پشتو زبان میں طور خم کا مطلب ہے کالا موڑ جبکہ پنجابی میں کالے دو طرح کے ہیں۔ ایک سیاہ رُو اوردوسرا کالا شاہ کالا۔ البتہ سیاہ بخت اورکالی ز بان والے اس کے علاوہ ہیں۔
آج کل ہماری2 نمبر جمہوریت ورلڈ آرڈر2- سے خاصی متاثر نظر آتی ہے۔ تازہ ورلڈ آرڈر کے ولن روس اور چین کے علاوہ تقریباً ختم ہو چکے۔ مسلم حکمرانوں میں اتنی جان نہیں کہ وہ اپنی سر زمینوں کی چھاتی پر دوڑنے والے غیر ملکی ٹینکوں کو واپس بھیجنے کا رسک لیں۔ نئے ورلڈ آرڈر میں مغرب اور امریکہ افغانستان سے مشرق وسطیٰ بلکہ افریقہ تک جاہ پرست حکمرانوں کے باڈی گارڈ ہیں۔ ایسے میں پاکستان وہ واحد مسلم ریاست باقی بچی ہے جس کے باڈی گارڈ اس کے اپنے بیٹے ہیں۔ اسی لیے پاکستان نئے ورلڈ آرڈ کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ بڑی بد قسمتی ہے، اس نازک موقع پر پاکستان کی لیڈر شپ پر قابض اشرافیہ کی دُور دیس میںکوئی عزت نہیں کرتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے، جن ملکوں میں ان کی دولت کے انبار اور ان کے بچوں کے مالی خزانے ہیں، وہ سب جانتے ہیں یہ دولت کالا دھن ہے۔ سات سمند پار تک کیسے پہنچی؟ اور کہاں کس بینک اور آف شور کمپنی میں چھپائی گئی ہے۔
میرے ایک مرحوم بزرگ دوست اٹارنی جنرل تھے اور کڑاکے کے وکیل بھی، بیرسٹر شہزاد جہانگیر۔ ایسی اشرافیہ کے لیے ان کے پسندیدہ شعر دو تھے:
شہرِ آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا
یاں تو منصف بھی ہے قاتل تو عدالت میں نہ جا
چور تو چور ہی کو اذنِ ر سا ئی دے گا
یہ سب کچھ ہم سے تو چھپایا جا سکتا ہے جن کو لوٹا گیا، لیکن ان سے نہیں چھپ سکتا جن کے بینکوں میں لوٹ کا مال جمع ہے۔ امید ہے اس تمہید سے طورخم کا مطلب واضح ہوگیا ہوگا۔
1947ء کا تذکرہ ہے جب بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم ؒ حیات تھے۔ آزاد ریاست ِ پاکستان کی عمر فقط چند مہینے۔ تب افغانستان نے پاوندہ لشکر کے ذریعے پاکستان پر حملہ کیا۔ راولپنڈی کے جسٹس آصف جان کے والد اس وقت علاقے کے کمشنر تھے۔ ہمارے شیر دل بابائے قوم نے سرحدی علاقے کے کمشنر کو خود فون کیا۔ انگریزی زبان میں جو حکم دیا اس کا ترجمہ یہ ہے: ''ان کوگولیوں اور توپوں کی زبان میں پیغام بھیجو۔ پاکستان عزت کے ساتھ زندہ اور قائم رہنے کے لیئے بنا ہے‘‘۔
آج کی قیادت پر تبصرہ کیاکرنا ہے۔ پٹھانکوٹ،کلبھوشن، بغیر ویزے مودی اور را کے سربراہ کا دورہ۔ یہ کالے موڑ ان کی دفاعی اہلیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تازہ صورت حال دیکھ لیں۔ جب سے افغانستان نے ''انڈیا ـ 2‘‘ کا رول سنبھالا ہے حکمران اشرافیہ کے بڑے منظر سے فرار ہیں۔ ہمارے دوست مولانا صاحب سمیت، جو بحالیٔ امن کی ہر کاوش پر تنقید کرتے ہیں، قوم کو ہر وہ خطرہ بتانا شرعی فریضہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ افغان حملے پر کشمیر کمیٹی سمیت وہ بھی عدم موجودپائے گئے۔ طورخم بارڈر حملے کے ساتھ ہی ملک کے اندر سے حکمرانوں نے آواز اٹھوائی کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر سکتی ہے۔ اس سے تین تاثر سامنے آئے۔
پہلا تاثر یہ کہ بر سر اقتدار ٹولہ افغانستان کے ''غم و غصے‘‘ پر فوج کے جواب سے ناخوش ہے۔ دوسرے یہ کہ سرحدوں کی حفاظت انہیں اس وقت پسند آئے گی جب بارڈر پر بھارت کا جنگلہ اور جندال کا سریا لگایا جائے۔ سیاسی ضرورت کے تابع نواز حکومت فوج کے بڑوں کے ساتھ تصویریں اشتہاروں میںچھپواتی ہے تاکہ عوام کو ان کا اقتدار مضبوط نظر آئے۔ تیسرا تاثر یہ کہ نواز حکومت جب بھی بحران کی زَد میں آئی کبھی مشرقی بارڈر، کبھی مغربی بارڈر پر فائرنگ، حملے، زخمی اور شہید گِرنا شروع ہو جاتے ہیں۔کیا یہ محض اتفاق ہے یا وزیراعظم مودی اور ان کے دوستوں کا باقاعدہ انتظام؟ یہ سوال جواب چاہتا ہے۔
