مجھے صدر نے استعفیٰ دینے سے منع کر دیا۔میٹنگ ختم ہوئی ۔ صدر صاحب کا قافلہ چین جانے کے لئے نور خان ائیر بیس کی طرف روانہ ہوگیا۔
میٹنگ میں طے ہونے والے پروگرام کے مطابق میں نے وفاقی کابینہ کے ارکان کو اگلی صبح پارلیمنٹ کیفے ٹیریامیں 8بجے مدعو کیا۔ناشتے کی میز پر سفید کاغذ منگوایا ۔میری دائیں جانب مخدوم امین فہیم مرحوم بیٹھے تھے ۔ دوسری جانب ایک سابق وزیراعظم۔میں نے قلم نکالا اور بحیثیت وفاقی وزیر قانون و انصاف و پارلیمانی امور استعفیٰ لکھ کر اس پر دستخط کیے۔مخدوم امین فہیم صاحب نے بڑی شفقت سے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولے میں ذرا اسے پڑھ لوں۔میں انکار نہ کر سکا، استعفیٰ پڑھ کر وہ حیران ہوگئے، کہنے لگے :صدر صاحب نے آپ کو منع کیاہے۔عرض کیا: پیر و مرشد ،میں کابینہ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکاہوں۔ہم کابینہ میں اکٹھے بیٹھتے ہیں‘ وجوہ آپ کو معلوم ہیں۔ مخدوم امین فہیم صاحب نہایت شفقت سے کہنے لگے: پھر بھی آپ کی آوازکابینہ میں ضرور رہنی چاہیے۔آپ اسے جیب میں رکھیں اور استعفیٰ نہ دیں۔میں نے مخدوم امین فہیم صاحب کے خلوص پر ان کا شکریہ ادا کیا اور ہم سپریم کورٹ پہنچے۔ شہید قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹوکے عدالتی قتل پر ریفرنس دائر کرنے کے بعدمیں نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔
مجھے اپنا استعفیٰ مغربی دنیا کا کوئی نہ کوئی بیوقوف وزیراعظم اکثر یاد کروا دیتا ہے۔آئس لینڈ کے بعدتازہ ترین نادان کا ناہنجار نام ڈیوڈ کیمرون ہے۔ ایک ایسا ریفرنڈم جس کے ساتھ اس کے عہدے کا کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا اس کو بنیاد بنا کر ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے ڈالا۔شہید بینظیر بھٹو کے کالج کے زمانے کی قریبی دوست تھریسامے اپنی شہید سہیلی کی طرح اپنے ملک کی وزیراعظم بن گئی۔ ڈیوڈ کیمرون چاہتے تو برطانیہ کی سا لمیت کے تحفظ ،جمہوریت کی بالادستی اور کنزرویٹیو پارٹی کی عظمت میں اضافے کے لئے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کو کسی پاکستانی پکوڑے کے اسٹال پر پھینک دیتے۔ خود سرکاری خرچ پر پٹواری جلسے کرتے اور گلا پھاڑ کر کہتے ملک کی ترقی اور جمہوریت کے دشمن مجھ سے استعفیٰ نہ مانگیں۔ساتھ کہتے ،مجھے عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہر قیمت پراسے آخری''گھونٹ‘‘ تک پورا کروں گا۔خواہ اس کی قیمت کے نتیجے میں سکاٹ لینڈ آزاد ہو جائے ‘آئر لینڈ علیحدہ ہو جائے یا تاجِ برطانیہ گلیوں میں رل کیوں نہ جائے لیکن میں اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ اس بیوقوف افرنگی میں اتنی بھی عقل نہیں جتنی ان کے نو آبادیاتی ملک کے غلاموں اور ان کے بچوں بلکہ ان کی نسلوں میں ہے۔ ڈیوڈ کیمرون چاہتا تو ایک اور کام بھی آسانی سے کر لیتا ۔موصوف دہشت گردی ختم کرنے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے کسی افریقی مسلمان ملک پر حملہ کر دیتا۔ قوم کو بتاتا کس طرح سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے سینئر بش کے بیٹے جونیئربش سے مل کر عراق کی آزادی کی جنگ لڑی ۔اور بالکل ویسے ہی جیسے مسلمان ملکوں کے بادشاہ برادرانِ اسلام کی سرزمین پر عوام کی''بالادستی‘‘ قائم کرنے کے لئے سپانسرڈ جنگیں کراتے ہیں۔اسی طرح میں بھی جنگ کے ذریعے تاجِ برطانیہ کی عظمتِ رفتہ بحال کرنے جا رہا ہوں۔
