پھر وہی قیامتِ صغریٰ کوئٹہ میں برپا ہوئی۔ پھر وہی پہلے سے لکھا ہوا وزیر اعظم اور وزیر سرکاری اطلاعات کا بیان آ گیا‘ قانون شکنی سے ''آہنی ہاتھوں‘‘ کے ساتھ نمٹیں گے۔ 20 کروڑ لوگ سراپا سوال ہیں: انصاف، قانون اور حکومت کے لوہا برانڈ ہاتھ آخر ہیں کہاں؟
بے گناہ پاکستانیوں کا مسلسل قتلِ عام اندھے کو بھی دکھائی دے رہا ہے۔ قانون، انصاف اور حکومت کے آہنی ہاتھوں کو انسانی آنکھ تو کیا مائیکروسکوپ سے بھی نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ مثال کے طور پر پچھلے پانچ سال میں (2016ء شامل نہیں) ملک کے سب سے بڑے صوبے‘ پنجاب کے طول و عرض میں غیرت کے نام پر 1850 قتل ہوئے۔ 2011ء سے 2015ء تک ہر سال ایسے قتل کی وارداتوں کی تعداد مسلسل بڑھتی ہی رہی‘ جبکہ انصاف، قانون اور حکومت اپنے آہنی ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہے۔
ماڈل ٹاؤن میں کیمروں کے سامنے قتلِ عام ہوا۔ قانون، انصاف اور حکومت کے آہنی ہاتھ مجرموں اور ظلم کے حق میں آہنی دیوار ثابت ہوئے۔ سینکڑوں باغیرت خواتین کی بے توقیری ہوئی۔ انصاف، قانون اور حکومت کے آہنی ہاتھ مجرموں کے لئے آئرن شیلڈ بن گئے۔ انصاف کی تلاش میں حوا کی بیٹیاں عدل اور قانون کی آنکھوں کے عین سامنے اپنے آپ کو نذرِ آتش کرتی رہیں۔ لاہور سے اٹک، اور رائے ونڈ سے رحیم یار خان تک روزانہ بچے اغوا ہو رہے ہیں۔ ایک شیشی شراب پر طیش میں آ جانے والے شتابی سوؤموٹو نوٹس ٹھنڈے لوہے کی طرح بے حس و حرکت پڑے رہے۔ رہی پولیس تو وہ اغوا شدہ بچوں کی طرح گلی محلے سے ''غائب‘‘ کر دی گئی‘ جبکہ وفاقی کابینہ سیاسی مخالفوں کو سبق سکھانے کے پلان بنانے سے فارغ نہ ہو سکی۔ اغوا شدہ بچوں کی بازیابی اور ایوانِ عدل کو قتل گاہ بنانے پر برسرِ اقتدار ٹولے نے نہ سوچنا مناسب سمجھا‘ نہ کسی سے ایک بامعنی لفظ تک بولا گیا۔
گزشتہ چند سالوں میں پنجاب کے اندر جرم منظم ہو گیا۔ دیوار پر لکھا ہے: یہ کام سیاسی اور سرکاری سرپرستی میں ہوا۔ ملک بھر میں مجرموں کے سنڈیکیٹ بن گئے۔ فیصل آباد، کراچی، کوئٹہ، لاہور، گوجرانوالہ جیسے شہروں میں ملکی تاریخ میں پہلی بار منظم جرائم (Orgainsed Crime) شروع ہوئے۔ دنیا کا سب سے مہنگا نظامِ عدل اور بلین کے حساب سے سہولیات سے آراستہ قانون کے رکھوالے جرائم کو روکنے میں بری طرح پِٹ گئے۔ حکمران اپنے سالے سالی، بہنوئی اور سمدھی کو سکیورٹی دے کر سمجھتے ہیں‘ ان کا پاکستان محفوظ ہو گیا ہے۔ منظم جرائم دو طرح کے ہیں: ایک سیاسی گروہوں کی سرپرستی میں چلنے والے۔ دوسرے فارن فنڈنگ کے ذریعے پھیلائے گئے جرائم۔ ان ہر دو قسم کی وارداتوں کو سنگین جرائم (Henious Crime) میں شمار کیا جاتا ہے‘ اور ان منظم جرائم کے نتائج بھی انتہائی سنگین ہوتے ہیں۔
آئیے آپ کو بتائیں سرکاری سرپرستی میں کیسی زوردار وارداتیں سرزد ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک زوردار واردات پارلیمنٹ کے فلور پر ہوئی۔ کسی فرد کے خلاف نہیں بلکہ ریاست کے خلاف۔ اس کا ذکر پھر کریں گے۔ پہلے بلوچستان کے وزیر داخلہ کا بیان ذہن میں رکھیں‘ جس میں وزیر داخلہ نے کوئٹہ سانحہ کی ذمہ داری پاکستان دشمن بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را‘‘ پر ڈالی۔ سرفراز بگٹی کے اس بیان کو عسکری ذرائع سے بھی سپورٹ ملی۔ کلبھوشن کی گرفتاری اور مقبوضہ کشمیر کی زوردار تحریک آزادی میں پھنسی ہوئی مودی سرکار پر ڈالی گئی یہ ذمہ داری بالکل درست ہے‘ اس لئے سمجھ میں آتی ہے۔ ہمارے سامنے اس کی کئی واقعاتی شہادتیں موجود ہیں۔ لیکن پاکستان کے چیف ایگزیکٹو نے نون لیگ کی بلوچستانی حکومت کے وزیر داخلہ کے بیان کو سپورٹ نہیں کیا‘ جس کا مطلب ہے وفاقی حکومت کی جانب سے را کے لئے جاری ہونے والی یہ پہلی ''کلین چِٹ‘‘ تھی۔
