اس وقت 3کتابیں میرے سامنے کُھلی ہیں۔
اولین کتاب یادوں کا عظیم خزانہ ہے۔دوسری کتاب شہید وزیراعظم بھٹو کا عدالتی قتل۔ تیسری کتاب سپریم کورٹ میں سالہا سال سے زیرِ التواء بھٹو ریفرنس۔یہ کتابیں لکھنے کے لیے جتنا مواد میرے پاس ہے اتنا شاید کسی عدالت نے بھی نہیں دیکھا ۔ملک کے انتہائی معتبر لکھاری کئی بار ترغیب بھی دے چکے ۔ساتھ یہ وعدہ کہ وہ رہنمائی یا معاونت دونوں کے لیے تیار ہیں۔یہ تیار شدہ کتابیں لکھ اس لیے نہیں پایا کہ ابھی میں سیاست میں ہوں۔سوچتا ہوں حاسد،مخالف اور دشمن توایک طرف ،پہلے ہی دوستوں کی تعدادایک انگلی کی گنتی تک محدود ہو گئی۔لہٰذا 100فیصد احباب کو ناراض کرنے کا رِسک ابھی تک نہیں لے پایا۔
شہید قائدِ عوام کو 3ستمبر1977ء کے دن گرفتار کیا گیا۔محض 10دن بعد13ستمبر1977ء کے روز شیر دل جسٹس صمدانی صاحب نے آئین کے خالق کی ضمانت منظور کر لی۔جس جرم کی معاونت کے الزام یعنی120-Bتعزیراتِ پاکستان میں گرفتاری ہوئی اس کی سزا صرف 5سال قید ۔13ستمبر1977ء کا دن تھا۔اس دن لاہور ہائیکورٹ کی تاریخ میں ایسا واقعہ ہوا جس کو ساری دنیا کے جیورسٹ اور آزاد قانون دان ''Murder of a trial‘‘ یعنی مقدمے کا قتل کہتے ہیں۔13ستمبر1977ء کے دن جونہی جسٹس صمدانی کے بنچ نے شہید وزیراعظم کی ضمانت منظور کی اسی روز اس وقت کے سیاسی چیف جسٹس نے ایک فرضی درخواست پر مقدمہ اپنے پاس ٹرانسفر کر لیا۔ فرضی درخواست کی سماعت پر نہ الزام الیہ کو نو ٹس جاری ہوا نہ ہی دفاع کا موقع دیا گیا ۔
ایک اور اہم بات، ضابطہ فوجداری کے مطابق ایسے مقدمات کا ٹرائل سیشن جج کی عدالت کرتی ہے۔انصاف کے قتل کا فیصلہ ہو جانے کے بعد اسی دن اسی چیف جسٹس نے سیشن ٹرائل کی سماعت کے لیے ہائی کورٹ کا فُل بنچ بنا کر صرف 11دن بعد24ستمبر1977کے دن ملزم طلب کر لیے۔ وکیلِ صفائی کی عدم موجودگی میں فردِ جرم لگانے سے پہلے مقدمے کی شہادت طلب کرڈا لی۔ فوراََ بعد 13نومبر1977ء کو، شہید بھٹو کو جیل سے لا کر عدالت میں پیش نہ کیا گیا۔چنانچہ ایک دن کے وقفے کے بعد15نومبر کی تاریخ ڈال دی ۔شہید وزیراعظم چونکہ خود وکیل تھے ،انتہائی ذہین اور معاملہ فہم بھی۔اس لیے ان کو عدالت سے باہر رکھ کر ان کی غیر موجودگی میں اپنی مرضی کا ٹرائل کرنے کے لیے انہیں15نومبر1977ء کے دن بھی عدالت میں پیشی کے لیے نہ لایا گیا۔24 گھنٹے کے اندر اندر اگلی صبح 16نومبر1977ء کے روز جنرل ضیاء کو میرٹ کے بغیر چیف بنانے والے ''ملزم ‘‘کی غیر موجودگی میں مقدمۂ قتل کا ٹرائل شروع ہو گیا۔یاد رہے اگر کسی مقدمے میں ملزم عدالت میں پیش نہ ہو تو اس کی غیر حاضری معاف کی جاتی ہے۔اس مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پیشی سے استثناء کے بغیر ہی استغاثہ کے گواہ کا بیان لکھا گیا۔17نومبر کوبھی عدالت نے گواہی ریکارڈ کی۔ بھٹو کو پھر جیل سے پیش نہ کیا گیا۔ نہ ہی ان کی عدالت میں حاضری معافی کی کارروائی ہوئی۔مقدمے کی اگلی تاریخ پیشی19نومبر ،20نومبر، 21نومبر، 26نومبر، 27نومبر،28نومبر،29نومبرپھر30نومبر تک تمام گواہوں کے بیان ذوالفقار علی بھٹو کی غیر موجودگی میں لکھے گئے۔ 14دسمبر1977ء کو یہی صورتحال ہوئی۔جبکہ15 دسمبر کے دن غیر حاضری میں ٹرائل ہوتا رہا۔
17دسمبر1977ء کو ٹرائل کورٹ نے قتل کے الزام میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے ملزم کو جبری طور پر عدالت سے باہر کر دیا۔اور اس کی غیر حاضری میں انصاف کرنے لگ گئی۔18دسمبر کو بھٹو صاحب عدالت سے باہر اور گواہ عدالت کے اندر۔اس طرح ملزم کی غیر حاضری میں اہم ترین گواہوں کی شہادت ریکارڈ کر کے تحریک آزادی کے مجاہد بھگت سنگھ کے مقدمہ قتل کی تاریخ دہرا دی گئی۔
