میرے لذیذ ہم وطنو! میری آج کی تقریر کا عنوان ہے''تقریر‘‘۔ ویسے میرے دانش مند مشیر نے مشورہ دیا تھا کہ تقریرکا عنوان یوں رکھ لیں۔۔۔۔ ''یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ لیکن غور سے دیکھنے پر مجھے اس کا منہ بھی مسور کی دال جیسا لگا۔ ویسے بھی آپ جانتے ہی ہیں تقریر تقریر ہوتی ہے خواہ اس کا کوئی عنوان ہو یا نہ ہو۔
میں آج یہاں اس لئے آیا ہوں تاکہ میں بتا سکوں میں تمہارے سامنے جوابدہ نہیں۔ نہ تم مجھ سے کوئی سوال پوچھ سکتے ہو نہ ہی میں جواب دینے کا پابند ہوں۔کچھ جمہوریت دشمن عناصر میرے اس جملے کا غلط مطلب نکالیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ آئین کا آرٹیکل 90 سامنے رکھ کر شور شرابا کریںکہ میں اور میری کابینہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سامنے جوابدہ ہے۔ ایسی سوچ دہشت گردوں والی سوچ ہے۔ ایسی سوچ والے نہیں چاہتے کہ''پاناما‘‘ ترقی کرے۔ معاف کیجیے گا میں کہنا چاہ رہا تھا ''پاکستان‘‘ ترقی کرے۔ عوام کی ترقی کا صرف ایک ہی راستہ باقی ہے۔۔۔۔ پاناما پر کوئی سوال نہ پوچھا جائے، ورنہ میرا تجربہ کہتا ہے جمہوریت تیسری بار ڈی ریل ہو جائے گی۔ ہماری ترقی کے دشمن یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں نے 'عزیز ہم وطنو‘ کے بجائے 'لذیذ ہم وطنو‘ کیوں کہا ہے۔ اس کا جواب بڑا مذہبی سا مگر سیدھا سادہ ہے۔ اسلام میں ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم جو اپنے لئے پسند کریں وہی اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کریں۔ لذیذ پکوان اور لذیذ عہدوں کے معاملے میں ہماری جوڑی ایک ہی پیج پر ہے۔ میں نے آپ کو بھی اسی فہرست میں شامل کر نا ہے۔
توجناب میں بات کر رہا تھا جمہوریت دشمنوںکی۔ آئیں دیکھ لیں، سوچ لیں، پڑھ لیں یہ ہے آئین کا آرٹیکل90، اس میں کسی جگہ پر میرا نام نہیں لکھا کہ میں پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوں۔ وہ اس لئے کہ میرے سیاسی مرشد نے اپنا نام صدرکے عہدے کے ساتھ لکھ کر آئین کو واضح کر دیا تھا۔ جب تک صدر ضیاء کا نام آئین میں لکھا ہوا تھا اس وقت تک آئین اس کے سامنے جوابدہ رہا۔ میں خوب جانتا ہوںکچھ لوگ آج تماشا دیکھنے آئے ہیں اور کچھ دوسرے غالب کے پرزے اڑانا چاہتے ہیں۔ میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں پاکستان میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے۔ آپ کو جڑانوالہ، ملتان، بنوں یا کہوٹہ جانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری وزارتِ پانی و بجلی ہمیشہ سچ بولتی ہے اور اسی وزارت کی کوششوں کی بدولت پورے پاکستان میں 5 سالہ''ٹھنڈ‘‘ پروگرام چل رہا ہے۔ آج ملک کا خزانہ ڈالروں سے بھرا ہوا ہے۔ جس کو شک ہو دبئی جا کر دیکھ لے۔ ہمارے وزیر خزانہ کی محنت کی وجہ سے ان کے معصوم بچے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہیں، بلکہ وہ پچھلے کئی سالوں سے کروڑوں ڈالر اپنے ابا کو قرضِ حسنہ دینے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ آج کسانوں کا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا۔ ہماری پسندیدہ کمپنیاں ان کے لئے کھاد باہر سے منگواتی ہیں۔ ہم نے انہیں آلو، پیاز، ٹماٹر اور دھنیا پیدا کرنے کے جھنجٹ سے آزاد کر دیا ہے۔ مودی جی کی مہربانی سے اب یہ سب کچھ ڈالر ریٹ پر انڈیا ہمارے ملک میں بیچ رہا ہے۔
