قوم کی جیب سے کاٹے گئے ٹیکس میں سے اشتہاری ریلیف اپنی جگہ‘ رمضان شریف کے آغاز میں ہی شریف حکومت نے ریلیف کی بجائے روزہ داروں کے لئے تکلیف کے انبار لگا دیے۔
ساری دنیا میں رمضان آتے ہی ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں مستحکم ہو جاتی ہیں۔ پھر خوفِ خدا رکھنے والے تاجر اور حکمران قیمتوں میں مزید کمی کرواتے ہیں‘ تاکہ روزہ دار کو ریلیف مل سکے۔ دنیا کا کوئی برِاعظم، ملک یا شہر ایسا نہیں جہاں پاکستانی موجود نہ ہوں۔ میں ہمیشہ ایسے ہر شہر کو چھوٹا پاکستان کہتا ہوں، جہاں تھوڑے سے بھی ہم وطن رہتے ہوں۔ آپ کرہ ارض کے کسی بھی خطے میں کسی پاکستانی سے رابطہ کریں۔ کینیڈا سے آسٹریلیا تک، برطانیہ، امریکہ ہر جگہ بازاروں میں رمضان پیکیج کا ڈھیر لگتا ہے۔ کچھ فراخ دل روزہ داروں کی ضروریات کی قیمت اس قدر کم کر دیتے ہیں کہ پاکستان سے گئے ہوئے روزہ دار مسافر کو قیمت دو تین دفعہ پوچھنا پڑتی ہے۔ اسے یقین ہی نہیں آتا۔ برطانیہ، فرانس، کینیڈا، جرمنی اور سپین تک چنا چاٹ، پکوڑہ، سلاد‘ فروٹ اور شربت پاکستان سے بھی سستے ہیں۔
دوسری جانب ہم ہیں۔ اگلے روز پنجاب کے دو بڑے شہروں میں گُھن والی مکئی، مسترد شدہ دالوں کے بقیہ جات، پیلا رنگ، کیڑے زدہ اجناس، منوں نہیں ٹنوں کے حساب سے پکڑے گئے۔ ان سب کو ملا کر روزہ داروں کو پکوڑے کھلانے کے لئے ''بیسن‘‘ تیار ہو رہا تھا۔ بیسن کی اس ''ریسیپی‘‘ کے بارے میں خبر جان کر مجھے مفاہمت والی جمہوریت یاد آ گئی‘ جس میں ہر طرح کا گھن، میگا کیڑا، 2 نمبر تا 9 نمبر مال جمع کر کے جمہوریت کا پھل+ فروٹ تیار کیا گیا۔ استقبالِ رمضان کے لئے صرف بیسن ہی کافی نہیں۔ پورا سال نہ بِک سکنے والے کھجوروں کے باقیات، مسترد شدہ سبزیاں، انتہائی ناقص پھل، ڈیزل نما تیل (یہاں سیاسی نہیں اصلی ڈیزل کی بات ہو رہی ہے) دیواروں پر لگانے والا سفید پینٹ ملا دودھ۔ کینسر پیدا کرنے والے کیمیکل ملا دہی۔ گندے نالے سے زیادہ گندگی سے بھرپور بوتل والا مہنگا پانی۔ یہ سب کچھ آمدِ رمضان کی خوشی میں خریداری کے لئے نکلنے والوں کو کھلے عام کھلایا پلایا جا رہا ہے۔ حکمران ہیں کہ اپنے انداز، نخروں، سٹائل، ٹائیوں، میک اپ، ہیر کٹ، گاڑیوں، محلوں، مزید پہرے داروں جیسے معاملات‘ اور آف شور کمپنیوں میں پڑے اربوں کھربوں جائز قرار دے کر ہضم کرنے کے ہتھکنڈوں سے فارغ نہیں۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں دو ماہ سے یہ طے نہیں ہو سکا کہ منی لانڈرنگ کی تفتیش کون کرے؟ انصاف صیحح معنوں میں اندھا‘ اور قانون بقول چیف جسٹس کے لنگڑا، لولا اور معذور۔
کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے ایک اور لرزا دینے والا واقعہ سن لیں۔ ہاؤس آف فیڈریشن کی فنکشنل کمیٹی نے دن کے پچھلے پہر اجلاس منعقد کیا۔ سرکاری خرچ پر چلنے والی سب سے بڑی لیبارٹری پی سی ایس آئی آر کے نمائندے موجود تھے۔ وہ ایک رپورٹ ساتھ لے کر آئے تھے‘ جس پر میں نے جرح کی۔ پوچھا: کیا آپ بتا سکتے ہیں 50 لاکھ گدھوں کا بینگنی رنگ والا گوشت کس نے کھایا؟ ملک میں دو بڑی کمپنیوں نے خنزیر کا گوشت، چربی، انتڑیاں اور ہڈیاں درآمد کیں۔ اس حرام مال کو پاکستان کے اندر واقع فیکٹریوں میں مرغی کی خوراک میں تبدیل کیا گیا۔ آپ بتا سکتے ہیں وہ مرغی کس کس نے کھائی؟ آپ بتائیں پانی کا کون سا برانڈ پینا چاہیے؟ کون سا گندا اور زہر آلود ہے؟ چلیں آپ یہ بتا دیں کہ کھانے پینے کی بین الاقوامی برانڈز کی جعلی فیکٹریاں کس کی سرپرستی میں چل رہی ہیں؟ پھر پوچھا: کسی دوسرے ملک کا نام ہی بتا دو جس میں اس قدر گڑ بڑ گھوٹالہ دن دیہاڑے ہوتا ہو‘ اور اس دو نمبری کی تنخواہ لینے والے ملازم کہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ پارلیمنٹ کے سامنے سرکار کی جانب سے کسی بھی سوال کا جواب موجود نہیں تھا۔