یہ تفصیل اس لیے بیان کی کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کو ان کے وکیلوں نے مروا دیا۔آئیے ذرا اس کی حقیقت ریکارڈ سے دیکھ لیں۔ غیر حاضری میں لکھے گئے گواہوں کی بنیاد اور ٹرائل کورٹ کے سربراہ کے تعصب(Bias) کی بنیاد پر بھٹو صاحب نے درخواست عدم اعتماددی۔جس کی سماعت سربراہ نے عدالت کی بجائے اپنے چیمبر میں کی۔وکیل پیش کرنے کا موقع نہ دیا۔بھٹو صاحب کو کہا دلائل دیں جس پر سابق وزیراعظم نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ میرے لاء چیمبر میں موجود عدالتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ صرفPW-31 ایک گواہ استغاثہ کے وقت بھٹو صاحب بائیکاٹ پر تھے۔جبکہ ساری شہادت بغیر جرح کے ریکارڈ ہوئی۔اگلے روز وکیل صفائی ڈ ی ۔ ایم اعوان کے ساتھ شدید بد سلوکی ہوئی۔چنانچہ مرحوم نے 10جنوری1978ء کے روز بطور وکیل صفائی اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا۔11جنوری سے 18مارچ تک دنیا کی تاریخ کے المناک ترین عدالتی واقعات ہوئے۔جنہیں پڑھ کرا نصاف کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
یہ تو تھی شہید بھٹو کے عدالتی قتل کی محض ایک جھلک۔اب آئیے بھٹو ریفرنس کی جانب۔اس کا آغاز دبئی میں شہید بی بی کے گھر کی اینکسی سے ہوتا ہے۔سابق صدر آصف زرداری کو دل کا شدید عارضہ لاحق ہوا۔فوری طور پر انہیں دبئی میں ایرانی ہسپتال لے جایا گیا۔کئی دنوں کی کشمکش کے بعد وہ انتہائی نازک صورت میں ہسپتال سے گھر پہنچے۔صحت کا اندازہ یوں کریں کہ وہ پہلے فلور کی سیڑھیاں چڑھنے کے قابل بھی نہ تھے۔چنانچہ انہیں بنگلے کی اینکسی میں شفٹ کیا گیا۔اسی روز مجھے شہید بی بی نے فو ن پر انگریزی میں کہا، آپ کا دوست Near death experienceسے واپس لوٹا۔ فوراَ َ دبئی پہنچیں کوئی اہم بات بھی کرنی ہے۔اس پیغام کے24گھنٹوں کے اندر میں دبئی میں تھا۔جہاں شہید بی بی کہنے لگیں اگر اب پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا تو ہم بھٹو کیس میں عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹائیں گے۔ساتھ پوچھا،اس کے لیے کوئی راستہ ہے؟میں نے جواب دیا،جی ہاں۔آئین کا آرٹیکل186۔
صدرِ پاکستان کی طرف سے سپریم کورٹ بھیجے گئے بھٹو ریفرنس کی ابتدائی سماعت 21اپریل 2011ء کو ہوئی۔3رکنی بنچ نے میرے دلائل سننے کے بعد بھٹو ریفرنس کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کیا۔اور پاکستان کے آئین کے خالق کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لیے حکم جاری کیا۔پیراگراف نمبر 3کا ایک حصہ یوں ہے:
"Meanwhile ,let the original record of the trial of Zulfiqar Ali Bhutto`s case be requisitioned from the Lahore High Court,enabling the learned counsel for the Referring Authority to obtain copies of the same,if need be ,for preparation of arguments"
ـ سب جانتے ہیں چند ماہ بعد ایک سیاسی چیف جسٹس نے بھٹو کے وکیل کو بھٹو کی طرح عدالت سے باہر کر دیا۔اب بھٹو کے سیاسی وارث اور نواسہ بلاول بھٹو نے شہید بھٹو کوا نصاف نہ ملنے کا گِلہ کیا ہے۔اس پر اعتراض کرنے والے چاہیں تو اپنے پہلے منتخب وزیراعظم کی پھانسی کے لیے ایک چیف جسٹس کے 1دن میں جاری کیے ہوئے 4 مختلف ڈیتھ وارنٹ میرے چیمبر میں آ کر دیکھ لیں۔
ہاں مگر جیالوں کا گِلہ بھی درست ہے۔وہ کہتے ہیں بھٹو کے وکیل کو عدالت سے نکالنے کے بعد بھی پی پی3سال بر سرِ اقتدار رہی۔اب مزید3سال اور گزر گئے۔اتنی بڑی پارٹی کے اتنے بڑے بڑے لیڈروں نے بھٹو ریفرنس دوبارہ کھولنے کے لیے جلد سماعت کی درخواست کیوں نہ دائر کی۔؟