پاکستان میں گیس کا لفظ سنتے ہی اس کی دو شناختیں ذہن میں آتی ہیں۔ ایک وہ گیس جو عوام کو ڈاکٹر کے کلینک تک لے جائے۔ دوسری وہ جو سیدھا تھانے یا پاگل خانے پہنچا دے۔ پہلی قسم کی گیس دل کو جلانے والی‘ جبکہ دوسری طرح کی گیس گھر اور زندہ انسانوں کو آگ لگانے کے کام آ رہی ہے۔ اسی لیے سڑکوں پر بِل جل رہے ہیں اور گیس کے پائپ سیٹی والی موسیقی سنانے کا جدید ذریعہ ہیں۔ ایف ایم ریڈیو سے بھی ذرا آگے بلکہ تازہ ترین۔
گیس کی کہانی کیا ہے...؟ یہ بعد میں دیکھ لیں۔ پہلے سنیے ایشین ٹائیگر کی داستان۔
موجودہ وزیر اعظم نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لیے چار قسم کے دعوے کیے۔ یہ سارے وعدے قوم کے حافظے میں تو محفوظ ہیں ہی اب ساتھ ساتھ ٹی وی کیمرے نے بھی ان دعووں کو فلمی شکل دے ڈالی ہے۔ اخراجات اور مراعات سے بھرپور ''سرکاری مہم‘‘ کے باوجود کوئی نہ کوئی سرپھِرا کہیں نہ کہیں ان دعووں کی فلم چلاتا رہتا ہے۔ ویسے فلم ہوتی ہی چلنے کے لیے ہے۔ فلم ایک دفعہ بن جائے تو پھر وہ چلتی ہی رہتی ہے‘ لہٰذا، جب تک وعدے چلیں گے فلم بھی چلے گی۔
نواز شریف صاحب کا پہلا دعویٰ تھا کہ وہ کھانے پینے کی اشیا کی1990ء والی قیمت واپس لائیں گے۔ ہر گھر میں خوشحالی ہو گی۔ پاکستان میں کوئی بے روزگار باقی نہیں بچے گا۔ آسان شرائط پر عام آدمی کے لیے بھی قرضوں کے ڈھیر لگ جائیں گئے۔ ہر نوجوان کی لیپ یعنی )گود( میں ''ٹاپ‘‘ آ جائے گا۔ دنیا بھر کے بے روزگار پاکستان میں نوکری کی تلاش کے لیے لائنیں لگا کر، ٹکٹ کٹا‘ پہنچیں گے۔ اس دعوے کا کلائمیکس یہ تھا، اس دفعہ نون لیگ ''معاشی دھماکہ‘‘ کرے گی۔
سمجھ نہیں آ رہی معیشت کی بہتری کے کس دعوے پر تبصرہ کیا جائے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ملک کی ہر گلی اور ہر محلے میں لوگ اپنی زبان اور لہجے میں اس پر ہر وقت تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔
دوسرے دعوے کے مطابق نواز شریف صاحب نے پاکستان کو پانچ سالوں میں پیرس بنانا تھا۔ تقریباً تین سالوں کی حکومتی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ آنے والے دو سال ''2 مرتبہ‘‘ پَلک جھپکنے میں گزر جائیں گے۔
آج وفاق اور چاروں صوبوں میں صحت کا بجٹ کم کر کے کاٹ دیا گیا۔ ان تین سالوں میں تعلیم کے بجٹ کو کاٹ کر خیالی ترقی کے منصوبوں پر خرچ کیا گیا۔ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ گئی۔ کئی جگہ نئے سکول بنانے پر پابندی لگی۔ ملکی تاریخ میں مرد اور خواتین اساتذہ نے ریکارڈ ہڑتالیں کیں‘ جس کے جواب میں ''گلو جمہوریت‘‘ نے کار کے شیشے توڑنے والے ''ڈنڈے‘‘ استادوں کے سَر سے لے کر پاؤں تک برسائے۔ ایڈہاک اساتذہ کی تنخواہ چپڑاسی، چوکیدار اور نائب قاصد سے بھی کم ہے۔ ہزاروں استاد کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ کچھ 20 سال سے، کچھ 15 سال سے اور کچھ 10 سال سے کام کر رہے ہیں۔ اس عرصے میں وہ سرکاری نوکری میں جانے والی عمر گنوا بیٹھے۔ گھوسٹ سکول سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ گھوسٹ اساتذہ سکولوں سے بھی زیادہ۔ جہاں جاگیرداری اور وڈیرا شاہی راج کرتی ہے‘ وہاں ایم پی اے اور ایم این اے کے کتّے اور بچَھڑے سکول کے اندر بیٹھتے ہیں‘ جبکہ بچیاں اور بچے کھلے آسمان تلے کبھی ٹھنڈی اور کبھی تپتی ہوئی زمین پر پڑھائی کرتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی شعبے اور فائیو سٹار نجی تعلیمی اداروں میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے گدھے اور ''ایف 16‘‘کی رفتار اور اُڑان جتنا فرق ہے۔ میں بات کو مزید آگے نہیں بڑھاتا‘ آپ ملک کے جس حصے میں بھی رہتے ہیں اپنے بچوں کے سرکاری سکول جا کر دیکھ لیں۔ جو میں نے لکھا‘ آپ کو دیگ میں سے ایک چاول کے دانے کے برابر نظر آئے گا۔
