پاکستانی عوام کی جنگ لڑنے کی ذمہ دار کابینہ تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ملک کی سلامتی کے اداروں کے خلاف لابنگ کرنے کی مخالفانہ گفتگو کرنے اور گفتگو کروانے کی ڈیوٹی دیتا ہے۔ یہ گروپ آج کل خاصا کامیاب جا رہا ہے۔اس کا پھیلایا ہوا زہر دیکھا بھی جا سکتا ہے، سنا بھی جا سکتا ہے، پڑھا بھی جاسکتا ہے اور زخم رسیدہ قوم اسے محسوس بھی کرسکتی ہے۔
دوسرا گروہ، پاکستان کے معاشی مفادات کے لنڈا بازار میں خریدوفروخت پر مامور ہے۔ اسے یہ بھی خبر نہیں کہ کوئٹہ نام کا کوئی شہر بھی ہے اور اس میں قانون وانصاف کے رکھوالوں پر کیا قیامت بیت گئی۔ اسی گروہ میں وہیں کا ایک جرنیل بھی شامل ہے جو مشرف کے اقتداری ٹولے کی سب سے پرانی نشانی اور بلوچستان کا مقدمہ لڑنے سے فرار شدہ ہے۔ تیسرا گروہ، باہم دست و گریبان وزیروں کا ہے جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہر وقت ایک ودسرے کے خلاف سکینڈل، خبریں اور بریکنگ نیوز فراہم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
عزیز ہم وطنو، یہی شاندار ماہرین کی وہ ٹیم ہے جو ایسے میدانِ جنگ میں پاکستان کو لیڈ کر رہی ہے۔ جہاں سویلین آبادی کے شہیدوں کے اعداد و شمار ہی کسی کو معلوم نہیں۔ آئے دن پولیس فورس کے شہدائے وطن کے ورثا تلاش گمشدہ کی طرح لیڈروںکو ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ اس تلاش کا نیا میدان ٹی وی کی سکرین ہے۔ اوّل و آخر تاجر حکمرانوں کے لمبے چوڑے دعوؤںکا نوحہ اور ماتم کرنے والوں میں ان شہیدوں کی مائیں اور بیٹیاں سب سے آگے ہیں۔ لاوارث بوڑھے والدین بھی اس ماتم کدے کے ماتم کرنے والوں میں شریک ملتے ہیں۔
برسر اقتدار ٹولہ ملک کا آدھا خزانہ مختلف حربوں سے لوٹ لیتا ہے۔ باقی آدھے خزانے کا مصرف اخباری، ریڈیائی اور نشریاتی اشتہارات پر اخراجات ہیں اوراس کے بعد جو بچتا ہے بندر بانٹ والے میگا پراجیکٹ کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری سر کے بَل نیچے آ چکی۔ صنعت اور تجارت کے فلک بوس شعبے زمیں بوس کر دیے گئے۔ حکمران، ان کے لانگری، حواری، مشیر اور کفگیر اپنے اپنے مخالفوں سے گلوگیر ہیں۔رینجرز، لیویز، ایف سی اور دیگر شعبوں کے جوانوں کے ادھڑے ہوئے چپل اور مسلسل دھلائی سے بوسیدہ شلوار قمیض یا کپڑے دیکھنے ہوں تو اسلام آباد کی مارگلہ ایونیو پر ان کے عارضی چھپروںکا دورہ کر کے دیکھ لیں۔
اجیت دوول مودی کا یار نہیں بلکہ ہندوتوا کی تازہ ترین چانکیہ سیاست کا سب سے بڑا مہرہ ہے۔ اگلے روز اس کی تقریر ٹی وی سکرینوں کی زینت بنی۔ اجیت نے کہا: ''ایک ممبئی کا بدلہ پورے بلوچستان پر لیںگے۔ بھارت پاکستان کے اندر تخریب کاری کرے گا۔ ہم ہر جگہ گھس جائیں گے اور پاکستان کی سلامتی کو نابود کر دیں گے‘‘۔ اگلی ویڈیو میںیہی اجیت دوول بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ رائیونڈ پیلس کے اندر بیٹھا نظر آیا۔ مودی اور اجیت کے پہلو میں نواز شریف اور شہباز شریف برا جمان ہیں۔ ان چاروںکے درمیان چہک چہک کر عزیزانہ مسکراہٹوں کا تبادلہ ویڈیو میںصاف نظر آتا ہے، لیکن آواز سنائی نہیں دیتی۔ انگریزی کا محاورہ ہے: ''ایکشن آواز سے اونچا بولتا ہے‘‘۔
آئیے اب ذرا یکشن بھی دیکھ لیں۔ 24 گھنٹے پہلے بھارتی وزیراعظم نے بلوچستان کے اندرونی معاملے پر ہرزہ سرائی کی۔ چند ماہ پہلے اس کی فوج کا حاضر سروس کمانڈرکلبھوشن یادیو بلوچستان کے علاقے سے ہی گرفتار ہوا۔ پاکستان کے اندر اقتدار پر برا جمان خاندان کی خاموشی کل بھی سوالیہ نشان تھی اور آج بھی سوال ہی ہے۔ حالاتِ حاضرہ کے اس تناظر میں کورکمانڈرز کے درمیان بیٹھ کر راحیل شریف کی صدا بقول شاعر یوں سامنے آئی ؎
