کرنے کا وقت ہی نہیں۔ پیرس گزشتہ ایک ہفتے سے عملی طور پر میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ عالمی رائے عامہ کا دوسرا بڑا مسئلہ سابق عالمی طاقت روس کی نئی انگڑائی ہے‘ جس میں ہر بدلتے دن نیا ''ٹرن‘‘ آتا ہے یا تازہ ''ٹوئسٹ‘‘۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نئے انتخابات میں مصروف ہے۔ مڈل ایسٹ میں موجود نئے نعرے کے ممکنہ سرپرست خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عربستان سے مغربستان تک، جس جس نے دوسروں کی زمین پر آگ اور بارود کے تحفے بھجوائے‘ آج کل ان کی واپسی کا سیزن شروع ہے۔ جن نوجوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف دے کر انہیں مظلوم انسانوں کی مدد کرنے کے لیے بھیجا گیا‘ وہ گھر واپس آرہے ہیں‘ لیکن لوٹ کر آنے والے کلاشنکوف، بزوکہ اور آر پی جی کو سڑکوں پر جھاڑو پھیرنے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ جنگ کو ویڈیو گیم سمجھنے والے آج کل بغداد، ٹریپولی، دمشق کے شعلے پیرس میں لپکتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے میں کس کے پاس وقت ہے کہ وہ جمہوریت کی ٹانگ بچانے کے لیے بحری بیڑا بھجوائے۔ آج کا اصل سوال یہ ہے:
ہر سینہء چمن میں ناسور ہیں تو کیوں ہیں
یا رب یہ تیرے بندے، مجبور ہیں تو کیوں ہیں
خونِ شفق کی ضَو ہے، مَحلوں کے حاشیے پر
پیکِ قضا کی زد میں، جمہور ہیں تو کیوں ہیں؟