پنجاب کے عوام کو مبارک ۔خدمت برانڈ جمہوریت نے ایک اور دعویٰ سچ کر دکھایا۔
وہی مقبولِ عام دعویٰ ‘ جس کی بنیاد پر خادمِ اعلیٰ نے خوشخبری دے رکھی تھی کہ پنجاب میں کوئی نو گوایریا نہیں ہے۔پنجاب کے آئی جی نے فرمایا ،پنجاب پولیس مجرموں کے خلاف آزادانہ آپریشن کرنے کی'' مکمل‘‘صلاحیت رکھتی ہے۔محکمہ داخلہ پنجاب نے کہا،پنجاب کراچی نہیں کہ خواہ مخواہ رینجرز کو بلالیاجائے۔بھاری بھرکم مینڈیٹ والی بڑی جمہوریت کا دعویٰ ایک نان سٹیٹ ایکٹر''چھوٹو‘‘نے سچا کر دکھایا۔پنجاب ،بلوچستان اور سندھ کے سنگم والے علاقے میں حالیہ 3ہفتوں میںثابت ہو گیا وہاں کوئی نوگوایریا نہیں ۔بس ذرا ویسے ہی ڈاکوؤں کی مِنت سماجت ہو رہی تھی کہ ہمارے جوان، وہ بھی دو چار نہیں بلکہ29، آپ کے پاس امانت ہیں‘ آپ ان کی زندگی میں خیانت نہ کریں۔یہ معلوم نہیں ہو سکا ڈاکوؤں نے وائرلیس سیٹ پولیس سے چھینا یا پولیس کا وائرلیس سیٹ اغوا کاروں کو'' فدیہ‘‘ میں ملا۔ یہ بھی ایک بڑا راز ہے کو وائر لیس سیٹ کا پیغام الیکٹرانک میڈیا تک ڈاکوؤں نے پہنچایا یا پولیس نے؟جس میں پولیس کے اس عظیم الشان آپریشن کا انجام آڈیو پیغام کے ذریعے دنیا بھر کے ڈاکوؤں کے نام ہوا کے دوش پر نشر ہوا،جس سے جمہوریت کا دعویٰ پھر سے سچا ثابت ہو گیا کہ پنجاب میں کوئی نو گو ایریا سرے سے موجود نہیں ۔
ابھی دو دن پہلے ویڈیو کلپ پرپنجاب کے متعلقہ وزیر نے ایک اور سچا وعدہ کر دیا۔ قانون کے رکھوالے 302 وغیرہ کے نامزد ملزم وزیر نے انکشاف کیا کہ موجودہ آپریشن صرف چھوٹو گینگ کے خلاف ہو گا۔ریاست کے اندر بنائی گئی اس چھوٹی ریاست میں آنے والے 6سے8نواحی اضلاع کی حدود میں ایک درجن سے زیادہ گینگ آپریٹ کر رہے ہیں۔یہ معلومات کسی انٹیلی جینس ادارے کی فراہم کردہ نہیں ،بلکہ ان علاقوں کے دلیر صحافی جان ہتھیلی پر رکھ کر گینگ اور ان کے سربراہوں کے نام تک اپنی انویسٹی گیٹیو رپورٹوں کے ذریعے اخبارات میں چھاپ چکے ہیں۔
خدمت برانڈ جمہوریت کا اگلا سچا وعدہ یہ ہے کہ صرف ایک گینگ کے خلاف کارروائی ہو گی،جس کا صاف مطلب ہے باقی کو سنبھال کر رکھا جائے گاتا کہ بوقتِ ضرورت ان کی خدمات کے ذریعے جمہوریت کا مزید پھل فروٹ عر ف ثمرات کو سمیٹا جا سکے۔ظاہر ہے جمہوریت کے ''ثمرات‘‘ بقولِ جمہوریت کوئی پاجامہ نہیں ،جو کوئی اکیلا شخص پہن کر پانامہ پہنچ جائے۔ یہ ثمرات پانامہ تک پہنچانے کے لیے کئی قسم کے باڈی گارڈز کی ضرورت پڑتی ہے۔پانامہ اور پاجامہ میں سے حکمرانوں کی پریشانی اور بد حواسی کا سبب کیا ہے ‘ یہ جاننے کے لیے آپ تین کام کر سکتے ہیں۔
پہلاکام،میرے پسندیدہ شاعر خالد مسعود کا کالم پڑھ لیں۔ دوسرا کام،پانامہ کے وزیر خزانہ کا بی بی سی کے نمائندے رچرڈ کوئیسٹ کو دیا گیا انٹرویوانٹر نیٹ پر دیکھ لیں ۔ تیسرا، انٹرنیٹ پر بھارت کی ''را اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے حامیوں کی نواز شریف بچاؤمہم کا ثبوت اور اس کے ویڈیو کلپس ملاحظہ فرما لیں ۔
رچرڈکوئیسٹ نامی معروف انگلش اینکر نے پانامہ کے وزیر خزانہ سے سوال کیا...دنیا بھرکے وزرائے خزانہ کی اس میٹنگ میں کسی نے آپ سے پانامہ لیکس کے بارے میںسوال پوچھا؟پھر مسٹررچرڈ کوئیسٹ نے اگلا سوال جڑ دیا۔ کہا: کسی نے آپ سے پوچھا ہو پانامہ لیکس ،پانامہ لیکس ،پانامہ لیکس ۔پانامہ کا وزیر خزانہ مسکرایا اور بولا: جی ہاں،ابھی پاکستان کا وزیر خزانہ مجھے ملا ،ہماری پہلے سے ملاقات نہیں ہے۔پاکستانی وزیر خزانہ نے مجھے پانامہ لیکس کے نتیجے میں اپنی پریشانیوں سے آگا ہ کیا۔میں نے پاکستان کے وزیر خزانہ سے کہا: یہ آپ کا معاملہ ہے، ہماری معیشت کے لیے ایسی کمپنیاں نہایت ضروری ہیں۔