ترس گئے ہیں صدا ہائے خُوش نُما کے لئے
پکار وادیٔ خاموش سے خُدا کے لئے
یہاں ضروری ہو گا، ہم مزید دو باتیں بھی پیشِ نظر رکھ لیں۔ پہلی بات یہ کہ اس وقت حکومت کے دستر خواں پر پلنے والے لشکری، سوشل میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک اور پرنٹ میڈیا سے سینہ گزٹ تک ایک ہی تاثر کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوج سے جمہوریت کو سخت خطرہ ہے۔ صبح، شام، دوپہر اور رات کسی وقت بھی''ٹیک اوور‘‘ ہو جائے گا۔ لہٰذا عوام ترکی ماڈل کو سامنے رکھیں اور باہر نکلنے کی تیاری مکمل کر لیں۔ دوسری طرف ایک معروف ڈاکٹر اینکر نے اپنے انداز میں کچھ تبصرہ کیا۔ آئین کے آرٹیکل 204 کے مطابق توہینِ عدالت کی کارروائی کرنا یا نہ کرنا آئینی عدالتوں کا دائرہ اختیار ہے۔ مارشل لاء کا ڈنڈھورا پیٹ کر اپنے حواریوں اور رشتہ داروںکے پیٹ بھرنے والی جمہوریت نے وزارت ِ غلط اطلاعات اورسرکاری نشریات کے ایک ذیلی ادارے سے توہینِ عدالت کا تاثر ملنے پر میڈیا کا گلہ گھونٹ ڈالا۔ آئین کی جن دو شقوں میں عدلیہ کو سیکنڈلائز کرنے سے منع کیا گیا ہے انہی دونوں آرٹیکلز کے اندر یہ بھی درج ہے کہ فوج کو بھی سکینڈلائز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کیسے کیسے نورے،کیا کیا پروپیگنڈے نہیں کر رہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے مودی سے لے کر اجیت دوول تک سب بے قصور ہیں۔ ایک ہی ادارہ ہے جس کی وجہ سے اقتدار کے سارے ایوان خطرے کے ''انٹری گیٹ‘‘ پر کھڑے ہیں۔
فوج کے کمانڈر راحیل شریف نے درد مندی سے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ اس میں شک بھی کیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان نواز شریف کی ترجیح کب تھا؟ جہاں بھی تاجر اقتدار میں ہو گا اس کے لئے ''فنا نشنل‘‘ ایکشن پلان اور ''پرسنل‘‘ ایکشن پلان ہی زندگی کا مقصد ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وطنِ عزیز کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کسی جنگ میں اتنے جرنیل کام آئے ہوں یا اتنے کمانڈنگ آفیسر شہید ہوئے ہوں جس قدر پاکستان میں بحالیٔ امن کے لئے ہو چکے ہیں۔ نواز حکومت بتائے اس نے نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے لئے کیا کیا؟ جو کابینہ اپنی فوج کی مخالف ہو اور اس کی حمایت کے شبہ میں ایک عدد وفاقی وزیر کو''مشتبہ‘‘ بنا کر رکھ دے ، اس سے بہتر ملک کی بربادی کا اورکیا نسخہ(Recipe) ہو سکتا ہے؟
جنرل شریف کی شرافت کی حد دیکھیں، وہ صرف اتنا کہہ سکے: ''نیشنل ایکشن پلان پر سست روی ہے‘‘۔ پھر کہا: ''بعض بیانا ت اور تجزیے قومی مقاصد کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘‘۔ پاکستان کے عوام یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ قومی مقاصد کو نقصان پہنچانے والے بیانات اور تجزیے زیرِ زمین نہیں ٹی وی پر آ رہے ہیں۔ اخبار میں چھپتے ہیں اور کیمروں کے سامنے ببانگِ دہل بول رہے ہیں اور یہ سارا کچھ جمہوریت کا حسن ہے۔ مجھے یقین ہے، قائداعظم اور علامہ اقبال جیسے مشاہیر نے ایسی جمہوریت کا خواب کبھی نہیں دیکھا تھا جو اپنے دفاع کے لئے دیوارِ چین جیسی دیوار بنائے اور وطن کے دفاع کی بات آئے تو ان کے گلے میں بھارت کی یاری پھنس جائے۔ پاکستان کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے اس وقت ایسے ٹائیگر کی ضرورت ہے جو دھاڑ نہیں سکتا تو دبک کر تو نہ بیٹھے۔ جوغُرّا نہیں سکتا تو دم کو بغل میں تو نہ چھپائے۔ آج پاکستانی احمد فراز کو پھر یاد کرتے ہیں ؎
میرا قلم نہیں اوزار اس محافظ کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے