فرنگی ڈیموکریسی، جمہوریت کی ماں کہلاتی ہے۔آج یہ ماں بال کھولے بین کر رہی ہو گی۔اس لیے کہ مادام کا ہزار سالہ ریکارڈ پاکستان کی بالادست پارلیمنٹ نے توڑ پھوڑ کر مٹی میں ملا دیا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے تین سال بعد انگڑائی لی۔چنانچہ ایک ترمیم کرڈالی۔ ترمیم، قواعد قومی اسمبلی 2007ء میں تجویز ہوئی۔مقصدوزیراعظم کو پابند بنانا تھا کہ وہ ـوقفہ سوالات کا ایک گھنٹہ پارلیمنٹ کی بالادستی میں برکت ڈالنے ایوان میں آکر ثوابِ دارین کمائیں۔
پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں ممبران کی تعداد 342ہے۔ ان میںسے70ممبران کی ''بھاری اکثریت‘‘نے کہا وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں آنے کی ضرورت نہیں۔63بولے ایوان کو ویران نہ چھوڑیں۔یوں وزیراعظم کے پسندیدہ سپیکر نے اپنے دیدہ وَر وزیراعظم کو''بیل آؤٹ‘‘ کر دیا۔پاکستان سے کمائے سرمائے سے لندن میں محل بنانے والے ہمیشہ جمہوریت سے عہدِ وفا نبھانے کا نعرہ لگاتے ہیں۔کچھ احتساب سے خوفزدہ اور کچھ اپنے کارناموں سے ڈر کر جمہوریت کو''کاندھا ‘‘دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ذرا یہ جان لیں ہم جسے جمہوریت کہہ رہے ہیں وہ ہے کیا...؟ لہذا جمہوریت کی ماں کا حال احوال اور طریقہ کار دیکھتے ہیں ۔میری مرادبرطانوی دارالعوام سے ہے۔آپ اسے قومی اسمبلی سمجھ لیں۔جس کاہال ہمارے اسمبلی ہال کے پانچویں حصے کے برابر ہو گا۔اس میں لگی کرسیاںوکیلوںکے پٹھوں جیسا منظر پیش کرتی ہیں۔ اجلاس شروع ہوتا ہے، دارالعوام کے کچھ ممبر بیٹھ جاتے ہیں کچھ کھڑے رہتے ہیں کرسیاں کم حاضر ممبر زیادہ۔سپیکر دارالعوام میں ویسے ہی بیٹھتا ہے جیسے اس کے ارکان ۔اس کے لیے نہ انصاف کے مندر والی کرسی ‘نہ عدل ِجہانگیری والا جاہ و جلال ۔ نہ ایسا اونچا منچ جس پر براجمان سپیکر کے جوتے اور ارکان کے سر ایک ہی درجے پر ہوتے ہیں۔ برطانوی اسمبلی میں پارلیمانی بزنس کے ایک گھنٹے کا نام''GRILLING HOUR‘‘ہے۔ایک گھنٹہ وزیراعطم بنچوں کے درمیان یوں کھڑا ہوتا ہے جیسے ملزم صفائی دینے کے لیے کٹہرے میں آئے۔وزیر اعظم ایوان کے ہر رکن سے درخواست کرتا ہے کہ فاضل ممبر انتظار فرمائیں ، پھر جواب دیتا ہے۔اسے برطانوی دارلعوام کی روایت Spaceکہا جاتا ہے۔جس کا مطلب حوصلہ یا برداشت ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم ہر سوال پر کھڑا ہوتا ہے ۔اپوزیشن ارکان ہر جواب پر وزیراعظم کی براہ راست ہوٹنگ کرتے ہیں۔وہ بھی اس کے منہ پر، اس کے دائیں بائیںاور سامنے کھڑے ہو کر۔ یہ گھنٹہ برطانوی طرزِ حکومت عرف جمہوریت کی جان یا ڈارلنگ ہے۔
اس ہفتے ہماری پارلیمنٹ نے یہ روایت مسترد کر کے جمہوریت کی ماں کے منہ پر طمانچے مارے۔جس کی کچھ مزید تفصیلات بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ مثال کے طور پر پاکستانی دارالعوام میں ووٹوں کی گنتی کے دوران لاہوری حلقہ NA-122کا ری پلے ہوگیا۔پہلی گنتی میں اپوزیشن کے ووٹ 53بتائے گئے ۔اپوزیشن ارکان نے گنتی چیلنج کر دی۔جس کے نتیجے میں دوبارہ گنتی میںحکومت کے70ارکان کے مقابلے میں اپوزیشن کے ووٹ 53سے بڑھ کر63نکل آئے۔سپیکر نے تیسری گنتی نہ کروا کے اچھا کیا ورنہ بڑا اپ سیٹ ہو سکتا تھا۔