پاکستان کے لوگ اللہ کی مہربانی سے ان پانچ ملکوں میں سے ایک ہیں۔ جو سب سے زیادہ صدقہ، خیرات، زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ آخر یہ سب جاتا کہاں ہے؟ اربوں کھربوں روپے کی زکوٰۃ یکم رمضان کو بینک اکاؤنٹس سے کاٹ لی گئی۔ 70 سال سے ان وسائل کے دریا بہہ رہے ہیں‘ لیکن غریب کی جھونپڑی میں ابھی تک ریلیف کی ایک بوند بھی کیوں نہیں پہنچی؟
پچھلے ہفتے مجھے ٹویٹر پر دلچسپ ٹویٹ آئی۔ لکھا تھا: ''آپ کی تنقید کی وجہ سے جمہوریت خطرے میں ہے۔ جب جمہوریت خطرے میں ہو تو تنقید کرنے والے کو زیادہ خطرہ ہو جاتا ہے۔ اللہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے‘‘۔ ٹوئیٹ سے یاد آیا، سرکاری میڈیا سیل کے مطابق وزیر اعظم کو صحت قوم کی دعاؤں کے نتیجے میں ملی۔ آئیے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ قوم نے اس سے پہلے کیا کیا دعائیں مانگیں، جو 100 فیصد قبول شد۔ ویسے ہی جیسے اخباری پیر اور اشتہاری استخارہ کرنے والوں کی گارنٹی شدہ دعا۔
قوم نے دعا کی... یااللہ ہماری مشکلات ختم کر دے، دعا قبول ہوئی۔ حکمران رہا ہوئے۔ جلا وطنی میں اثاثوں پر اثاثے بنتے گئے۔ جاننے والوں نے کچھ ریال، پاؤنڈ، ڈالر قرضِ حسنہ کے طور پر دیے۔ قوم نے پھر دعا کی یااللہ لوڈ شیڈنگ سے نجات دے۔ حکمرانوں کی مِلوں، مرغی فارمز، دودھ فارمز اور محلات میں لوڈ شیڈنگ کا مستقل خاتمہ ہو گیا۔ قوم نے دعا کی یااللہ ہمارے بچوں کا مستقبل روشن کر دے۔ حکمرانوں کے بچوں کے مستقبل روشن ہو گئے۔ کسی کا دبئی میں‘ کسی کا برطانیہ میں۔ باقی جو بچے پیچھے رہ گئے‘ ان کا پاناما میں۔ مزدور نے دعا کی یااللہ ہمارے خون پسینے کی کمائی کو محفوظ بنا دے۔ مزدوروں کی ساری کمائی بینکوں سے ان لیڈروں کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر ہو گئی‘ جنہوں نے قرضہ لے کر معاف کرا لیا۔ قوم نے دعا کی یا مالک ہمارا رزق کشادہ کر دے۔ حکمران اشرافیہ کا رزق کشادہ ہو گیا۔ چین، ترکی، برازیل، کینیڈا، امریکہ، پاناما، لندن، آئل آف مین کے جزیروں تک کشادہ۔
قوم پھر دعا میں مصروف ہے۔ ہر طرف کروڑوں لوگ دعا کے لئے ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔ آئیے ان لوگوں کے ساتھ مل کر ہاتھ اٹھائیں جو کرپشن، مہنگائی، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں ڈنڈی، زہر سے بھرپور خوراک اور گندگی میں دھلا ہوا پانی پی پی کر رسمِ دعا بھول گئے۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں، ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں
دعا ہے ریلیف کی بجائے روزہ دار کو تکلیف دینے والوں کی آخری عدالت میں آخری سماعت جلد ہو جائے۔ دعا کریں‘ جس نے رمضان میں ملک عطا کیا وہ رمضان شریف میں ہی ایسے چوروں کی پکڑ کرے جو بظاہر چوکیدار لگتے ہیں۔ رمضان شریف کے تین عشرے لوگوں کی جیب کاٹنے والے دکاندار، ٹریڈر، آڑھتی، چھابہ فروش، صنعت کار جب چوتھے عشرے میں ''مناجات اور زیارات‘‘ کے سفر پر نکلیں تو پی آئی اے ان کی سیٹ کینسل کر دے۔
ریلیف کے دعوے کرنے والوں نے غریبوں کے رمضان کا لطف کِرکِرا کر دیا۔ جمہوریت بچانے والے روزہ دار کو نہیں بچا سکے، مہنگائی روکنا دور کی بات۔ رمضان جو انڈونیشیا سے دبئی تک‘ بلکہ برطانیہ سے کینیڈا تک ریلیف کا موسم بن کر آیا ہے۔ اسے تکلیف میں بدلنے والے نجانے خدا کو کیا منہ دکھائیں گے... قارون کی باقیات‘ دولت کے پجاری‘ عبداللہ بن ابی کے چیلے چانٹے۔