آپ خوب جانتے ہیں، نہیں جانتے تو میرے میڈیا سیل والوں سے پوچھ لیں، میں سمجھتا ہوں صنعت کا پہیہ تیزی سے دوڑ رہا ہے۔ میرے میڈیا سیل کا کہنا ہے صنعت کا پہیہ ''جیٹ سپیڈ‘‘ پکڑ چکا اور بہت جلد ہم پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دیںگے۔کچھ شر پسند کہیں گے ٹائیگر تو جنگلی جانور ہے۔گدھا،کتا، بلی اور چھچھوندر تک کا گوشت نہیں چھوڑتا۔ یہی وہ سازشی عناصر ہیں جنہوں نے7 لاکھ گدھوں کا گوشت ملک بھر کو کھلارکھا ہے۔ ادارۂ شماریات والے آج کل آوارہ کتوں کی گنتی میں مصروف ہیں۔ جونہی ہمارے پاس ا عداد و شمار پہنچے تو ہماری کامرس کی منسٹری وہ آپ سے شیئر کرلے گی۔ ہمارے دور میں مسئلہ کشمیر ختم ہو چکا ہے۔ کیا کوئی اس بھرے ایوان میں مجھے بتا سکتا ہے کہ ہم نے کبھی غلطی سے بھی مسئلہ کشمیرکا ذکرکیا ہو۔ اس دیرینہ مسئلے کا یہی حل تھا۔ چنانچہ اسی راستے پر چل کر ''مودی جی‘‘ اور میں نے یہ مسئلہ حل کر دیا۔ یہ اسی جمہوریت کا پھل ہے کہ ہم نے 70 سالہ پرانا مسئلہ حل کیا۔
آپ کو یاد ہو گا میں نے کہا تھا ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن بنے گا۔ دیکھ لیں عدالتِ عظمیٰ نے بھی بالواسطہ میری سوچ کو غلط نہیں کہا۔ جب حاضر سروس جج حضرات نہ مل سکیں تو پھر انصاف کے لئے وہی جج کام آتے ہیں جو آج سے30 سال پہلے اتفاقیہ طور پر اتفاق سریا کے وکیل تھے۔ آج کل کچھ غیر ذمہ دار لوگ کہہ رہے ہیں ملک میں بحران آیا ہوا ہے۔ مجھے بتاؤ بحران کہا ں ہے۔۔۔؟ پچھلے دنوں میں بحران انٹر چینج پر گیا تھا، میں نے وہاں موٹر وے کا پھر افتتاح کیا جو حویلیاں سے گزرے گی۔ اگر میرے منہ سے برہان انٹر چینج کی بجائے بحران انٹر چینج نکل گیا تو اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے۔ اس کے بعد میں کاسہ بھی گیا۔کچھ غیر سنجیدہ پارلیمنٹیرین سوچیں گے یہ گدائی کرنے والا کاسہ ہے، جس کو غیر پارلیمانی زبان میں کشکول بھی کہا جاتا ہے۔ میرے دورے کی ویڈیو دیکھ لیں میرے ہاتھ میں کوئی کشکول نہیں تھا۔ کشکول اسحاق ڈار نے توڑ دیا ہے، ویسے بھی یہ کشکول کا زمانہ نہیں بلکہ آف شور کمپنیوں کا دور ہے۔ میں اپوزیشن کی انتہا پسندانہ سوچ ختم کرنے کے لئے ان سے کہتا ہوں کسی پڑھے لکھے آدمی سے انگریزی سیکھیں اور اسی سے (Off Shore) کا مطلب پوچھ لیں۔ ایسا تعلیم یافتہ اور صاحبِ علم آدمی اللہ کے فضل و کرم سے وہی ہو سکتا ہے جس کے مے فیئر لندن میں فلیٹ ہوں۔ بہر حال میں نے کبھی نہ غلط بیانی کی نہ ہی اپنی تعریف۔
آئیے آپ کو بتائے دیتا ہوں آف شورکا مطلب کیا ہے۔ یہ مطلب سن کر شور ڈالنے والوں کے چکھے چھوٹ جائیں گے۔ آف کا مطلب ہے بند، یعنی شور بند اوربولتی بند وغیرہ۔ جبکہ شور کا مطلب ہے احتجاج، ریلی، جلسہ، تقریر، ٹی وی پروگرام، کالم اور پارلیمنٹ کے اندر شور یا سڑکوں پر نعرے بازی۔ لہٰذا عقلمندی کا یہی تقاضا ہے کہ پاناما پر شور وغل آف کر دیا جائے۔
مذاق کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہم کئی بار کہہ چکے ہیں ہمارے خاندانی کاروبار، ہماری فیکٹریوں،کارخانوں حتیٰ کے مرغی اور انڈے پر بھی اللہ کا خاص فضل وکرم ہے۔ انڈا لوگوں کے لئے انڈا ہے، ہمارے لئے سونے کا گولہ۔ آج وہ لوگ کدھرگئے جو کہتے تھے میں تقریر کرنے نہیں آؤں گا۔ اب میں جا رہا ہوں، کوئی مائی کا لال ہے جو مجھے روک سکے۔ میں پہلے بھی جدہ گیا، مجھے کوئی نہ روک سکا۔ یہ مسخرہ پن کی انتہا ہے، لوگ کہتے ہیں میں اب جدہ بھی نہیں جاؤںگا اورگھر بھی نہیں جاؤںگا۔ میں ہمیشہ جانے کا فیصلہ خود کرتا ہوں۔ اب بھی جانے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ جاتے جاتے سیاسی دہشت گردوں سے سوال کرتا ہوں کہ جواب دو:
یارو! ہمارا مال روا ہے جواب دو
آخر یہ کس خطا کی سزا ہے جواب دو
ذروں کے ہاتھ میں ہے ستاروں کی آبرو
ہر سمت ایک حشر بپا ہے جواب دو
اپنوں کا غیظ اور پرایوں کی دشمنی
دس سال ہجر کا یہ صلا ہے جواب دو!!