ایک ہی دن میں دو طرح کے پیغام موصول ہوئے۔پہلا پیغام ٹویٹر پرتھاجبکہ دوسرا ہاؤس آف فیڈریشن کی فنکشنل کمیٹی کی کاروائی کے بارے میں۔ان دونوں پیغامات کو Eye Opnerیعنی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی کہا جا سکتا ہے۔اولین پیغام ،ای او بی آئی کے پینشنرز کی طرف سے آیا ۔کہا یوں لگتا ہے آئین صرف سرکاری ملازمت کے پنشنرز کو تخفظ دینے کے لیئے بنایا گیا۔ای او بی آئی کا فنڈ اربوں میں نہیں کھربوں میں ہے۔لیکن ہماری حیثیت کتے سے کمتر۔دوسرا پیغام،پاکستان کی وزارتِ امورِ "ڈالر اینڈ ریال" کی طرف سے تھا ۔جسے اسلام آباد کی بیوروکریسی عرفِ عام میں وزارت ِسمدھی امور،بروزن ِوزارتِ مذہبی امور کہتی ہے۔دوسرے پیغام میں قوم کو بتایا گیا کہ سروس آف پاکستان میں سرکاری نوکری کا بلند ترین درجہ گریڈ 22ہے۔لیکن پنشن کے لیے حکومتِ پاکستان کی ملازمت کا بلند ترین درجہ ہے گریڈ 23۔
ایک تازہ واقعہ ہے جو آپ سے بھی شیئر کر لیتا ہوں۔جمعرات کے دن سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنے کلائنٹ کا مقدمہ لڑنے کے بعد پارلیمینٹ ہاؤس پہنچا ۔ہمیشہ کی طرح اس خیال کے ساتھ کہ شاید آج پارلیمنٹ عوام کے کسی مقدمے پر توجہ دے گی اور مجھے بھی قوم کا مقدمہ لڑنے کے لیئے اپنا حصہ ڈالنے کا موقع ملے گا۔چار ،پانچ مقررین نے چند منٹ لفظی تقریریں کیں۔جس میں وزارتِ داخلہ کے اس نوٹیفکیشن پر بات ہوئی جس کے ذریعے رینجرز کو سندھ میںمزید 60دن آپریشن کرنے کی اجازت ملی۔ایک آدھ چھوڑ کر مقررین کے گلے میں مفاہمت پھنسی ہوئی دکھائی دی۔جس کے بعد نمائشی یا فرمائشی قسم کاواک آؤٹ سٹیج ہوا۔اس دوران چیئرمین سینیٹ نے وزیرِ اطلاعات پرویز رشید ،اقبال ظفر جھگڑا اور مشاہد اللہ خان کو اپوزیشن لابی میں بھجوایا۔ٹھٹھا مذاق کے دوران واپس چلو کا مطالبہ ہوا میں نے سہ فریقی جرگے سے کہا مفاہمت کی ندامت کی ماری ہوئی اپوزیشن نے کہاں جانا ہے۔آپ چلیں یہ آپ کے پیچھے پیچھے خود چل پڑے گی۔اب پوری قوم کو پتا ہے ان ایوانوں میں اختلاف نہیں" نورا کشتی "ہوتی ہے۔جو اپوزیشن 10منٹ عوام کے حق میں کھڑی نہیں ہو سکتی اس سے آپ کو کیسا ڈر۔؟وزیرِ اطلاعات نے ہلکے پھلکے انداز میں تبصرہ کیا یہ اور دیکھو ،یہ اپوزیشن کا نیا فلسفہ لائے ہیں۔سینیٹرز نے کہا یہ کہتے تو درست ہیں یہ الگ بات ہے ہم ان کی بات مان نہیں رہے۔جس پر میں نے پرویز رشید کو مخاطب کر کے کہا این ایس ایف والے پرویز رشید کو معلوم ہونا چاہیے اپوزیشن کیا ہوتی ہے۔
سینیٹ کا موجودہ سیشن بھی حسبِ معمول انجمنِ ستائشِ باہمی کا اجتماع ثابت ہوا۔پارلیمنٹ کے زیریں فلور والے راستے پر میڈیا کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔آج زیادہ تر سوالات 2015ء میں پارلیمنٹ کی کارکردگی کے بارے میں ہوئے۔ایک خاتون رپورٹر نے مجھ سے پوچھا گزشتہ سال میں پارلیمنٹ میں بہترین کارکردگی کاا یوارڈاگر آپ کو دینا پڑے تو آپ کس کو دیں گے۔؟میں نے باہر کھڑے سپیشل برانچ کے ایک بابے کی طرف اشارہ کیا‘جو سفید کپڑوں میں ہر روز پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے صحافی بن کر سب کی گفتگو ریکارڈ کرتا ہے۔پھر اس ریکارڈ نگ کوسننے والے افسران وزیراعظم ہاؤس میں ڈیلی سیکرٹ رپورٹ (D.S.R)بھجواتے ہیں۔جس میں لکھا جاتا ہے کہ انہوں نے بڑا" خرچہ" کر کے اعلیٰ ترین سورس کے مطابق بابر اعوان یا کسی دوسرے کے خفیہ خیالات معلوم کیے۔ایسی ہی رپورٹوں کو بنیاد بنا کر وہ لوگ منتخب کیے جاتے ہیں جن کے ٹیلیفون ٹیپ کیے جائیں ۔میں نے خاتون رپورٹر سے کہا مجھے پارلیمانی کارکردگی کا ایوارڈ دینا پڑے تو اس بابے کو دوں گا جو ہر روز رپورٹنگ کے لیے وقت پر پہنچتا ہے اور پھر اس کی رپورٹ ہائی ویلیو ٹارگٹ چننے کی بنیاد بنتی ہے۔
