بالآخر جمہوریت کے بطن سے'' چھوٹا‘‘ عرف مِنی مارشل لا کے جڑواںبچے پیدا ہو گئے۔نومولودکی پیدائش پر اپوزیشن کے وہ لوگ‘ جو دھرنے میں بیٹھے عوام کا مذاق اڑاتے تھے اور وہ جو موجودہ نظام کو ''جمہوریت‘‘ کہہ کر اس کے تخفظ کی '' نقدی ‘‘وصول کر تے ہیں‘انہیں مبارکباد دینا پڑے گی۔ کیونکہ پی آئی اے اور آر ڈی اے میں ان کی محنتوں کا ثمر سامنے آگیا ۔
یہاں کوئی سوال کر سکتا ہے کہ میں نے وزیراعظم نوازشریف یا کابینہ کو مبارکباد کیوں نہیں دی؟اس کا جواب قوم کے سامنے ان کا ٹریک ریکارڈ ہے ۔نواز شریف صاحب 1990ء کی دہائی میںبطور وزیراعظم بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے2کے بجائے3لائنوں والا ریکارڈ لوہے کی پٹڑی کی طرح مضبوط بنا دیا۔ان میں سے پہلا فوجی عدالتوں کا قیام تھا‘ جس میں سندھ کے 8لڑکے پھانسی پا کر اپیل تک پہنچے‘اور پھر اپیل کا حق گمشدہ پایا۔سپریم کورٹ سے لیاقت حسین کیس کا فیصلہ آنے تک ان لڑکوں کو پھانسی دے دی گئی۔اسی عشرے میں نواز حکومت نے احتساب کا بدنامِ زمانہ قانون احتساب ایکٹ 1997ء پاس کیا‘جس میں اپنے ہی سینیٹر کو احتساب کا سربراہ بنا کر اپوزیشن کو بلڈوز کرنے کی سکیم متعارف کروائی۔تب شہید بینظیر بھٹو زندہ تھیں۔وہ16ارکانِ قومی اسمبلی کے ساتھ اس کالے قانون کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئیں۔پھر نواز شریف صاحب کی حکومت میں ہی انسدادِ دہشتگردی ایکٹ آیا،جس کے تین نکات ''نازی ازم‘‘ ثابت ہوئے۔
اولین نکتہ یہ کہ ہڑتال اور تالا بندی کو دہشتگردی کے زمرے میں ڈال دیا گیا۔ملک بھر کے سیاسی کارکن،فیکٹری ورکر،کلرک اور نچلے درجے کے کارکن کے اجتماع بند۔بلکہ تین سے زائد اکٹھے چلنے والوں کو بھی دہشت گرد ی کی تعریف میں شامل کر دیا گیا۔اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ کام میں سست روی، (Go Slow) بھی دہشت گردی کے جرم کی تعریف میں شامل ہو گئی۔اسی دوران شہید بینظیر بھٹو کے خلاف من پسند ججوں کے پاس مقدمات چلوائے گئے۔لاہور ہائی کورٹ کے ایک حاضر سروس جج اور اسی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی گفتگو والی ٹیپ ریکارڈنگ سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔دونوں فارغ ہوئے، لیکن عدلیہ کو ظلم،مک مکا اور نا انصافی کے لیے '' چمک ‘‘ کی راہ پر لگانے والے بنارسی ٹھگ صاف بچ نکلے۔
جس دن موجودہ سرکار کے ترجمان نے کہا کہ پی آئی اے میں ہڑتالیوں کے پَر کاٹ دیں گے اور قانون اپنا راستہ بنائے گا ‘اسی دن میں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس خدشے کا اظہار کر دیا تھاکہ اب پی آئی اے میں کارکنوں کی خیر نہیں۔ماڈل ٹاؤن لاہور،فیصل آباد اور شاہراہِ دستور پر قانون کو''راستہ بناتے ‘‘سب نے ٹی وی سکرین پر دیکھا۔ ماڈل ٹاؤن میں ،17لاشیں کیمروں کے سامنے گرانے والے نامزد ملزموں میں سے نہ کوئی گرفتار، نہ ضمانت پر رہا۔من پسند پولیس والوں کی خصوصی ٹیمیںملزموں کے حق میں بے گناہی کی ضمنیاں لکھتی رہیں،حالانکہ قتل کے مقدمے میںنامزد ملزم کو سیشن جج یعنی ٹرائل کورٹ کے علاوہ مجسٹریٹ تک کو بھی بے گناہ قرار دینے کا اختیار نہیں۔ پولیس کے یہ '' آرڈر‘‘ نظامِ انصاف کے منہ پر آج بھی طمانچہ ہیں‘ چنانچہ وہی ہواجس کا خدشہ تھا۔ پی آئی اے میں ٹریڈیونین سرگرمیوںپر پابندی لگادی گئی۔ملازمین اور کارکن لازمی سروس ایکٹ کے نشانے پر ہیں‘اور خالی ہاتھ نہتے محنت کش خاک و خون میں نہلا دیے گئے۔تین عفت مآب خواتین بیوہ اور درجن بھر بچے یتیم ہو گئے۔