ڈیوڈ کیمرون سے ایک اور بڑی فاش غلطی ہوئی ۔اسے چاہیے تھا وہ ہمارے وزیروں سے کچھ جمہوری سبق ہی لے لیتا۔یہ وزیرِ با تدبیرہر دوسرے ہفتے وی آئی پی بریف کیس اور ڈپلو میٹک بیگ بھر کر برطانیہ جاتے ہیں ۔وہ وزیر ہوں تو جہاز کے دروازے پر قونصل جنرل یا پاکستانی سفیر ان کا استقبال کرتا ہے۔ وزیر نہ رہیں یا وزیراعظم نہ رہیں تو پھر برطانیہ میں مقیم پاکستانی ان کی وہ دھلائی کرتے ہیں جو منی لانڈرنگ سے بھی زیادہ میل نکال کر رکھ دیتی ہے۔سندھ کے ایک مفرور وزیر،وزیراعظم کے ایک بیٹے اور خود وزیراعظم کی لندن کی سڑکوں پر''پذیرائی‘‘ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھنے کے لئے ہر وقت موجود ہیں۔ڈیوڈ کیمرون پاکستان کے وزیر ِنہ بجلی نہ پانی سے پوچھتا کہ لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی‘ آپ استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ وزیر ڈیوڈ کیمرون کو بتاتا‘ لوڈ شیڈنگ کے ذمہ دار لیاقت علی خان ہیں ۔پہلے ان کے خلاف تحقیقات ہوں اگر وہ مجرم ثابت ہو جائیں تو پھر میں استعفیٰ دے دوں گا۔وہ ریلوے کے وزیر سے پوچھتا‘ ہر سال ٹرینیں کربلا کی طرح بے رحمی سے بندے مارتی ہیں ۔وزیرصاحب ڈیوڈ کیمرون کو بتاتے، ریلوے کے انجن ڈرائیور ،ریلوے بوگی کے ٹی ٹی اور ریلوے کراسنگ کے چوکیدار اور وزیر میں کیا فرق ہے؟ڈیوڈ کیمرون کو اس راز کا پتا چل جاتا کہ جس دن وزیر ٹرین چلائے اور انجن سامنے والے انجن سے ٹکرائے یا ڈبے پٹری سے اتریں گے تب میں استعفیٰ دوں گا ورنہ کہاں کا استعفیٰ ؟ ڈیوڈ کیمرون ہمارے الیکشن کمیشن سے بھی پوچھ سکتا تھا کہ ریفرینڈم میں مثبت نتائج کس طرح سے نکالے جا تے ہیں۔میرا وکالتی،سیاسی،عدالتی اور حکومتی تجربہ کہتا ہے ''بریگذٹ‘‘ یعنی برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو چھوڑ دینے کے حق میں ووٹ دینے والوں کے منہ اور بکسے کھلے رہ جاتے۔ڈیوڈ کیمرون 35,30 پنکچر سے زیادہ( معاف کیجیے گا فیصد کو پنکچر کہہ گیا )اکثریت لے کر کامیابی حاصل کرتا۔
آج بڑے دنوں بعدمخدوم امین فہیم صاحب کی یاد با ربارآرہی ہے۔ ایک سرکاری تقریب میں وزیراعظم درمیان میں‘ مخدوم امین فہیم صاحب ایک طرف اور میں دوسری طرف کھڑا تھا۔ اتنے میں ایک تنومند ایم این اے آئے۔سامنے جیالے کا ذاتی فوٹو گرافر اشارے کر رہا تھا۔پہلے انہوں نے میری طرف دیکھا‘ پھر پوٹھوہاریے ہونے کے ناتے مجھ پر رحم کر دیا۔ وہ مخدوم امین فہیم صاحب کی طرف لپکے۔ ان کے وزیراعظم کی جانب والے کندھے پر اس قدر بوجھ ڈالا کہ مخدوم صاحب گرتے گرتے بچے۔اس دوران ان کے پاؤں کی ایڑیاں کچلی گئیں،اور ان کے کپڑے بھی گندے ہو گئے ۔لیکن وہ موصوف وزیراعظم کے ساتھ سر نکال کر اپنی پسندیدہ تصویر کھنچوانے کے اصولی مؤقف میں کامیاب ہو گئے۔
ہاں البتہ ڈیوڈ کیمرون کی بیوقوفی کی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ وہ 10ڈاؤننگ سٹریٹ سے نکلا۔ 2چہکتے ہوئے بچے اورمسکراتی ہوئی بیگم کے ساتھ باہر آیا۔ایک عام سی دوسرے درجے کی کار میں سوار ہوا۔ وزیراعظم کا عہدہ ہزاروں میل پیچھے چھوڑ کر ڈیوڈ کیمرون اخلاقی طور پر آگے نکل گیا۔نہ اس نے اپنی برطانوی فوج کے خلاف بینر لگوائے‘ نہ ہی قوم کو کرام ویل یا خادمِ اعظم کی طرح اپنی فوج کے خلاف منظم کرنے کا کشٹ کیا۔ برطانوی وزیراعظم کی آخری مصروفیت پارلیمنٹ کے سامنے ایک گھنٹے کے سوالوں کے جواب کا وقفہ تھا جس میں وزیراعظم ارکان کے کٹہرے میں کھڑا ہو کر براہ راست سوالوں کے براہ راست جواب دینے کا پابند ہے۔
ہمارے عظیم خادم، اقتدار کے ایوان سے نکل کر صرف70کروڑ کے سرکاری خرچ سے بننے والی30انچ چوڑی کنکریٹ کی دیوا رِ چین کے اندر ہی آزاد رہ سکتے ہیں۔جس دن باہر نکلے اس دن....؟چلیں چھوڑ دیتے ہیں۔کیونکہ پہلے ہی آیا آیا کے بینر نے گرم موسم میں شیروں کے ٹھنڈے پسینے نکال رکھے ہیں۔دل کے مریضوں کے لیے ٹھنڈا پسینہ اچھا نہیں ہوتا.....!!