دوسری کلین چِٹ جاری کرنے کے لئے قومی اسمبلی کے فورم کا انتخاب کیا گیا‘ جہاں اپوزیشن ارکان ہمیشہ سپیکر سے شکایت کرتے ہیں کہ انہیں مائیک ملتا ہے‘ نہ بولنے کا موقع۔ حکومت کے پسندیدہ اتحادی کو پاکستان کے دفاعی نظام کے خلاف لانچ کیا گیا‘ جس نے چند ہفتے پہلے کے پی کے صوبہ کو افغانستان کی ملکیت کہنے کے بعد وزیر اعظم سے کئی ملاقاتیں بھی کیں‘ مگر نون سرکار میں گردن تک گھسے ہوئے شخص کی ہرزہ سرائی پر حکومت خاموش رہی۔ حکومتی میڈیا سیل اسے جرأت مند اور سچ کا آئیکون ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کا سادہ مطلب اس اتحادی کے بیان کے ذریعے ''را‘‘ کے لئے تیسری کلین چٹ جاری کرنا ہے۔
لیکن اب تو موصوف نے حکومت کی شہ پر حد کر ڈالی۔ سپیکر ایاز صادق صاحب نے اسے کھل کر کھیلنے کا موقع دیا۔ لوگ جانتے ہیں ایاز صادق، نواز شریف صاحب کے سوا کسی کی نہیں سنتے‘ نہ کسی نچلے طبقے کو خاطر میں لاتے ہیں؛ چنانچہ حکومت کے اتحادی نے حکومت کی طرف سے ''را‘‘ کو ایک اور کلین چٹ جاری نہ کی بلکہ پاکستان کے دفاعی نظام کے خلاف گند اُگلا۔ ملک کے لوگ اتنے سادہ نہیں کہ وہ یہ بات مان لیں کہ پاکستان مخالف تقریر کے لئے حکومت کے اس اتحادی نے خود بہادری دکھائی ہے۔ کھلی حقیقت تو یہ ہے یہ ایک منظم واردات تھی‘ جو منظم طریقے سے بھارت کو مکمل جمہوریت اور پاکستان کو مکمل دہشتگرد ملک ثابت کرنے کی مہم پر نکلا ہوا ٹولہ آگے بڑھا رہا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ جس ملک میں ایک ایک جلسہ 15,10 کروڑ کا پڑتا ہو وہاں ایسی تقریر کا ''ریٹ‘‘ کیا ہو گا۔
آئیے فرض کرتے ہیں سپیکر ''را‘‘ کے حق میں پاکستان مخالف ہرزہ سرائی کے معاملے سے لاتعلق ہیں۔ اگر فی الواقع ایسا ہی ہوتا تو وہ مقرر کو ٹوک دیتے‘ ''را‘‘ کو کلین چٹ دینے والے الفاظ کارروائی سے حذف کر ڈالتے‘ یا میڈیا میں ان کی اشاعت روکنے کے لئے رولنگ دے دیتے۔ اس مرحلے پر نجانے کیوں وہ دلیر وکیل یاد آتا ہے‘ جس کی ایک تصویر اور دوسرا بیان سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ تصویر میں زخمی وکیل کے پاس جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم کھڑے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنا ہاتھ ملانے کے انداز میں آگے کیا ہوا ہے‘ جبکہ وکیل بائیں ہاتھ مڑ کر آرمی چیف سے مصافحہ کرتا ہے۔ پھر چھلنی بدن کی ساری قوت جمع کرکے وزیر اعظم سے کہتا ہے: آپ گھبرائیں مت‘ ہمت کریں‘ ہمت کریں ہمت۔ کوئٹہ سانحہ کے زخمی وکیل نے یہ بات بار بار دہرائی۔ جناب نواز شریف کی باڈی لینگوئج اور نہ ہی الفاظ اس وکیل کے حوصلے، عزم اور ہمت کو کسی طرح ''میچ‘‘ کر سکے۔ نہ ہی وزیر اعظم کے پاس مظلوموں کو دینے کے لئے کوئی پیغام تھا۔ زخمی وکیل کا ردِ عمل ''را‘‘ اور مودی سرکار کو کلین چٹ دینے والوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہونا چاہیے‘ مگر یہ کاروباری مفادات کی سیاست ہے‘ جس کے سینے میں دل تو نہیں مگر جیب میں ٹیکس اور قرض کے بھاری بل ہر وقت موجود رہتے ہیں۔
ہندوتوا اور پاکستان میں اس کے ''لے پالک‘‘ جانتے ہیں کہ مودی کی سیاست اور چانکیہ کا فلسفہ پاکستانیت کو فتح نہیں کر سکتا۔ ہاں البتہ تجارتی راستہ آسان ہے۔ پوٹھوہاری زبان میں مثل مشہور ہے۔
''منہ کھاتا ہے، آنکھ شرماتی ہے‘‘