عالمی محاذ پر بھارت کو آگے بڑھنے کے لیے بھرپور موقع دیا گیا۔ مجھ سے کامران شاہد نے دنیا نیوز کے پروگرام میں پوچھا، آپ اس کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں۔ عرض کیا اس پر جو پاکستان کا وزیر خارجہ ہے۔ وزیراعظم نے وزارتِ خارجہ کی سربراہی اقتدار کے چوتھے سال میں بھی اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے مودی کی فتوحات اور پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی کا ذمہ دار اور کون ہوگا؟
پچھلے دنوں طورخم سرحد پر واقع پاکستان گیٹ نصب کرنے کے لیے میجر علی جواد چنگیزی نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ وزیراعظم یا ان کے گھرکا کوئی فرد، پارٹ ٹائم وزیر دفاع، ڈیفیکٹو وزیراعظم سمیت کون ہے جو اس شہید ِ وطن کے خاندان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے ہزارہ کالونی کوئٹہ پہنچا؟ اگلے روز وزارتِ دفاع کے کیئر ٹیکر نے سینیٹ میں حیران کن اعتراف کیا۔ مزید حیرانی یا پریشانی کی بات یہ ہے اس اعتراف کے الفاظ اشرف غنی اور حامد کرزئی کے بیانوں پر مشتمل تھے۔ حرف بہ حرف اور نکتہ بہ نکتہ۔ کیا یہ بھی معصومیت سے ہو گیا؟ یا اس مرحلے پر دفاع وطن کے لیے تھوڑی سی شرم اور تھوڑی سی بھی حیا باقی نہیں رہی۔ میں نے وزیر پر سوال کرنے کے لیے بٹن دبایا۔ اس سے تھوڑی دیر پہلے میں نے اٹھ کر حکومت پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ چئیر سے رولنگ آئی کہ ڈیفینس سٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ اور ساتھ ہی کیئر ٹیکرکو ایوان سے نکل جانے کا موقع مل گیا۔
گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ہمارے برادر+ اسلامی+ دوست ملک= افغانستان کی سر زمین پر پاکستانی پرچم اور بانیٔ پاکستان کی تصاویر جلائی گئیں۔ انٹرنیٹ پر HATE MAIL) ( نفرت انگیز نعروں کی بھر مار ہے۔ میری طرف سے 100فیصد پاکستانی عوام کو شاباش اور مبارکباد جنہوں نے نسلی تعصب اور علاقائی نعروں کو مستردکر دیا۔ سوشل میڈیا پر واضح پیغام دیا، عزت سے یہ ملک چھوڑ دو۔ پاکستان کے خلاف اس نفرت انگیز مہم کا سب سے بڑا محرک حامدکرزئی کا میڈیا سیل ہے، جو مفروری کی حالت میں پاکستان کے اندر پناہ لیتا رہا اور اقتدار کے دوران بھارت کے دورے پر دورے کرتا رہا۔ ہمارے شدید بیمار وزیراعظم نواز شریف نے لندن میں اسی حامد کرزئی کے لیے گھرکا دروازہ کھولا، اسے گلے لگایا اور اپنی معجزاتی صحت یابی پر اس کی دعائیں سمیٹیں۔ اس نفرت انگیز مہم کے دوران کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے عہدیداروں بلکہ کابل کی قابل ِرحم فوج کے ذمہ ادروں نے بھی بڑھک بازی میں تخت لاہورکے تاجداروں کی نقل کی۔کہا افغان مہاجر پاکستان سے نکل گئے تو پاکستان کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ ہمارے جیسے دل جلے پاکستانی فوراً بول پڑے، جلدی کرو اپنی معیشت اٹھاؤ اور طورخم کا بارڈر کراس کر جاؤ۔ اس ساری صورت حال میں ہماری معذور خارجہ پالیسی، مجبور وزارتِ خارجہ اور بھرپور''اچھی حکمرانی‘‘ خاموش تماشائی ہے۔
سول ملٹری تعلقات کا یہ طورخم کبھی سِپن گل (سفید پھول) نہیں بن سکتا۔