موجودہ وزیر اعظم کا تیسرا وعدہ ہے‘ زرعی مزدور اور کسان ''خوشحال‘‘ ہو گا۔ ساری دنیا میں ڈیزل 2 عشرے کی سستی ترین سطح پر اتر آیا ہے۔ ایشین ''ٹائیگر لمیٹڈ کمپنی‘‘ نے ڈیزل اتنا مہنگا کر دیا کہ آج کسان ٹیوب ویل چلانے سے معذور ہو چکا ہے۔ پنجاب میں کاشتکاری کرنے والا عام کسان زیادہ سے زیادہ 8 ایکڑ زرعی زمین کا مالک ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کی طرح وہ سولر پلانٹ لگا کر بجلی پیدا نہیں کر سکتا۔ کھاد سونے کے بھاؤ بِک رہی ہے۔ زرعی قرضے اورکار ''فنانسنگ‘‘ میں کوئی فرق نہیں بچا۔ کسان اس حکومت کی سب سے آخری ترجیح بن گیا ہے۔ ہماری 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب میں فصلوں کی سرکاری خریداری بند کر دی گئی‘ جس کا فائدہ آڑھتی اٹھاتا ہے اور مِل کا مالک بھی۔ ظاہر ہے دلال یا مڈل مین اس میں لازماً شامل ہو گا۔ آج گندم، گنا، کپاس، سبزی، دال اور تیل پیدا کرنے والی فصلوں سمیت کسی فصل کو اُگانے والا عام کاشتکار اپنے پیسے اور فصل کا خرچہ بھی پورا نہیں کر سکتا۔
کسی زمانے میں پاکستان کو اپنی مضبوط زرعی معیشت پر ناز تھا۔ گزشتہ تین سالوں میں ہماری زراعت معا شی قبرستان میں پہنچ چکی ہے۔ زراعت کی خاص بات یہ تھی، غربت کے باوجود ہمارا عام آدمی دال روٹی یا چٹنی پیاز آسانی سے کھا سکتا تھا۔ دیہی آبادیوں اور کچے گھروندوں میں اب یہ بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ مرکز کی موجودہ سرکار جو 8 سال سے پنجاب میں مسلسل حکومت میں ہے، بجلی، گیس، پانی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتی تھی، اب حکمران یہ دعوے سن کر شرمندہ ہوتے ہیں۔ ان دعووں کو دہرانا ماضی کا قصہ بن گیا۔ وہ لیڈر جو لوڈ شیڈنگ میں موم بتی جلانے اور پنکھا جھلنے کی ایکٹنگ کرتے تھے‘ اب وہی پبلک مقامات سے ماڈلنگ چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ بیمار صنعت دوڑ پڑے گی۔ عملی طور پر مزید صنعتیں بیمار پڑ گئیں۔ نئی صنعت لگانے کی نہ کسی میں ہمت ہے نہ جرأت۔
آپ وکالت نامہ پڑھتے وقت ضرور پوچھیں گے، میں نے کشکول توڑنے والے وعدے کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ یقیناً آپ کو طائرِ لاہوتی یاد ہو گا۔ کشکول کا تذکرہ نہ کرنے کی وجہ صاف ہے۔ الیکشن کے فوراً بعد رنگ برنگے قرضوں سے اس کا پیٹ بھرا گیا۔ پھر کشکول ناک تک قرضوں میں ڈوبا۔ اب اس کے پرخچے اور ٹکڑے کون ڈھونڈے؟
پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا تازہ منصوبہ قطر سے خفیہ معاہدہ ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین گیس اور دنیا کی کمزور ترین جنگ میں پھنسی ہوئی ہماری معیشت۔ گیس کی کہانی ابھی پردے میں ہے۔ گیس پہلے آ گئی ہمارے وزیر اعظم نے معاہدے پر خریداری کے بعد دستخط کیے۔ جب تک یہ حکومت موجود ہے گیس کا یہ معاہدہ ایٹمی راز سے زیادہ خفیہ رہے گا۔ حکومت گئی تو رینٹل پاور میں وفاقی سیکرٹری جس طرح دو دن پہلے 7 مقدمات میں سابق وزیر اعظم کے خلاف سلطانی گواہ بنا‘ ایسے کئی ''سلطانی گواہ‘‘ بننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
آپ جو کچھ بھی کہیں، رات ابھی باقی ہے
دن کے بے روک اجالوں میں کمی باقی ہے
ڈس رہا ہے گل و لالہ کو خزاں کا موسم
طائروں میں ابھی، بے بال و پری باقی ہے
قوم کے ساتھ ضروری ہے کوئی کھیل کرو
کوئی تو بات بہ فرمانِ شہی باقی ہے
کوئی شوشہ کسی اندازِ نوی سے چھوڑو
شہر میں فہم و فراست کی کمی باقی ہے