تازہ جمہوریت کے اس قدر''شاندار‘‘ٹریک ریکارڈ کے بعد میں ذاتی تجربات کی روشنی میں پاکستان کے محنت کش عوام،مزدور،کسان اورہاری کو بتانا چاہتا ہوں کہ سیاسی بند ر بانٹ یا مک مکا والی ''بندوبستی جمہوریت‘‘ میں ان کے حصے میں مونگ پھلی کا دانہ بھی نہیں آئے گا۔کون نہیں جانتا کہ لاہور انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تحفہ کہہ کر دھند میں لینڈنگ کے لے جو بتیاں لگائی گئیں‘ ان کی راہنمائی میں صرف دو ملکوں کے جہاز لینڈ کر سکتے ہیں۔ایسے جہاز جن میںنصب شدہ آلے ان روشنیوں سے راہنمائی لے سکتے ہیں۔خیر سے پی آئی اے کا کوئی جہاز اس سہولت سے آراستہ نہیں۔ لہٰذا نتیجہ یہ ہے پی آئی اے کے علاوہ جو ایئرلائن چاہے لاہور ایئر پورٹ سے فائدہ حاصل کر سکتی ہے۔ساتھ ہی اطلاع ہے کہ چین کی ایک ایئر لائن کو فرنٹ مین کے طور پر چن لیا گیا ہے۔آج ایک ادارے میں مزدور یونین کے ملازمین پرسروس ایکٹ کا ہتھوڑا مارا گیا۔ باقی ٹریڈ یونین بھی تیاری کر لیں۔مِلوں کے مالک سرمایہ دار وںاور صنعتکاروں نے کس صدی میں یا کس ملک میںکارکنوں کو یونین سازی کا حق دیا؟پی آئی اے میں لازمی سروس ایکٹ کا نفاذمیرے لیے حیرانی کی بات نہیں۔محنت اور سرمایہ ایک دوسرے کی ضد ہیں اور باہم کھلا تضاد بھی۔
موجودہ سرکار کی انصاف پسندی پر شک کر نے کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ایک طرف مسلسل اقتدار کے غرور میں نہایا ہوا تکبّر ہے‘دوسری جانب پی آئی اے کے وہ ملازم جن کو گن پوائنٹ پر نوکریاں نہیں ملیں۔بلکہ ایسی ہی جمہوریتوںنے ان کو تقرر نامے جاری کیے۔تازہ بابائے جمہوریت عرف چیف ایگزیکٹو عرف وزیراعظم صاحب بہادر نے پی آئی اے کے شہید اور زخمی ہونے والے کارکنوں کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ نہیں بولا۔نہ صرف یہ بلکہ ہمدردی کی بجائے انہوں نے متاثرین کے اوپر دھمکیوں کے مزید کوڑے برسا دیئے‘جس سے ظاہر ہوتا ہے سرکار، ملکِ پاکستان کے زیورات بیچنا چاہتی ہے۔ ریاستوں کی عالمی اصطلاح میں قومی فلیگ بردار جہازوں، توانائی اور بڑے ریاستی اداروں کو (Ornaments Of The State)کہا جاتا ہے‘جس کا مطلب ہے ‘ایسے ادارے ریاست کے زیورات ہیں۔ماں دھرتی کے چہرے سے زیورات نوچنے والے نوکیلے ناخن بھی امپورٹڈ ہیں۔آف شور کمپنیاں اور فرنٹ مین کو ''سرمایہ کار‘‘بنا کر سامنے دکھایا جا رہا ہے۔سٹیٹ لائف،سٹیل مل،پی آئی اے،منگلا،تربیلا اور زیرِ التوا کالا باغ ڈیم کے منصوبے ریاست کے زیورات نہیں تو اور کیا ہیں؟
دوسری جانب راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا تازہ فیصلہ آئین کی روح نکال کر لے گیا۔موصوفہ نے خطہء پوٹھوہار میں آر ڈی اے کی حدود کے اندر نئے سکول قائم کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔یہ وہی آر ڈی اے ہے جس کی حدود میں میٹرو سے گرنے والے جنگلے نے چلتے پھرتے بے شمارمسافروں کے جنازے نکالے۔ آر ڈی اے میں سرکاری زمین پر کچی بستی کے لیے ،لینڈ مافیا،اوقاف املاک کی لوٹ مار،مذہبی ادارہ سڑک کنارے یا پبلک پارک میں بن جائے کوئی پابندی نہیں۔
یوں لگتا ہے غریب اور محنت کش عوام کا مقدر بے شعور گروہ کے ہاتھوں میں چلا گیا ‘جیسے کانے بندر کے ہاتھ میں استرا۔
حرم فروش فقیہوں میں آ گہی نہ شعور
قدم قدم پہ رعونت، نفس نفس میں غرور
ہزار بار بَسے، صد ہزار بار لُٹے
خزاں کی دست درازی سے لالہ زار لُٹے
لہو چھڑک کے کئی ا نقلاب ڈوب گئے
نِکھر نِکھر کے کئی ماہتاب ڈوب گئے