اب ذرا حکمران اشرافیہ کی اس عالمی مضحکہ خیز ی اور ملک کے اندربڑھک بازی کا ایک اور اینگل سے جائزہ لیں۔وطنِ عزیز کے اندر پانامہ لیکس کے ملزم کہتے ہیں، ہم پانامہ لیکس پر بات کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔اصل جواب دینے کی جگہ تو پانامہ ہے اگر حکمرانوں کے پاس اس میگا کرپشن سکینڈل کا کوئی جواب تھا تو سمدھی صاحب نے وہ جواب پانامہ کے وزیر خزانہ کو ڈٹ کر کیوں نہیں دیا؟جو اپنے تابڑ توڑ دلائل سمیت پانامہ کے وزیر خزانہ کے سامنے شیر کے بجائے بکری بن گئے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے وزیر اعظم کے سمدھی وزیر خزانہ نے پانامہ کے وزیر خزانہ سے ملاقات کیوں کی؟ساتھ دوسرا سوال یہ بھی ہے اس ملاقات کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟وزیر خزانہ نے قوم کو کیوں نہیں بتایا کہ وہ پانامہ کے وزیر خزانہ کے پاؤں نہیں، گریبان پکڑنے گئے تھے۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی چند گھنٹے پہلے دنیا کے سامنے آیا۔دنیا کے8بڑے ممالک نے کرپشن کے پیسے آف شور کمپنی میں چھپانے والوں کا ناطقہ بند کرنے کا عزم ظاہر کیا۔اب کوئی پانامہ جائے یا پاجامہ سنبھال کر ملک کے اندر چیختااور دوڑتا پھر ے، اس کی مدد کے لیے اقتدار کے بین الاقوامی گارنٹر اور بروکر نہیں پہنچیں گے۔عالمی سطح پر جدید تاریخ کی سب سے بڑی اینٹی کرپشن مہم چل نکلی ہے۔بد عنوانی کے خلاف اس مہم میں بغداد سے فرانس تک لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل چکے، باقی جگہ جلسے،جلوس اور مظاہرے جاری ہیں،اس لیے غریبوں کا چوری شدہ پیسہ واپس ضرور آئے گا۔چور چوری کا مال شرافت سے واپس کرے یا پہلے سو گنڈے کھائے اور پھر سو لِتر کھانے کا باعزت راستہ چن لے۔
ذرا غور کریں ابھی تک پانامی چوروں میں سے کسی نے حب الوطنی کا ادنیٰ سا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ یہی کہ وہ چھاتی پر ہاتھ مار ے، کہے کہ پانامہ کے پیسے جائز ہیں ۔جائز طریقے سے کمائے،جائز ثبوت قوم کے سامنے رکھ دے۔اور پھر پنڈی، لاہور، گوجرانوالہ یا کراچی کے کسی بینک میں یہ پیسے ٹرانسفر کروا لے۔فقط اتناسادہ سا تو معاملہ ہے وہ جو کہتے ہیں، پاکستان قرض کے بغیر نہیں چل سکتا ۔قرض والے مرض کی دوا بھی ان لوگوں کی ہی آف شور کمپنیوں کے بینک لاکرز میں پڑی ہوئی ہے۔
آج خیبر سے کراچی تک اور پنڈی سے لاہور تک بچہ بچہ جانتا ہے قوم کے بڑے بڑے ہمدردوں کے لیے پاکستان محض ایک چراگاہ ہے۔ لوگ یہ بھی جان چکے کہ سب کا مال'' حلال ذرائع‘‘ سے حرام سود لینے والے غیر مسلم ملکوںکے عوام کی زندگی آسان بنانے کے لیے استعمال ہو ر ہا ہے ۔آئیے مان لیتے ہیں یہ سب محنت کی کمائی ہے تو کیا پاکستان سے کی جانے والی محنت کی کمائی پرپاکستانی معیشت اور ریاست کا کوئی حق نہیں؟پانامہ کی پریشانی صرف حکمرانوں تک محدود نہیں رہی،بلکہ اس کی گونج واہگہ پار سے زیادہ سنائی دیتی ہے۔جب تک سینیٹ سے سائیبر کرائم بل پاس نہیں ہوتا، آپ ابھی یوٹیوب کھولیں اور اس کا ثبوت دیکھ لیں۔بھارت میں حکمران جماعت کے بڑے ٹی وی پر بیٹھ کر کہہ رہے ہیں، بھارتی حکومت نے نواز شریف پر بہت انویسٹمنٹ کر رکھی ہے۔اگر و ہ اقتدار سے باہر ہوئے تو بھارت کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔ساتھ یہ بھی کہا: نواز شریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کا جو بیانیہ(Narrative) تیار کیا ہے، وہ ردی کی ٹوکری میں چلا جائے گا۔
بات ہو رہی تھی جمہوریت پر بھاری چھوٹو گینگ کی۔گینگ پر پاکستان کی بہادر فوج کا پنجہ غالب آئے گا۔بھاری جمہوریت کو مبارک ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم کی پارٹی ان کے لیے جمہوریت بچاؤ مہم چلا رہی ہے ؎
تمہاری تہذیب، اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا‘ ناپائیدار ہو گا