پارلیمینٹ کے باہر ایک اور رپورٹر نے بھی دلچسپ سوال کیا۔سوال ایسا تھا جس کا جواب آف دی ریکارڈ بنتا تھا۔میں نے بڑی مشکل سے اپنے جواب پر کنٹرول کیا اور رپورٹر کو ٹال دیا۔رپورٹر بھی اپنے کام کا دَھنی تھا، میرے پیچھے میری گاڑی تک آیا۔ راز داری کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہنے لگا ‘میںحلف دیتا ہوں آپ کا دیا ہواجواب" آف دی ریکارڈ" رہے گا۔میں نے کہا میرا تجربہ ہے۔ سوائے رؤف کلاسرا اور شکیل شیخ کے کسی رپورٹر سے آف دی ریکارڈ کی گئی گفتگو آف دی ریکارڈ کبھی نہیں رہی۔اسلام آباد کے ایک بڑے اردو اخبار کے ایک بڑے رپورٹر صاحب سے دو نسلوں کا تعلق ہے۔دو سال پہلے موصوف روٹین کے مطابق تشریف لائے کہنے لگے آپ کی نظر میں ملک میں کسی نئی سیاسی پارٹی کی گنجائش موجود ہے ۔؟ان دنوں پیپلز پارٹی پنجاب میں آہستہ آہستہ تلاشِ گمشدہ کے زمرے میں آنا شروع ہوئی تھی۔میں نے کہا ہاں پنجاب میں ایک قوم پرست سیاسی جماعت کی وکینسی خالی ہے۔کیونکہ پنجاب میں پنجاب کے نام پر کشمیری بزنس مین برادری کے اقتدار نے پنجابیوں کے کاز کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔جن کے دور میں پنجابی زبان‘ کلچر اور پنجابی اخبار غائب ہوئے‘کالا باغ ڈیم پنجابی ڈیم بن کر مسترد ہوا۔اور پنجاب کے باغوں سے لے کر تعلیمی ادارے تک شاہی خاندان کے نام پر بنائے جانے لگے ۔جبکہ سب سے زیادہ گالی بھی پنجاب کو پڑتی رہتی ہے۔رپورٹر صاحب نے گھر پہنچنے سے پہلے خبر بریک کر دی اور وہ یہ کہ میں عنقریب "پنجابی پارٹی"یعنی پی پی کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے کے آخری مرحلے پر ہوں۔
گزشتہ جمعہ کے روز سورج غروب ہونے کے بعد میں جناح ایونیو پر آیا تو سکیورٹی والوں نے روک لیا۔ کہنے لگے سر، آگے جلوس ہے آپ مت جائیں۔میں نے پوچھا کس کا جلوس ۔؟بولے ایڈہاک اور ڈیلی ویجر خواتین ٹیچروں کا جلوس دھرنا دے کر بیٹھا ہے۔سکیورٹی ماہرین کے منع کرنے کے باوجود میں گاڑی سے اتر کر جلوس میں داخل ہو گیا۔جوان لڑکیاں اور لڑکے تین سال سے لے کر بارہ سال تک بطور ٹیچر نوکریاں کر چکے ہیںمگر ان کے ریگولر ہونے کی نہ کوئی امید ہے نہ کوئی آس۔ان کے لہجوں کی تلخی بتاتی ہے۔کہ ان کے لیے ان کا مستقبل نوکری نہیں زندگی یا موت کا سوال ہے۔بہت سال پہلے کسی شاعر نے کہا تھا ؎
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دوہری دھار کا خنجر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
یہ ٹیچر 40دن سے دھرنے پر ہیں۔قائداعظم یونیورسٹی کے لڑکیاں لڑکے فیس میں اضافے کے خلاف سڑک پر ہیں۔گریڈ 23کی پنشن والے سمجھتے ہیں ان کی رعایا میں آدھی عمارتیں ہیں اور آدھی فائلیں۔حکمران چینی بینک کے مہنگے ترین قرضے کو عظیم تخفہ کہتے ہیں‘میگا پراجیکٹ ،کمیشن اور جنگلے کو ترقی کا راستہ۔جن عرب ملکوں کے سویلین ڈکٹیٹر ایسا سمجھتے تھے وہ بحیرہ عرب کے طوفان میں تنکے کی طرح بہہ گئے *اپنے ہاں بھی زیادہ وقت نہیں بچا۔