ہمارے ہاں ووٹ کے تقدس کا یہ عالم ہے۔ قومی اسمبلی کو'' قوت بخشنے والی‘‘ تجویز پر بھی گنتی کے دوران ووٹنگ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔اس کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے جھرلو،ٹھپہ،دھاندلہ ،پوری قوم کے لیے ''آرڈر آف دی ڈے‘‘بن چکا۔یونین کونسل سے لے کر قومی اسمبلی فلور تک ووٹوں کی گنتی کا طریقہ کار اور معیار ایک جیسا ہے۔ ایک اور پہلو قابلِ توجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی‘ ہمارے حکمرانوں کے لیے پھجّے کے تیار کردہ سِری پائے جتنی بھی اہمیت نہیں رکھتی۔وہی خوش نصیب پائے جو ہر روز وقت پرقومی جوش وجذبہ سے کھائے جاتے ہیں۔ اسمبلی کا کیا ہے ۔ڈھائی سال اس نے ہر موقع پر جمہوریت کی تابعداری کی اور ذاتی مفاد کی آبیاری بھی۔ وزیراعظم کے پارلیمینٹ آنے کی روایت قائم ہو جاتی تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پرمٹ،ٹھیکہ اور درخواستوںپر''گھوگی‘‘ لگوانے والے ایم این اے اٹھاتے۔
ہماری جمہوریت کے پاس عوامی خدمت پلان کے ''چار پاوے‘‘ہیں۔ویسے ہی چارپاوے جیسے میت کو جنازہ گاہ اور پھر قبر میں اتارنے والے تخت کے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کاا ولین پاوا غیر ملکی اور اندرونی قرضے ہیں۔ قومی معیشت میں یہ پاوا ٹھوکنے والا مہربان آئی ایم ایف کہلاتا ہے۔ مہربان کے مقامی کوتوال نے دو دن پہلے پاکستانیوں کی قومی حمیت پر تین عدد ''پاپوش‘‘ رسید کیے۔ فرمایا، پاک چائنہ کاری ڈور میں شفافیت ہونی چاہیے۔ اس مغربی بنیے کو ہماری کتنی فکر ہے۔ اس کے مقامی منشی، مشدّی اور ہرکارے اس کے پورے تابعدار۔آئی ایم ایف کے مینڈیٹ میں دو ملکوں کا جوائنٹ وینچر پروجیکٹ آتا ہی نہیں۔اس کے باوجود ایک طرف سی پیک کو متنازع بنانے کے لیے آئی ایم ایف کے نیلے ،پیلے ،کالے ، رنگ برنگے فرنٹ مین دوڑ رہے ہیں۔دوسری طرف گورا''طائرِ لاہوتی ‘‘ کوڈکٹیٹ کرتا ہے یہ ملک کیسے چلاؤ۔اسی آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا پاکستان کی سرکار تیزی سے قومی اثاثوں کی لوٹ سیل لگائے۔پھر کہاغریب عوام پر مزید ٹیکس لگاؤ۔دوسرا''پاوا‘‘ ہے جس کی نشاندہی ایک انگریزی معاصر کے رپورٹر نے جرا ت سے کی۔دو کا ذکر پھر کبھی ۔جندال کے دورہ لاہور اور مودی کے دورہ پٹھان کوٹ کے فوراً بعد پاکستان آرمی سے متعلقہ ادارہ ڈی ایچ اے طوفان کی آنکھ میں ہے۔اس موضوع پر سٹریٹ جسٹس جاری ہے۔الزام سے پہلے میڈیا ٹرائل کے ذریعے فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔35سالہ تجربہ کارحکمران+ ان کے حامی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ہر لمحہ ڈال رہے ہیں۔انگریزی معاصر کے لاہورئیے رپورٹر نے قوم کی توجہ گزشتہ سیاسی چیف کے بیٹے کی طرف دلوائی۔ جو ابّا کے سرکاری گھر کے رہائشی پتے پر کمپنیاں بنا کر کروڑوں اربوں میں کھیل رہا ہے۔
جمہوریت عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کیسے ڈرامے سٹیج کرتی ہے،اس کا تازہ ثبوت ایک دن پہلے ہو اکے دوش پر آن ائیر آیا۔ ایکٹ ون یہ تھا وزیر مذہبی امور کے بیٹے کو کسی یورپی ملک میں تعیناتی ملی۔وزیراعطم ہاؤس کے ترجمان نے نوٹس لینے کی خبر چلوا دی۔ ساتھ شرط لگائی اگر یہ تعیناتی میرٹ پر نہ ہوئی توضرورکارروائی کریں گے۔اس وقت متروکہ وقف املاک کے محکمے سمیت43ایسے ادارے اور عہدے (PUBLIC OFFICES) ہیں جن پر حکمران اشرافیہ کے گھر کے افراد،رشتہ دار اور گھریلو ملازم ٹائپ کروڑوں روپے سالانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔یہ مقابلے کے کس امتحان میں بیٹھے ۔۔۔؟وزیر مذہبی امورجو ''ہمارا ہزارے وال ہے‘‘ہندکو بولتا ہے ۔ پوچھ کربتا سکتا ہوں ڈانٹ ،ڈپٹ ناراضگی کی وجہ کیا ہے۔؟ویسے ،ریت کی دیوار اور ناراض۔؟ اقبال ؒ نے بھی دستر خوانِ اقتدار کے ٹکڑہ خور بے نقاب کیے۔
ممبری اِمپریل کونسل کی ،کچھ مشکل نہیں
ووٹ تو مل جائیںگے، پیسے بھی دلوائیں گے کیا؟
میرزا غالب، خدا بخشے بجا فرما گئے
ہم نے یہ مانا کہ دہلی میں رہیں ،کھائیں گے کیا؟